مسلمان آج بھی محروم ہیں۔

ملک کے ہندومسلمان کے درمیان دوریاں پسند کرنے والی جماعتیں طرح طرح کے بے ہودہ بیان دے کر اورمسلمانوں پرحملہ کراکراورمسلمانوں پرزہریلے الزامات عائد کرکے ملک میں کشیدگی بھرے حالات پیداکرناچاہتی ہیں۔

مگرافسوس کی بات ہے کہ اپنے دس سال کے دورِ حکومت میں یوپی اے کی مرکزی سرکاران فرقہ پرستوں کے خلاف کوئی بھی سخت کارروائی انجام نہیں دے سکی ،لگاتارمسلمانوں کوہی ملزم بناتے بناتے خودہی ملک کی سیاست سے دفع ہوگئی؟مگرمسلمان اپنی قوت ایمانی کی بدولت ہمت کے ساتھ مودوی سرکارمیں آج بھی سینہ تانے کھڑاہے؟گزشتہ دنوں اپنے جلسوں میں ایک فرقہ پرست لیڈر پروین توگڑیا نے صاف کہا کہ وشوہندویشد نے آج ایسی ہندوریاست کے مطالبہ پر سختی سے زوردیاہے جواکثریتی فرقہ کے مفادات اورآرزوؤں کاخیال رکھ سکے۔

مسلمانوں کوکوئی بینک قرض نہیں دے رہاہے، کسی بھی مسلم بچے کومفت تعلیم نہیں مل رہی ہے ، مرکزی حکومت اورصوبائی حکومتیں جوپروپیگنڈہ کرتی آرہی ہیں اس کے برعکس مسلمانوں کوآج تک بیس فیصدبھی اسکیم حاصل نہیں ہوسکی ۔

مرکزی سرکاراور صوبائی سرکاریں اقلیتی فرقہ کوجوسہولیات اورامدادفراہم کرنے کادعویٰ کرتی آرہی ہیں اس میں بیس فیصد بھی حقیقت نہیں ہے اگرہم غلط ہیں تومرکزی سرکاراورصوبائی سرکاریں تفصیل جاری کریں کہ گزستہ دس سالوں میں سرکار نے مسلمانوں کوکیادیاہے اورکتنے فیصد مسلم بچوں کومفت تعلیم دینے کانظم کیا ہے ۔بقول پروین توگڑیایہاں اگر۹۵؍لاکھ مسلم بچوں کومفت تعلیم مل سکتی ہے۔مسلمانوں کوتجارتی مددکے لئے۹۴ء۱؍لاکھ کروڑدیئے جاسکتے ہیں توپھرہندوبچوں اورنوجوانوں کواسی طرح آبادی کے تناسب سے سہولیات کیوں نہیں مل سکتیں ہیں ہم مرکزی سرکار سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے بابت دئے گئے اس فرقہ پرست لیڈر پروین توگڑیاکے بیان کی سچائی اورتفصیل جاری کرے۔

ملک کو تقسیم کرنے والی جماعتیں طرح طرح کے بیہودہ بیان دے کر اورمسلمانوں پرزہریلے الزامات عائد کرکے ملک میں ۱۹۴۷ء کے جیسے حالات پیدا کرناچاہتی ہیں مگرافسوس کی بات ہے کہ اپنے ساڑھے نوسال کے دورِحکومت میں یوپی اے ان فرقہ پرستوں کے خلاف کوئی بھی سخت کاروائی انجام دینے میں ناکام رہی، گزشتہ دنوں اپنے جلسوں میں فرقہ پرست لیڈرپروین توگڑیہ نے صاف کہا کہ وشوپندوپریشد نے آج ایسی ہندوریاست کے مطالبہ پرسختی سے زوردیاجواکثریتی فرقہ کے مفادات اورآرزوؤں کاخیال رکھ سکے۔ وشوپندوپریشد کے کارگزارصدرپروین توگڑیانے اس موضوع پرہندوتنظیموں کے نظریات پرنہایت تفصیل سے بات کی اورکہاکہ پارلیمنٹ کے خصوصی ایکٹ کے تحت ایودھیامیں رام جنم بھومی (بابری مسجد)کی جگہ عالیشان رام مندرکی تعمیردفعہ ۳۷۰کی منسوخی اوریکساں سول کوڈنافذکرناان کے ہندونوازحکومت کے ماڈل کے لازمی عناصرہونگے۔ وشوپندوپریشد لیڈرتوگڑیا نے ۲۰۱۴ء عام انتخابات پرنظررکھتے ہوئے کہاتھاکہ اب وقت آگیاہے کہ ہندؤں کواپنے مطالبات اوراپنی آرزوئیں سیاسی نظام کے سامنے رکھنی جانی چاہئیں۔پروین توگڑیانے تمام سیاسی پارٹیوں سے درخواست کی کہ وہ ہندو مطالبات پرایک موقف اپنائیں اورانہیں سرعام قبول کریں انہیں اپنے منشورمیں شامل کریں اورپھراقتدارمیں آنے کے بعدانہیں نافذکریں۔

