کیا کوئی امید کی کرن ہے ؟

محترم قارئین ! ویسے تو لکھنے لکھانے کا اس ملک میں کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ ہر صا حب اختیار اور صاحب اقتدار سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نہ کوئی سرکاری ادارہ ایسا ہے جس کے ذمہ یہ کام ہو کہ وہ حکو مت وقت کو مناسب پالیسی سازی میں مدد دے۔ اگر کوئی ہے تو اس کی کوئی سنتا نہیں۔ اور نہ ہی کو ئی نجی ادارہ ایسا ہے کہ اس کام پر اپنا وقت ضائع کرے کیونکہ کسی بات کے سنے جانے کا کو ئی امکان سرے سے موجود نہیں ۔ سرکاری افسران کی اکثریت صرف مال بنانے اور نوکریاں بچانے کے چکر میں ہے۔ ہرسال اربوں روپے اس غریب قوم کے لوٹ کر بیرون ملک جمع کروا دیئے جاتے ہیں۔ یہ کام قیام پاکستان سے اب تک جاری ہے۔ اور اس وقت تک کی ادھوری معلو مات کے مطابق ۲۰۰ ارب کی معمو لی سی رقم بیرونی ملکوں میں موجود ہونے کی اطلاع ہے۔ اور جو رقم ملک کے اندر سیاست دانوں ، افسروں ،ججوں اور جرنیلوں نے عیاشی میں اڑائی ہے اور اڑا رہے ہیں اس کا شمار بھی مشکل ہی نہں نا ممکن ہے۔ افسران کے بچے بے حد مہنگے سکولوں میں زیر تعلیم ہی نہیں ان کے وہاں اخراجات اور نئی نویلی گاڑیاں ٓا ج بھی اس غریب قوم کا (اگر ہے بظاہر تو ایسا دکھائی نہیں دیتا) منہ چڑا رہے ہیں۔پھر گھروں میں بیگمات کے نخرے اور خرچے گاڑیوں کا بے مہابا استعمال۔ نوکر چاکر ۔ اب تو مسلمان ملکوں کے علاوہ یہ رسمیں ختم ہو چکیں مگر پاکستان کی افسر شاہی اور سیا ست آج بھی جبکہ ملک تباہی کے کنارے پے ہے ا س عیاشی میں مصروف ہے۔ یہاں قانون اندھا ہے اور صرف غریب کی گردن نوچتا ہے۔ یہاں تعلیم سب سے بڑی تجارت بن چکی ہے۔ غر یب لوگوں کی جیب پر ہر سال ٹیوشن مافیہ اربوں کا ڈاکہ ڈالتا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔ سرکار نے ان کے لئے آسانیاں پیدا کر نے کے لئے انٹری ٹیسٹ کی رسم بھی شروع کر رکھی ہے۔ اور ابھی ان کے ترکش میں بہت تیر ہیں تبھی بار بار یاد کرواتے رہتے کہ ملکی ترقی کے لئے مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے قوم تیار رہے۔ملک بھر میں جھوٹ، بے ایمانی، رشوت ستانی، ہیرا پھیری کا بازار گرم ہے مگر حکومت ایسے اندھوں کی ہے کہ انہیں اپنے مفاد کے علاوہ اور سب اچھے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا۔اس سب پر طرہ یہ کہ کچھ سننے کو تیار نہیں ایک ہی رٹ کہ ہمیں مینڈیٹ ملا ہے۔ ارے بھائی کیا یہ مینڈ یٹ ملک کی تباہی کے لئے دیا گیا ہے ؟ یا لوگوں کو ذبح کر نے کے لئے دیا گیا ہے ؟ کیسا تما شا ہے بجلی مشکل سے دستیا ب ہو تی ہے مگر بل دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ بندہ خود کشی کر لے۔ آجکل صنعت کا دارو مدار اسی نا یاب شے پر ہے نہ یہ موجود ہے نہ صنعت ترقی کرے نہ روز گار میں اضافہ ہو۔ نہ قوم کو افاقہ ہو۔ یہاں کس کس بات کا تذکرہ کیا جائے۔ مو جودہ حکمرانوں کی بے حسی اور ملک سے قانون کی دھجیاں اڑانے اور بد ترین گوررنس کی ، مہنگائی اور بد ترین بد انتظا می کی ، میرٹ کی عفت تار تار کرنے کی الغرض کوئی ایسی صورت نظر نہیں آتی کہ امید کی کوئی کرن دکھائی دے-

