حامد میر پر قاتلانہ حملہ

ہمارے پڑوسی ممالک میں امن و استحکام، قانون کی حکمرانی اور صاف ستھری جمہوریت پورے خطے کے مفاد میں ہے۔جب کسی پڑوسی ملک خصوصاً پاکستان یا بنگلہ دیش میں کوئی واقعہ اس کے خلاف ہوتا ہے تو فطری طور سے ہمیں بھی تشویش ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ جمعہ، 19 اپریل کو کراچی میں حامد میر پر قاتلانہ حملہ کاہے جو بقول عطا الحق قاسمی’ صحافت کا تاج محل‘ ہیں۔ حامدمیر نہایت باخبر،جرأتمند اور بیباک صحافی ہیں۔ ان کی شائستہ اور شستہ تحریریں انٹرنیٹ کی بدولت بیرون پاکستان بھی خوب پڑھی جاتی ہیں ۔

صحافت جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہے۔پاکستان میں جمہوریت بھلے ہی ہچکولے کھاتی رہی ہو، جبر وقہر کے ماحول میں بھی وہاں صحافت مضبوط رہی ہے اور بارہا ایوان حکومت میں لرزہ طاری کر چکی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں صحافی عتاب شاہی اور مفاد خصوصی کے انتقام کا شکار بھی ہوتے رہے ہیں۔ وہاں گزشتہ سات برس میں کم از کم 46صحافیوں کا قتل ہوچکا ہے، جن میں 24 کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ وہ محکمہ خفیہ کی پس پردہ کارگزاریوں، طالبان کی دہشت پسندیوں یا جرائم پیشہ گروہوں کی سرگرمیوں کا پیچھا کرتے تھے۔ پاکستان اپنے قیام سے ہی مفادات خصوصی کے چنگل میں پھنسارہا ہے۔اکثرمدت آمریت کا بول بالا رہا ہے۔ اب جمہوری نظام بحال ضرور ہوگیا ہے مگر وہاں کی سیاسی کلچر پر جمہوری رنگ ابھی چڑھا نہیں ہے۔فوج کی اپنی ترجیحات ہیں اور اس پر سول کنڑول بہت کمزورہے۔ عموماً قانون کا احترام کرنے والوں پر شورہ پشت حاوی آجاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں چاق و چوبند صحافت اور حامد میرجیسے باخبر اور بیباک صحافیوں کی اہمیت اوربڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پرقاتلانہ حملے کی وسیع پیمانے پر مذمت ہوئی ہے۔ہم بھی ان کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔

شک کی سوئی
ہر چند کہ حامد میر نے اپنے چاروں طرف بہت سے محاذ کھول رکھے ہیں۔ وہ مختلف و متضاد عناصر کی آنکھوں میں خار بن کر چھبتیہونگے ۔ پہلے بھی ان کی جان لینے کی کوشش ہوچکی ہے،۔ اس وقت شک دہشت پسندوں پر تھا،اس بار بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ شک کے دائرے میں ہے۔حملے سے قبل حامد میر نے اپنے رفقائے کار اور اہل خانہ کو ایک ویڈیو پیغام میں مطلع کیا تھا کہ اگر’’ مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو اس کے لئے آئی ایس آئی کے سربراہ ظہیرالاسلام اور دیگر حکام ذمہ دار ہونگے۔‘‘وزیراعظم نے اس سازش کی جانچ کے لئے ایک سہ رکنی کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور سپریم کورٹ سے اس کے ارکان نامزد کرنے کو کہا ہے۔ لیکن اگر یہ سازش آئی ایس آئی جیسی مضبوط ایجنسی نے ہی رچی تھی یا اس کا کوئی اعلا افسر ازخود اس میں ملوث تھا ، تو ممکن نہیں کہ کوئی جانچ اصل سازشیوں تک پہنچ سکے۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ فوج پوری طرح آئی ایس آئی کی پشت پرکھڑی ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل قریشی نے اس واقعہ کے تیسرے ہی دن، منگل 22 اپریل کو آئی ایس آئی کے صدر دفتر جاکر ’قومی تحفظ ‘ کے امور میں اس کی ’’خدمات ‘‘کی تعریف کی ۔ یہ خبر بھی ہے کہ آئی ایس آئی پر حملہکے الزام کے جواب میں فوج’جیو ٹی وی- جنگ گروپ‘ کے خلاف کاروائی پر غور کررہی ہے جس سے حامد میر وابستہ ہیں۔ ممکن ہے اس دباؤ میں ان کوادارہ ہٹا دے۔ یہ فوج کی اپنی حکمت عملی ہے، حالانکہ اگر اس حملے کا الزام آئی ایس آئی پر غلط ہے تو فوج اور آئی ایس آئی کو اس کی غیرجانبدارنہ جانچ کا خیرمقدم کرنا چاہئے تھا اور تاوقتیکہ جانچ مکمل ہوتی، لیفٹننٹ جنرل ظہیرشاہ کوان کے منصب سے ہٹادیا جانا چاہئے تھا۔