آج نریندرمودی کی قیات والی بھاجپا سرکارمرکزمیں ہے اب توگڑیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ خودبھی تمام اسکیموں سے مستفیض ہوں اور ہم مسلمانوں کوبھی ہماراحصہ دلائیں۔ اب اگرپروین توگڑیاایسانہیں کرپاتے تویہ ان کی بزدلی کے سوائے کچھ بھی نہیں۔ ہندوریاست کی وضاحت کرتے ہوئے بھاجپا لیڈرنے کہاکہ اب وقت آگیاہے کہ ہم ہندوریاست کے نظریہ کی تشریح کریں اوراس پرغوروخوض کریں۔پروین توگڑیانے کہاکہ آپ اسے مذہبی ریاست کہیں یانہ کہیں مگراس پر بحث ضرورکریں۔مگرہندوریاست سے میرامطلب یہ ہے کہ وہ ہندوشہریوں کی ہرضرورت کاخیال رکھیں اورانہیں ہرطرح کاتحفظ فوقیت کے ساتھ فراہم کرائیں ان کے تعلیمی، روزگار، تجارت اورکاروبار کے مفادات کو اقلیتی مسلمانوں کے ضرورت سے زیادہ اہمیت کی صورت میں برقراررکھاجائے۔انہوں نے کہاکہ ہندوریاست میں ہربنیاد پرمیں مسادات کی آرزورکھتاہوں،مسلمان بچوں کی طرح ہندوبچوں کوبھی مفت تعلیم ملے،کاروبارتجارت کے لیے امدادملے اوردیگرتمام فوائدحاصل ہوں۔ہم یہاں یہ بات واضح کردینا چاہتے ہیں کہ توگڑیانے مندرجہ بالابیان دے کرصرف مرکزی حکومت کی پول کھولنے کاکام کیاہے۔

آج نریندرمودی کی قیادت والی بھاجپاسرکارمرکزمیں ہے اب پروین توگڑیاکی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے خیالات کوعملی جامہ پہنائیں اور ہندؤں کوتمام اسکیموں سے نوازیں۔

حقیقت تویہ ہے کہ مسلم بچوں کوہرسال مرکزی سرکاراورصوبائی سرکارکی جانب سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ملنے والے وظیفے کی رقم گزشتہ ۵؍سالوں سے ۵۰؍فیصدبچوں کوبھی نہیں مل پارہی ہے اورشوردنیابھرکامچایاجارہاہے۔اس میں مسلمانوں کودھوکہ دینے کاسب سے بڑاہاتھ یوپی اے سرکارکاہی رہاہے۔ضلع بھرمیں تقریباً ۴۰؍ہزاربچوں نے ۱۰؍ویں کلاس سے لیکربی اے،ایم اے،بی ای،بی بی اے،بی ٹیک،بی سی اے،ایم بی اے اورایل ایل بی کی تعلیم کولگاتارجاری رکھنے کے لئے۲۰۱۰ء میں وظیفے کے لئے فارم بھرے تھے حیرت کی بات یہ ہے کہ مرکزی سرکارکے لمبے چوڑے دعووں کے باوجودوظیفے کی رقم صرف ۳؍اور۴؍سوکے بیچ طلباء کوتقسیم کی گئی باقی کے طلباء اپنی تعلیم پوری کرکے سینئرکلاسوں میں پڑھتے ہوئے کچھ توآخری مرحلے میں ہے اورکچھ نے تعلیم سے فراغت حاصل کرلی ہے اوروہ نوکری کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں بے شرمی کی انتہا دیکھئے کہ آج تک ان طلباء کووظیفے کی رقم وصول نہیں ہوپائی ہے۔

