کینسر

پاکستان میں سیاست دانوں کی مہربانی اور نوازشات سے روزانہ ہزاروں لوگ بے موت مارے جاتے ہیں ، لوگ طبعی موت کم اور ایکسیڈینٹ یا بیماریوں سے زیادہ موت کا شکار ہوتے ہیں دونوں صورتوں میں علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان میں علاج نہیں ہوتا کیونکہ بعض بیماریوں یا جسم کے اعضا کا نام لینا غیراِ خلاقی یا شرمناک سمجھے جاتے ہیں اِسی وجہ سے کئی لوگ جان بوجھ کر موت کو گلے لگاتے ہیں ۔
اموات کی ایک وجہ تو بیماری کا پتہ نہ چلنا اور صحیع علاج نہ ہونا اور دوسری سب سے بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ۔

یہ مفاد پرست سیاستدان اگر ملک میں نظامِ تعلیم درست کریں تو شاید اموات میں کمی واقع ہو کیونکہ جب مریض اپنی بیماری کو راز میں رکھے گااور ڈوکٹر کو نہیں بتائے گا وہ علاج کرنے سے قاصر ہو گا اور اس مریض کی موت کا ذمہ دار ملک کا رہنما یا لیڈر ہوا جس نے عوام کو تعلیم جیسی بنیادی سہولت فراہم نہیں کی اِس صورت میں وہ ملک و قوم کا رہنما نہیں بلکہ قاتل کہلایا جانا چاہئے ،یہ بے حس حکمران غربت اور مہنگائی میں اِضافہ اِ سی لئے کرتے ہیں کہ لوگ تڑپ تڑپ اور سِسک سِسک کر مریں اور الزام اﷲ کو دیں کہ اُس کی مرضی تھی مجھ پر کوئی آنچ نہ آئے ۔

عالمی ادارہِ صحت WHOنے کینسر کے عالمی پھیلاؤ کے بارے میں نئی سنگین پیشنگوئی جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مغربی ادویات بھی اس مرض پر قابو پانے میں ناکام ہو چکی ہیں اور اگلے پندرہ سال میں مزید اضافہ ہو جائے گا ، سب سے بڑا اضافہ ترقی پذیر ممالک میں متوقع ہے ، نئی کینسر تشخیص کے مطابق سالانہ تعداد سینتیس فیصد ہونے کا امکان ہے دو ہزار تیس تک کینسر کے مریضوں کی تعداد چودہ میلین سے بڑھ کر اٹھائیس میلین ہو جائے گی ، کینسر کی سب سے زیادہ تعداد ترقی پذیر ممالک میں ہو گی ، ماہرین کا کہنا ہے کینسر کے واقعات کا دنیا بھر میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن سب سے زیادہ متاثرہ ممالک جو مغربی معیار کے مطابق ترقی کی راہ میں ہیں جن میں چین اور انڈیا شامل ہیں ان ممالک میں جدید شہروں کی طرزِ زندگی اور فاسٹ فوڈ میں جہاں تیزی سے امریکا اور یورپ کے ماڈل کہ طور پر اضافہ ہو رہا ہے وہاں دوسری طرف شدید نقصان بھی ، کیونکہ جسمانی ورزش نہیں کی جاتی اور بیماری کی صورت میں مغربی ادویات یا سرجری کی نوبت آجاتی ہے ، رپورٹ کے مطابق جینیاتی ترمیم شدہ کھانے ہی کینسر کا سبب بنتے ہیں آج کی غذا اور کپڑے مرد و خواتین میں چھاتی کے کینسر کا خطرہ پیدا کرتے ہیں ،خواتین میں بانجھ پن بھی پیدا ہو سکتا ہے ، ڈبلیو ایچ او کی تحقیق کے مطابق سگریٹ نوشی اور الکوحل کینسر کی سب سے بڑی اور اہم وجوہات ہیں ، مغربی ثقافت کے اطوار ترقی پذیر ممالک میں پھیل جانے سے وہ بری طرح متاثر ہوئے ہیں ، مغرب میں علاج کی سہولتیں موجود ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں علاج نہ ہونے پر صرف اموات ہوتی ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے بریسٹ کینسر جیسی مہلک بیماری کو پاکستان میں راز رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر سال تقریباً پچاس ہزار خواتین کی اموات ہوتی ہیں بریسٹ کینسر جیسے موذی مرض کا نام لینا ملک میں غیر اِخلاقی اور شرمناک سمجھا جاتا ہے ، حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اتنے لوگ دہشت گردی سے نہیں مرتے جتنا خواتین بریسٹ کینسر سے ۔