آئی ایس آئی پر شک اس لئے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اس حملے سے پانچ روز قبل حامد میر کا ایک مضمون’’صحافی کس کے وفادار ہیں؟‘‘ (روزنامہ جنگ، 14اپریل)شائع ہوا تھا، جس کا آغاز انہوں نے اس طرح کیا :’’صحافیوں کودھمکیاں دینا، اغواکرنا، قتل کردینا پاکستان میں ایک معمول بن چکا ہے۔ چونکہ اس طرح کے جرائم میں ملوّث افراد کو بہت کم سزا ملتی ہے، اس لئے اب اکثرصحافی دھمکیوں پر خاموش رہتے ہیں۔‘‘مضمون میں بطور خاص ان ’دھمکیوں‘کا ذکر ہے جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو سزا دئے جانے کا مطالبہ کرنے والے یا ان کو سزا سے بچانے کے لئے بیرون ملک جانے دینے کی تدبیر کی مخالفت کرنے والے صحافیوں کی دی جارہی ہیں۔

اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ بہت سے فوجی افسران نہیں چاہتے کہ ان کے سابق سربراہ کو ’غداری‘ کی سزاملے۔ حامد میر کے مذکورہ مضمون کے اختتامی جملے اشارہ کرتے ہیں کہ وہ ایسی ہی لابی سے برسر پیکار ہیں ۔وہ لکھتے ہیں، ’’پاکستان ایک سیاسی اور جمہوری تحریک کی پیداوار ہے۔پاکستان کو مضبوط بنانے کے لئے سیاسی اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ فوج کو کمزور کردیا جائے، لیکن اگر فوج ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کی پشت پر کھڑی نظرآئے توایسی صورت میں فوج کی حمایت پاکستان کے مفاد کے خلاف ہے۔ اگر فوج ملک کے دشمنوں سے جنگ کرے تو فوج کی حمایت کرنی چاہئے ، ہماری اصل وفاداری ریاست اورآئین کے ساتھ ہونی چاہئے۔‘‘ (یہاں سیاسی جماعت سے مراد آل پاکستان مسلم لیگ ہے۔ پرویز مشرف اس کے صدر ہیں۔)

حامد میر کی آواز کو خاموش کرنے کی کوششوں کی شدید مذمت اور سازشیوں کو سزا کے مطالبوں کے ساتھ کچھ غور اس پہلو پر بھی ہونا چاہئے کہ فوج اور ملک کے سابق سربراہ کو قانون کی بالادستی کے نام پر اسی انجام تک پہنچانا جو ذوالفقارعلی بھٹو کا مقدر بن گیا تھا، ملک کی کمزور جمہوریت اور پاکستانی قوم کے مجموعی مفاد میں ہوگا یا نہیں؟ بیشک جنرل پرویز مشرف نے فوج کے افسراعلا کی حیثیت سے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا، جمہوری حکومت کا تختہ الٹا، وزیراعظم کو ملک بدر کیا، آئین کو پامال کیا اور عدالت عالیہ کے وقار کو مجروح کیا۔چنانچہ قانوناً اوراخلاقاً اہل پاکستان کو حق ہے کہ ان کوسزادئے جانے کا مطالبہ کریں۔یہ معاملہ عدالت میں زیرغور ہے، اس لئے اس پر کوئی تبصرہ مناسب نہیں۔

