گلابی جوڑا (قسط۲ )

عصرکی نماز کے بعد ہما بدو خالہ کے یہاں میلاد میں چلی گئی تو حسب معمول سب سے ملی اور سب ہی اس سے ملنے لگیں وہ بھی ہنس ہنس کر سب کی خیریت دریافت کر رہی تھی -

شاہدہ باجی آپ کی بیٹی بانو کیسی ہے میں گھر کے کاموں میں مصروف تھی دو دن سے سوچ رہی ہوں آپ کے گھر آنے کا سنا تھا کہ اسے بخار ہو گیا تھا شاہدہ باجی بھی بڑے لہک کر بولیں ؛ ارے کوئی بات نہیں ظاہر ہے تم بھی اپنے گھر بار میں مصروف ہوویسے وہ اب ٹھیک ہے دو دن میں ڈاکٹر کی دوا سے بخار تو اتر گیا ہے بس زرا کمزوری ہے دو دن میں پیلی پڑ گئی بچی-

ہما : ہاں یہ تو ہے اسے اب زیادہ اچھا کھانا کھلائے گا ٹھیک ہو جائے گی جلد ہی ہما اب حمیدہ خالہ سے مخا طب ہوئی اور حمیدہ خالہ خالو کیسے ہیں میں نے صابر سے ان کی دوا منگوادی ہے کل صبح آپ کے گھر دے جاؤں گی-

حمیدہ خالہ بلایئں لیتے ہوئے ائے جیتی رہے میرے بچی تم دونوں میاں بیوی تو میرے بچوں کی طرح ہو تم دونوں کو بہت سی خوشیاں ملیں سدا سکھی رہو آباد رہو ورنہ میں اس بڑھاپے میں کہاں سرکاری اسپتالوں میں دواوں کے لیے خوار ہوتی پھرتی-

ہما اب شازیہ سے مخاطب تھی شازیہ بھابی کیسی ہیں آپ؛ آپ کے بھائی کی شادی تھی نا کیسی رہی سب کام اچھے سے ہوگئے اصل میں ہمارے اک دور کے رشتے دار ہیں ان کے گھر فوتگی ہو گئی تھی تو وہاں جانا ضروری ہو گیا تھا ورنہ میں ضرور آتی شازیہ؛ ارے کوئی بات نہیں میں ناراض تھوڑی ہوں ویسے بھی اسی لیے ہی تو کہتے ہیں کہ بھلے کسی کی خوشی میں شامل نہ ہو دکھ میں ضرور شامل ہونا چاہیے ہاں سب اچھے سے ہو گیا دلہن تو بہت ہی پیاری لگ رہی تھی تم نے جوڑا بھی تو بہت پیارا سیا تھا اور سب میرے جوڑے کی بھی بہت تعریف کر رہے تھے میں نے تو کہہ دیا کہ بھئی میں کسی ایسے ویسے ٹیلر سے نہیں سلواتی میرے کپڑے تو ہما ہی سیتی ہے -

میلاد کی محفل شروع ہو رہی تھی سب خاموش ہو کر بیٹھ گئیں -

پوری میلاد کی محفل میں دونوں ماں بیٹیاں شمع اور افشاں جلتی رہیں میلاد ختم ہوا اور ابھی کھانا لگاہی تھا کہ شمع ہما کے پاس آئیں بھئی کب تک یہی اک جوڑا پہنتی رہو گی آنکھیں دکھ گئیں ہیں ہماری تو اسے دیکھتے دیکھتے ایسی کنجوسی بھی اچھی نہیں ہوتی اور دونوں ماں بیٹیاں زور زور سے ہنسنے لگیں ہما کو کبھی کسی سے حسد جلن نہیں ہوئی تھی لیکن ان کے مذاق اڑانے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ اسے بہت تکلیف ہوئی اندر ہی اندر کچھ ٹوٹا تھااور اس کہ دل سے اس وقت بد دعا نکلی اے میرے مالک تو ہی ان کو ان کے اس شر کا جواب دے میں نہیں دے سکتی ان دونوں ماں بیٹیوں کی دیکھا دیکھی اور محلے کی اک دو خواتین بھی ہنسنے لگیں اور کہنے لگیں ہاں بھئی سب کے کپڑے سیتی ہو کبھی اپنے لیے بھی سی لیا کرو-

پھر بھی ہما نے ہمت سے کام لیا اورہنستے ہوئے کہاواہ بھئی میرا اپنا جوڑا ہے جتنی بار چاہوں گی پہنوں گی کسی سے مانگ کر تھوڑی پہنا ہے جو اک بار پہن کر واپس کو دوں اور ویسے بھی زیادہ کپڑے بناؤں گی تو اوپر جا کر حساب تو مجھے ہی دینا پڑے گا میں تو ایسے ہی خوش ہوں اور پھر دوسری باتوں میں بات آئی گئی ہو گئی گھر آکر بھی ہما کے دل میں یہ بات چبھی رہی اسے رونا آرہا تھا مگر صابر کے سامنے خود پر قابو رکھا اور اسے کچھ نہ کہا مگر دل ہی دل میں اک ارادہ کر لیا تھا کہ وہ کچھ گھر بیٹھے کام کرے گی جس سے آمدنی بڑھے -

وہ لوگ سو گئے آدھی رات کو محلے میں شور مچا تھا ہما اور صابرکی بھی آنکھ کھلی باہر جا کر دیکھا تو----
بقیہ اگلی قسط میں
samina fayyaz
About the Author: samina fayyaz Read More Articles by samina fayyaz: 12 Articles with 26637 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.