26جون : انسداد منشیات کا عالمی دن

26جون دنیا بھر میں انسداد منشیات کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت ایشیا میں دو کروڑ دس لاکھ خاندان منشیات سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ اس دن کو منانے کا مقصدانسداد منشیات کے استعمال کو روکنے کے لئے جامع حکمت عملی مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال اور اسمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے بھی اقدامات کا جائزہ لینا اور حوالے سے شعور اور بیداری اجاگر کرناہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 25کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کی منشیات استعمال کر رہے ہیں۔جبکہ ہر سال ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔نوجوان مردوں کے علاوہ اب خواتین کی بڑی تعداد بھی اس لت کا شکار ہورہی ہے۔ محکمہ صحت پاکستان کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں بھی 90لاکھ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔جن میں 22 فیصد دیہاتی آبادی اور 38 فیصد شہری آبادی شامل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سگریٹ اور شراب کے علاوہ صرف منشیات ( چرس، افیون ، ہیروئن وغیرہ) پر 40 ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں نشہ کرنے والوں میں زیادہ تر 14 سے 25 سال کے نوجوان ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال35 لاکھ سے زائد افرادمنشیات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافے کی بڑی وجہ معاشی ناہمواری کے علاوہ افغانستان میں پیدا ہونے والی منشیات اور ان کی بذریعہ پاکستان دنیا بھر میں سمگلنگ ہے۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اس میں دہشت گردی کا ناسور سرفہرست ہے ۔ دہشت گردوں کواپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے مالی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور منشیات کی تیاری اور سمگلنگ اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس طرح دہشت گرد ایک تیر سے دوشکار کررہے ہیں۔ ایک طرف وہ منشیات کے ذریعے ااپنی مذموم سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے براہ راست افواج ، قومی املاک اور عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری طرف ہماری نوجوان نسلوں کی رگوں میں نشہ اتار کرانہیں تاریکیوں کی طرف تیزی سے دھکیل رہے ہیں۔

جس طرح دہشت گردی نے پوری دنیا کولپیٹ میں لے رکھا ہے اسی طرح منشیات اور اس کی اسمگلنگ بھی ایک عالمی مسئلہ ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے پسماندہ، ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے نوجوانوں کو یکساں طور پر دیمک کی طرح تیزی سے چاٹ رہا ہے۔ منشیات کا کاروبار اتنا منظم ہوچکا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو اس نے دہشت گردی سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان ممالک نے دہشت گردی کے خلاف تو بہت سے اقدمات کئے تاہم منشیات کی روک تھام اور نوجوانوں کو اس لت سے بچانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ ممالک نگرانی کے تمام جدید اور کڑے نظامات رکھنے کے باوجود منشیات کی تیاری اور پھیلاؤکو روک نہیں سکے تواس ضمن میں ترقی پذیر ممالک کی حالت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اس وقت افغانستان منشیات کی پیداوار کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں سالانہ 30ارب ڈالر کی منشیات پید اہوتی ہیں۔ اعدادوشمار کے مطابق منشیات کی عالمی تجارت کا سالانہ حجم 68 ارب ڈالر ہے ۔ جبکہ بعض کے خیال میں یہ 200 ارب ڈالرزسے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ منشیات سازی اور فروشی کا مافیا اتنا منظم ہے کہ وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کامیابی سے اپنا گھناؤنے کاروبار کو پھیلاتے جارہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ دوسال کے دوران افغانستان میں تین ہزار ٹن ہیروئن پیدا کرکے دنیا بھر میں اسمگل کی گئی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ سب نیٹو اور امریکی افواج کی موجودگی میں کی گئی۔