میرے دیس کے پیارے لوگو ! میں نے اس قافلے کو بار بار لٹتے دیکھا ہے۔ راہبروں کے روپ میں ہمیشہ اس قوم کو راہزن ملے۔ اب کم از کم میری امید تو ٹوٹ چلی۔ کیو نکہ اب تک کبھی ایسا نہیں ہواکہ با اثر اور عام فرد پر قانون کا یکساں نفاذ ہوا ہو ہاں کبھی کبھی افراد کے ذاتی ٹکراؤ نے یہ صورت حال ضرور پیدا کی کہ با اثر افراد ذاتی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے یا سیاسی وجوہات کی بنا پر پابند سلاسل ضرور رہے۔مگر قانون کی یکساں نفاذ کے فلسفے کی بنا پر کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان میں کسی حکمران کی سواری کسی سگنل پر رکی دیکھی گئی ہو بلکہ ان بادشاہوں کی آمد سے کئی منٹ قبل ہی لوگوں کی آمد و رفت بند کر دی جاتی ہے۔انصاف کا حصول اس قدر سہل اور سستا اور تیز رفتار ہے کہ اس کے حصول تک لوگ یا تو اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا جان سے چلے جاتے ہیں اور ان کی اگلی نسل انصاف ک۔ ہر الیکشن کے وقت لوگوں سے وعدے کئے گئے مگر ۱۹۴۷ سے آج تک ایک فیصد بھی بہتری اس میدان میں نہ آ سکی۔اور اگلے سو سال تک بھی اس کا کوئی امکان نہیں کیو نکہ اس وقت بھی اقتدار میں موجود لوگوں سے لیکر اپوزیشن تک تمام ہوس زر اور خود بسندلوگوں کے گروہ در گروہ عوام کو دھو کہ دینے میں نہ سرف سر گرم ہیں بلکہ اس کوشش میں وہ ملک کو تباہ کرنے سے بھی گریزاں نہیں ۔ حیرانی و پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ سادہ لوگ ان لیڈران کی بات بغیر کسی عقلی دلیل کے مان کر زندہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ایک دوسرے کو قتل تک کر ڈالتے ہیں اور پھر انہیں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے رہتے ہیں اور بار بار ۶۷ سالوں سے یہ غلطی کر کے بھگت رہے ہیں اور رک کر کبھی اپنے پیارے لیڈروں کا نہ کردار دیکھتے ہیں نہ ان کے ماضی پر نظر کرتے ہیں نہ ان کے آئندہ گیم پلان کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں-بس آزادی مارچ اور انقلاب کے دیوانے بنکر روٹی کپڑ ا اور مکان کے متلاشی بنکر اور نظام مصطفےٖ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عاشق بنکر نکل کھڑے ہوتے ہیں مگر آج تک ان کے ہاتھ کیا آیا ؟ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر میری ٹائپنگ سپیڈ اتنی ہے کہ دو دنوں میں اتنا ہی ٹائپ کر پا یا ہوں ۔اگر ضرورت پڑی تو کوشش کروں گا ۔امید ہے ضرور ت نہیں پڑیگی کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں سچ کہنے اور سننے سے پر ہیز ہے۔ سچ سن کر ہمیں بد ہضمی ہوتی ہے -

کیا آج بھی ہم سوچیں گے یا اسی پرانی روایت کو بر قرار رکھیں گے اور ڈستے چلے جائیں گے ؟ براہ کرم کسی کے پاس اگر سچا اور کھرا جواب ہے تو ایمان داری اور غیر جانب داری سے عنا یت فرمائے ۔ شکریہ

Muhammad Adeel
About the Author: Muhammad AdeelCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.