امدادی تنظیمیں تبدیلی چاہتی ہیں لیکن اُن کے راستے میں ملک کا کلچر روکاوٹ ہے کیونکہ بریسٹ (چھاتی) ایک غیر اخلاقی اور شرمناک لفظ سمجھا جاتا ہے ، تنظیم کا کہنا ہے جب خواتین یہ لفظ کہنے یا سننے میں شرم محسوس کرتی ہیں تو امدادی کارکن اس مرض کا کیسے علاج یا مدد کر سکتے ہیں کیونکہ اِس لفظ کو صحت کی بجائے جنسی معاملات سے منسلک کیا جاتا ہے اس لفظ کو عام طور پر ایک عورت نہ تو اپنی فیملی میں اور نہ ہی کلینک میں ڈوکٹر کے سامنے بیان کر سکتی ہے۔پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح پر اعداد و شمار نہیں بلکہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اِس بیماری سے ہر سال تقریباً پچاس ہزار سے زائد خواتین کی اموات ہوتی ہیں ہر دس میں سے ایک عورت اس بیماری میں مبتلا ہے ، اِس طرح پاکستان ایشیا بھر میں سرطان کی شرح میں سب سے زیادہ ایفیکٹڈ ہے یہ بیان امدادی تنظیم کے اونکولوجسٹ نے دیا ۔

موجودہ نظامِ صحت اور تشخیص کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بیماری کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گی ان کا کہنا ہے ملک کے مختلف ہوسپیٹلز میں داخل چھ سو خواتین میں ستر فیصد اس بیماری سے لاعلم ہیں ، اَسی فیصد کیلئے یہ بات نئی تھی کہ وہ خود بریسٹ میں گرہ ،گانٹھ ، گٹھلی تلاش کر سکتی ہیں ،اٹھاسٹھ فیصد کو پتہ ہی نہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے۔اونکولوجسٹ نے بتایا کہ روایتی پابندیاں روشن خیالی کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہیں انہوں نے بتایا کہ ایک یونیورسٹی میں بریسٹ کینسر کے بارے میں لیکچر دینا تھا تو سٹوڈنٹس لڑکیوں نے چھاتی لفظ کہنے کی اجازت نہیں دی اور مطالبہ کیا کہ لڑکوں کو ہال سے باہر نکال دیا جائے ،علاوہ ازیں ملک کے ہوسپیٹلز میں ٹیکنولوجی کی کمی ہے، بہت سی خواتین تنگ آکر ٹریڈیشنل علاج (جعلی پیر ،حکیم )شعبدہ بازوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں اور بیماری کی آخری حد میں ڈوکٹرز سے رجوع کرتی ہیں لیکن وقت گزر چکا ہوتا ہے ، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بریسٹ کینسر جیسی بیماری سے زندہ بچنا مشکل ہے کیونکہ اصل بیماری کا پتہ بہت دیر بعد چلتا ہے ، بہت سی خواتین اِس بیماری کے بارے میں اپنے شوہر کو نہیں بتاتیں وہ لاعلم رہتے ہیں ، بیوی اِس بیماری سے آگاہ نہیں اور شوہر کو بتانا مناسب نہیں سمجھتی اور تکلیف برداشت کرتے موت کے منہ میں چلی جاتی ہے۔

نئی تشخیص کے مطابق تیزی سے نتائج فراہم کرنے کیلئے ماہرین کا خیال ہے کہ بلڈ ٹیسٹ سے خفیہ راز عیاں ہو سکتا ہے کسی تھیراپی کو شروع کرنے سے پہلے بلڈ ٹیسٹ لازمی ہے کیونکہ اس کا نتیجہ فوری آجاتا ہے اور مریض کو طویل انتظار نہیں کرنا پڑتا ، بلڈ ٹیسٹ سے ماہرین پتہ لگا سکتے ہیں کہ ٹیو مر خلیات کی گردش کتنی رفتار سے ہے ، آیا تھیراپی کی ضرورت ہے یا میڈیسن سے علاج کیا جا سکتا ہے ، تھیراپی سے زندگی بچانے کے چانس پیدا ہو جاتے ہیں ، یہ بیان جرمنی کے شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی کلینک کہ ڈیپارٹمنٹ این سی ٹی (نیشنل سینٹر اوف ٹیومر ) کے ڈوکٹر پروفیسراینڈریو ۔ شنے وائس نے دیا ۔