انسداد منشیات کی ایک اور رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ افغانستان میں نیٹوافواج کی موجودگی کے بعد سے پوست کی کاشت میں60 فیصد اضافہ ہوا۔ افغانستان میں پوست کی مجموعی پیداوارمیں سے50 فیصد پاکستان میں جبکہ باقی پاکستان اورافغانستان کے راستوں سے دنیاکے دیگرممالک میں اسمگل کی جاتی ہے۔پاکستان کے بعدسب سے زیادہ اسمگلنگ ایران کے راستوں سے ہوتی ہے جبکہ تیسرے نمبرپروسطی ایشائی ریاستوں کے ذریعے یہ دھندہ ہورہا ہے۔ایک سرکاری دستاویزکے مطابق افغانستان میں ہیروئن کاایک گرام 3 ڈالر کاہوتاہے جوپاکستان میں پہنچ کر 6 ڈالراوریورپی ملکوں میں پہنچ کر74ڈالر جبکہ امریکا میں 150 ڈالرفی گرام تک پہنچ جاتاہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منشیات فروشوں کے ذخیرہ خانے بھی ہیں۔ یہ منشیات فروش دہشت گردوں کو مالی معاونت تو کرتے ہی ہیں وہ انہیں اسلحہ اور دیگر سازوسامان بھی مہیا کرتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی اور منشیات فروشی کس قدر ایک دوسرے سے جڑے ہیں ۔ اگرایک ناسور سے جان چھڑا لی جائے تو دوسرا اپنی موت آپ مر جائے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسداد منشیات و جرائم کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں منشیات کی پیداوار میں خاص تبدیلی نہیں آئی۔منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ منشیات کے استعمال سے ہر سال دو لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

پاکستان نے انسداد منشیات اوراس کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے ہیں۔ خاص طور پر اینٹی نارکوٹکس فورس نے منشیات کی نقل و حمل اور پیداوار کو روکنے کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان انسداد منشیات کی مخلصانہ اور موثر کوششیں کی بدولت گزشتہ دو سال سے پاکستان کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈرگ فری ملک قراردیا گیاہے۔ ڈرگ فری کا درجہ حاصل کرنے کا معیار یہ ہے کہ اگر 300 ہیکٹر رقبے پر پوست کاشت ہو تو وہ عالمی سطح پرپوست کاشت کرنیوالاملک شمارکیا جاتاہے لیکن پاکستان میں263 ہیکٹررقبے پرپوست کاشت ہوتی ہے۔ اس بنیاد پر پاکستان کوڈرگ فری ملک قراردیا گیاہے۔پاکستان نے منشیات کی سمگلنگ کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک منظم پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ اس سلسلے میں وزارت انسداد منشیات اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی طرف سے تیار کردہ نیشنل اینٹی نارکوٹکس پالیسی 2010ء کی منظوری دی گئی جس کے تحت ملک بھر کے تمام بیس قانون نافذ کرنے والے اداروں جن میں تمام وفاقی اور صوبائی پولیس فورسز ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ، پاکستان رینجرز، اے این ایف، فرنٹیر کور خیبر پختونخواہ اور بلوچستان ، نیشنل کوسٹ گارڈوغیرہ شامل ہیں اور پاکستان کی ہراس وفاقی اور صوبائی وزارت جس کا کسی بھی ناتے سے منشیات کی روک تھام سے کوئی واسطہ ،تعلق یا کردار ہوسکتا ہے کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ پاکستا ن کو منشیات سے پاک ملک بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔نارکوٹکس کنٹرول ڈویژن اور اینٹی نارکوٹکس فورس کی تمام ،متعلقہ وفاقی اور صوبائی محکموں اور ایجنسیوں کے ساتھ سال میں دو تین مرتبہ میٹنگ ہوتی ہے جس میں ملک کی منشیات سے متعلق تازہ صورت حال اوراداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیاجاتا ہے اورکام کے نئے اہداف مقرر کئے جاتے ہیں۔