محکمہ اقلیتی بہبودگی کے ملازمین کہتے ہیں کہ ’’بھائی صاحب آپ خوامخواہ دفترکے چکرلگارہے ہیں اگراپنے فارم بھرنے کے بعد۳۰؍فیصدرشوت کی رقم پیشگی جمع کرائی ہے توآپ کے بچے کانام وظیفے کی لسٹ میں ضرورشامل ہوگااوراگرآپ نے رشوت دیکرسیٹنگ نہیں کی توگھرجاکرآرام کیچئے‘‘۔ان حالات میں عام آدمی اپنے بچے کوکس طرح کی اعلی تعلیم دلاسکتاہے ؟یہ آج ہم سب کے سامنے ایک حساس مسئلہ ہے ۔مرکزی سرکارکواورمرکزی سرکارکے نمائندوں کو ان سوالات کاجواب ہرحال میں دیناہوگااگرسوال کاجواب نہیں ملاتوسمجھاجائگاکہ مرکزی سرکاراورصوبائی سرکارمسلمانوں کوبے وقوف بنانے کے لئے اس طرح کی اسکیمیں چلائے ہوئے ہیں اور غریب ،محنت کش مسلمانوں کے لئے ان کے دلوں میں تھوڑی بھی ہمدردی نہیں حیرت کی بات تویہ ہے کہ جن بچوں نے۲۰۱۰ء میں کلاسوں میں داخلہ لیاتھا اوروظیفے کے فارم بھرے تھے ان طلباء میں ۷۵؍فیصدطلباء تعلیم سے فراغت پاچکے ہیں مگرآج تک کسی آفیسرنے یہ پوچھناگوارہ نہیں کیاکہ ان کووظیفے کی رقم کیوں نہیں ملی ہمارے سیاسی رہنماں مکمل طورپرگونگے اوربہرے بنے ہوئے ہیں قوم کاووٹ لینے کے لئے قوم کی چاپلوسی کرنااورقوم کے لئے اخبارات میں لمبے چوڑے بیان چھپوانا ان کی عادت میں شمارہے حقیقت میں ان رہبروں کومسلمانوں سے اورمسلمانوں کے بچوں سے کسی بھی طرح کی ہمدردی نہیں ہے جومسلم بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ اپناپرائیویٹ کام بھی کرتے ہیں اوراسکول ،کالجوں میں تعلیم بھی حاصل کرتے ہیں ماں باپ کی تنگی کودیکھ کریہ بچے ہرمہینے کام کرنے کے بعدملنے والی رقم کوٹیوشن فیس اور اسکول کی فیس کے لئے اطمینان سے استعمال کرتے ہیں تب جاکرمسلم بچے اپنی تعلیم مکمل کررہے ہیں سرکاربارباروظیفہ تقسیم کرنے اورلیپ ٹاپ بانٹنے کے لمبے چوڑے اشتہار شائع کراتی ہے مگران اشتہاروں کی سچائی وہی جان سکتاہے جس طالب علم کو۲۰۱۰ء سے آج تک ایک مرتبہ بھی وظیفہ نہیں ملاہے گزشتہ دنوں راہل گاندھی نے اپنی ایک تقریر میں یہ بات تسلیم بھی کی تھی کہ مرکزی سرکارقوم کی فلاح اوربہبودگی کے لئے جورقم ریاست کوبھیجی ہے ریاستی سرکاراس رقم کودوسرے مدوں میں استعمال کرکے اپنافائدہ دیکھتی ہے اور جس مقصد کے لئے مرکزوہ پیسہ بھیجتا ہے وہ مقصد ضائع ہوکر رہ جاتاہے ایسی صورت میں قوم کے طلباء کی حالت یہ بنی ہوئی ہے کہ اب وہ کس کی شکایت کریں اور کس کے سامنے شکایت کریں انجام مستقبل میں ان اسکیموں کا کچھ بھی ہومگردعوے کے ساتھ یہ کہہ رہے ہیں کہ مرکزی سرکار اور صوبائی سرکارکی جانب سے تیس فیصد مسلم بچوں کومنصفانہ طورپرگزشتہ ۳؍سالوں سے وظیفے کی رقم دستیاب نہیں ہوپائی ہے۔
ABDUL MALIK
About the Author: ABDUL MALIK Read More Articles by ABDUL MALIK: 2 Articles with 1377 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.