ماہرین کی مطالعہ کے بعد امید۔ہمارا مطالعہ اِسی سال منعقد ہونے والے سالانہ اجلاس جو کہ ستائیس سے انتیس جون تک میونخ میں ہو رہا ہے پیش کیا جائے گا اس اجلاس میں ڈھائی ہزار ڈوکٹرز اور بریسٹ کینسر سے نمٹنے والے دیگر طبی عملے کے لوگ شرکت کریں گے ، مطالعہ میں بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے خواتین کی اس بیماری پر مدد حاصل ہو گی اور فوراً تھیراپی کا عمل کیا جائے گا ، ٹیومر خلیات کا پتہ لگانے کیلئے بلڈ ٹیسٹ اور ایکسرے کے بعد ہم فوری اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ تھیراپی اور میڈیسن سے علاج ہو سکتا ہے

تحقیقات سے نئی رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پھیپھڑوں یا پیٹ کے کینسر میں جو تھیراپی یا میڈیسن استعمال کی گئی تھی انہیں اب بریسٹ کینسر کے مریضوں پر استعمال کرنے کا تجربہ کیا جائے گا ابھی طبی ٹیسٹ مکمل نہیں ہوا کچھ وقت درکار ہے فی الحال نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے تجزیئے اور تجربات کی جانچ کی جارہی ہے اور مستقبل قریب میں اس بیماری پر قابو پا لیا جائے گا ۔

دنیا بھر میں ہر انسان کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے کئی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور انسان تندرست ہو جاتا ہے ،پاکستان میں ان گنت بیماریا ں ہیں جو علاج کرانے سے دور ہو جاتی ہیں لیکن تین بیماریا ں لاعلاج ہیں ۔نمبر ایک ۔سیاسی بیماری ۔ نمبر دو ۔ جنسی بیماری ۔ نمبر تین۔م۔۔۔بیماری۔اس بیماری کوصیغہ راز میں رہنے دیا جائے بلکہ ایک کوئیز ہے؟۔
یہ وہ بیماریاں ہیں جن سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں ، جس دن ان بیماریوں پر قابو پالیا گیا اس دن ملک اور قوم صحیع معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔

سیاسی بیماری ۔ اس بیماری کا الف بے جن رہنماؤں کو نہیں آتاان کے نقشِ قدم پر چل کر کسی عام انسان کو کوئی فائدہ نہیں عوام کو اس بیماری میں مبتلا کر دیا جاتا ہے وہ وہیں کے وہیں رہتے ہیں اور اپنی ہی پالی کوڑھ سے بھی بد تر سیاسی بیماری کے زخم تمام عمر چاٹتے ہیں اور رہنما عیاشی کرتے ہیں اس لئے اس ریاست کی سیاست سے کوسوں دور رہنا بہتر ہو گا۔آپ تندرست رہیں گے۔

جنسی بیماری ۔قرآنِ حکیم میں فرمایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے نفس پر قابو نہیں پا سکتا وہ ہم میں سے نہیں ہے ، ٓآئے دن پاکستان میں خبریں ہر نیوز چینل پر دیکھنے کو ملتی ہیں کہ امام مسجد نے معصوم بچوں کے ساتھ بد فعلی کی وہ معصوم مساجد اور مدارس میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں اور مولوی انہیں اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں ،ایسے درندہ صفت لوگ معاشرے میں ناسور ہیں ان کے گھناؤنے عمل سے کیا کوئی ماں باپ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیم کی خاطر مدراس بھیجے گا ؟

م۔۔۔بیماری۔یہ بیماری نہیں اٹل حقیقت ہے لیکن اسے ہمارے معاشرے میں ہر فرد نے اپنے اپنے طور طریقوں سے حقیقت کی بجائے کھیل بنا دیا ہے اور اپنی سوچ اور ڈھنگ سے اسے استعمال کرتے ہیں یہ تین بیماریاں کینسر ، ٹی بی یا ایڈس سے زیادہ مہلک اور خطرناک ہیں، ایک دن ایسا بھی آئے گا جب کینسر ٹی بی اور ایڈس پر قابو پا لیا جائے گا لیکن پاکستان میں اتنی بیماریاں ہیں کہ ان پر قابو پانا ناممکن ہے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228336 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.