ان تمام ایجنسیوں نے منشیات کے خلاف کارروائی کے دوران رائج مختلف قوانین کے تحت لاکھوں مقدمات درج کئے اور کروڑوں اربوں روپے کی منشیات جن میں افیون ، مارفین ، ہیروئن ، حشیش اور شراب کی بوتلیں ، نشہ آور انجکشن ، گولیاں اور کیپسول شامل ہیں، برآمد کرکے ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچایا۔ ہر سال پاکستان دنیا بھر میں منشیات کو پکڑنے والے ممالک میں کارکردگی کے اعتبار سے پہلے دوسرے یا تیسرے نمبر پر رہتا ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں منشیات کے خلاف کام کرنے والی تمام ایجنسیوں میں اے این ایف کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔ یہ حجم اور عددی اعتبار سے اتنی توانا نہیں تاہم اس کی کارکردگی کسی بھی ملکی اور غیر ملکی ایجنسی سے کئی گنا زیادہ ہے۔یہ صرف منشیات کے سمگلروں، ڈٰیلروں اور بیچنے والوں کی پکڑ دھکڑ ہی نہیں کرتی بلکہ عوام کو منشیات سے دور رکھنے کے لئے اْنہیں منشیات کی تباہ کاریوں کے بارے میں شعور اور آگاہی بھی دیتی ہے، جس کے لئے ان اداروں کے اندرایک الگ شعبہ قائم ہے۔ اینٹی نارکوٹکس فورس نے اسلام آباد ، کراچی اور کوئٹہ میں ایک ایک ماڈل ڈرگ ٹریٹمنٹ سینٹر اور ایک ایک ڈراپ ان سینٹر بنا رکھا ہے جہاں نشے کے مریضوں کی کونسلنگ ،شعور بیداری اور آگاہی اور علاج معالجہ بین الاقوامی ضابطوں کے مطابق کیا جاتاہے۔ان سینٹرز سے ہر سال تقریباً تین ہزار نشے کے مریضوں کاعلاج معالجہ کر کے انہیں زندگی کی دوڑ میں واپس لایا جاتا ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ عالمی سطح پر منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے وہ اس کی مجموعی پیدوار کا پانچ فیصد بھی نہیں ہے۔اس صورتحال میں انسداد منشیات کے حوالے سے اقدامات کے ازسر نو جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔مستقبل میں اہداف کے حصول کے لیے درست فیصلے کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے بصورت دیگر ہماری آنے والے نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔یہ امر بھی غور طلب ہے کہ بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے باوجود افغانستان میں بغیر رکاوٹ کے منشیات کی پیداور کیوں جاری ہے۔ منشیات کی روک تھام کے حوالے سے عوامی مہم، میڈیا اور سول سوسائٹی کی حمایت بھی ناگزیر ہے تاکہ مغربی دنیا میں زیادہ آگاہی کے لیے وہ حکومت کا ہاتھ بٹا سکیں۔جو ممالک انسداد منشیات کے لیے وسائل فراہم کر رہے ہیں وہ طلب میں کمی کے لیے فراہم کیے جانے والے وسائل کے مقابلے میں سپلائی میں کمی کے لیے بہت کم وسائل فراہم کرتے ہیں۔ ایسے منصوبے جو زمینی حقائق سے دور رہ کر تیار کیے جا رہے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ جو لوگ اس مسئلے سے براہ راست نمٹ رہے ہیں انہی کو منصوبے بھی تیار کرنے ہوں گے ورنہ اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود یہ صورت حال کسی کے لیے بھی اطمینان بخش نہیں ہوگی۔ انسداد منشیات کے حوالے سے جن منصوبوں پر عمل درآمد کیا جائے اْن کا مقامی ثقافت اور زمینی حقائق سے مطابقت رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں حقیقی منصوبے نافذکئے جائیں اور خفیہ معلومات کے سلسلے میں بھی اقدامات اٹھائے جائیں۔ منشیات کے مسئلے پر موثر طریقے سے قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو متبادل وسائل اور مناسب اقتصادی مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں مساوی اور منصفانہ معاشی و معاشرتی ترقی کو بھی فروغ دیا جائے۔ پاکستان نے منشیات کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف جنگ کا عزم کر رکھا ہے ۔ پوست سے پاک ملک کی حیثیت حاصل کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان عالمی سطح پر منشیات ضبط کرنے والے تین بڑے ممالک میں شامل ہے۔ اس نے سرحدوں پر نگرانی کے نظام کو بہتر بنا کر دنیا بھر میں منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام کے حوالے سے بہترین اقدامات اٹھائے ہیں جس کو بین الاقوامی برادری نے سراہا ہے تاہم اب بھی اس برائی کے مکمل خاتمے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے چونکہ یہ دہشت گردی سے براہ راست جڑا ہے اور پاکستان دہشت گردی سے شدید متاثر ہے اس لیے ہر پاکستانی کو انسدادمنشیات کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہئے ورنہ یہ ناسور نہ صرف ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے گا بلکہ ہماری نسلوں کو بھی تاریکیوں میں دھکیل دے گا۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63071 views Columnist/Journalist.. View More