فیس بک اور دھوکہ ۔۔۔

بلاشبہ یہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور دنیا سکڑ کر گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ آئے روز نت نئی تحقیقات ہورہی ہیں جن میں ہمارا حصہ بالکل زیرو ہے ، میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ ہماری آخری ایجاد چارپائی تھی جبکہ مغرب نے گذشتہ ہفتے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں انقلاب برپا کردیا وہ یہ کہ آپ اب ایس ایم ایس کے ذریعے ایک دوسرے کو خوشبو بھی بھیج سکیں گے۔ جبکہ ہماری نوجوان نسل فیس بک پر لڑکیوں کی تصویریں لگا کر لڑکیوں سے دوستی کرنے میں اپنی ساری توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ راز فاش کرکے اپنی جعلی محبت میں لڑکیوں کو گرفتار کرکے دھوکہ دیتے ہیں۔ آخر اس سب کی کیا وجہ ہے ؟ میں سمجھتا تھا کہ اسکی وجہ شائد تعلیم کی کمی ہے؟ لیکن جب میں نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی اس دھندہ میں ملوث پایا تو مجھے اپنی سوچ کا زاویہ بدلنا پڑا۔ آجکا آرٹیکل لکھنے کی وجہ اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہروی ہے اگر اسے ہم نے نہ روکا تو ہمارے بربادی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ پچھلے دنوں میری نظر سے ایک خبر گذری جسے پڑھ کر میری روح تک کانپ اٹھی ، خبر یہ تھی کہ بہن بھائی نے فیس بک پر نام اور تصاویر بدل رکھیں تھیں اور دونوں آپس میں ہی محبت فرما رہے تھے۔ آخرکار انھوں نے ملاقات ایک باغ میں طے کی اور جب ملے تو بہن بھائی نکلے، اسکے بعد بھائی نے خودکشی کرلی۔ شادی سے پہلے محبت کا سرے سے میں تو قائل نہیں ہوں جسکی وجہ سے ہمیشہ اپنے عاشق مزاج دوستوں کے طعنوں کی ہٹ لسٹ پر رہتا ہوں جو مجھے مولوی اور بیک ورڈ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں جبکہ جب مولویوں سے کسی مسئلہ پر بحث کرتا ہوں تو وہ سیکولر اور لبرل ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ خیر عاشق برا نہ منائیں میرا نظریہ اور رائے ہے سو فیصد میں غلط ہوسکتا ہے، نہ عقل کل ہوں نہ فاضل جلیل۔ دو یا تین محبتوں کے سوا ہر محبت کے پیچھے کوئی نہ کوئی غرض ، مقصد ، امید کارفرما ہوتی ہے۔ ہم اتنے خود غرض معاشرے کا حصہ ہیں کہ بلا کسی مقصد کے ہم کسی سے سلام نہیں لیتے محبت کیسے کر سکتے ہیں۔ بچوں کے دودھ سے لیکر جان بچانے والی ادویات تک ہر شے ملاوٹ زدہ ہے، ہماری محبت خالص کیسے ہو سکتی ہے۔ بعض لوگوں نے حوس کو محبت کا نام دے رکھا ہے۔ اور فیس بک کی محبت تو ایک سراب اور دھوکا ہے جس سے میری قوم کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بچنا چاہئیے۔ اسی موضوع پر ایک کہانی لکھی ہے میں نے جو بہت جلد میری آنے والی کتاب کا حصہ ہوگی، یہ ایک افسانہ ہے جو میرے ذہن کی تخلیق ہے، ہو سکتا ہے حقیقت میں ایسا نہ ہوتا ہو۔ کہانی لمبی ہے اس میں گلیمر اور سرخی پاؤڈر بھی ہے ، مگر یہاں سادہ الفاظ میں لب لباب بیان کرتا ہوں کہ فیس بک کی محبت کا انجام کبھی بھی صحیح اور خوشگوار نہیں ہوتا یہ ایک سراب ہے۔ جس محبت میں روح کا اشتراک نہ ہو اسمیں کمی رہ جاتی ہے، اور جس محبت کے تاج محل کی بنیاد دھوکہ پر رکھی جائے وہ تاج محل آذمائش کی تند و تیز آندھیوں میں ہچکولے کھا کر زمین بوس ہو جاتا ہے۔ اور آخرکار یہی محبت ایک جان لیوا گھٹن بن کر دل ودماغ پر سوار ہوجاتی ہے۔ عشق کے افسانوں ، لیلی مجنوں ، ہیر رانجھا ، سوہنی مہینوال ، مرزاں صاحبہ کی داستانوں سے درس محبت لینے والے بھول جاتے ہیں کہ دنیا اور معاشرے نے کبھی انھیں معاف نہیں کیا بڑے سے بڑا مصنف بھی انکے دامن پہ لگے دھبے نہیں دھوسکا، خیالوں اور افسانوں کی محبت خیالی و مسحورکن ہوتی ہے، جب افسانوں سے نکل کر زندگی کے تجربات کی تپش کی نظر ہوتی ہے تو موم کی گڑیا کی طرح پگھلنے لگتی ہے، آخر میں کہنا چاہتا ہوں جس محبت میں ماں کی بددعائیں شامل ہوں اور جس محبت کے کاندھوں پر باپ کی عزت کا جنازہ ہو اسکا انجام اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔ اس آرٹیکل کا مقصد یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑھتی بے راہروی کے آگے بند باندھنے کے لئیے ہمیں بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دینا ہوگا۔۔۔۔۔
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 171688 views System analyst, writer. .. View More