سوال یہ بھی ہے کہ فوج کے سابق سربراہ کواگرقانون خطاوار قراردیدیتا ہے تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ سول حکومت ان پر سزا کا نافذ کردے اور فوج بیرکوں سے باہر نہ نکلے؟دوسرا سوال یہ ہے کہ ان کو سزا دئے جانے سے، جو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، کیا ملکی حالات بہتر اور جمہوریت مضبوط ہو جائے گی؟ اگرقانون کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیدینے سے پاکستان کسی سنہرے دور میں داخل نہیں ہوسکا اور صدر صدام حسین کو کیمرے کے سامنے پھانسی پر لٹکادینے سے عراق میں امن وچین اور انصاف قائم نہیں ہوا ،تو پھریہ کیسے سمجھلیا جائے کہ پرویز مشرف کو غداری کے جرم میں سزا دیدینے سے پاکستان مستحکم اورجمہوریت مضبوط ہوجائیگی اور آئندہ فوجی مداخلت اورآمریت کا خطرہ نہیں رہیگا؟ پرویز مشرف کا معاملہ تو بھٹو اور صدام ،دونوں سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ بھٹوکو تختہ دار تک پہنچانا اس لئے ممکن ہوسکا کہ فوج ان کی پشت پر نہیں تھی، ان کی مخالف تھی۔ جب کہ جنرل پرویز مشرف سے فوج میں ہمدردی پائی جاتی ہے۔چنانچہ اس اندیشہ کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا کہ ’قانون کا تقاضا‘ پورا کرنے یا انتقامی جذبہ سے پرویز مشرف کو تختہ دار تک پہنچادینے کی کوشش سے سول حکومت کا وجود ہی خطرہ میں پڑ جائے گا۔

مشرف 9 سال فوج کے سربراہ اور تقریباً 8 سال ملک کے سربراہ رہے ۔ خطاؤں کے ساتھ ان کی کچھ خدمات بھی ہیں۔وہ خانہ زاد دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف تھے ،جو پاکستان کے لئے ہی عذاب نہیں ،پڑوسی ملکوں، بشمول دوست ملک چین کے لئے بھی ایک مسئلہ ہے ۔ کرگل کے باوجود ہند پاک تعلقات کی نوعیت بدلنے اورسرحد پار دہشت گردی کی ایکسپورٹ کو روکنے کے لئے ان کے اقدامات کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ پھر ایک ڈکٹیٹر کے لئے یہ رسوائی کچھ کم نہیں کہ عوامی دباؤ میں اس کو اقتدار سے ہٹ جانا پڑے، جن ججوں کو برطرف کیا تھا،ان کی باعزت بحالی ہوجائے، آئین بھی بحال ہوجائے اور سب سے اہم یہ کہ انتخابات میں عوام بھی اس کو مسترد کردیں؟ پاکستان میں جمہوری نظام کی بحالی کا بھی کچھ کریڈٹ ان کو ملنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں تھے، جس نے میڈیا کا گلا نہیں گھونٹا۔پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرلی ہے اور دوسری برسراقتدارآگئی ہے۔اس دوران فوج نے بیرکوں میں رہنا منظور کرلیا ہے۔اب کوئی ایسا اقدام جس سے فوج میں اضطراب پید اہو اورجمہوری نظام کا تسلسل پھر ٹوٹنے کا اندیشہ پیدا ہو ،سیاسی طور پرپاکستان کے مفاد میں نہیں۔

گری راج کشور
اب تک تو سنگھی مسلمانوں پر دھونس جماتے تھے کہ وہ پاکستان چلے جائیں ۔اب بہار کے نوادہ پارلیمانی حلقے سے بھاجپا امیدوار اور ریاستی لیڈر گری راج کشور نے دھمکی دی ہے کہ مودی کے مخالفوں کی جگہ پاکستان میں ہے۔گویا سیکولر اور مذہبی رواداری کے حاملین کے لئے موزوں جگہ پاکستان ہے ، ہندستان نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بات پارٹی کے سابق صدر نتن گڈکری کی موجودگی میں کہی اور وہ خاموش رہے۔مذمت کے باوجود وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ کیا اس کا مطلب یہہے کہ سنگھ نے اپنی اس غلطی کو تسلیم کرلیا ہے جو وہ پاکستان کے قائد اعظم محمد علی جناح پراور پاکستان پر ’’فرقہ پرست‘‘ ہونے کا الزام لگاکر کرتا رہا ہے؟

عمرعبداﷲ کا ردعمل
گری راج کشور کے بیان پر جموں و کشمیر کے وزیراعلا عمرعبداﷲ نے کہا ہے کہ مودی کے خلاف موقف ترک کردینے پر وہ پاکستان چلاجانا پسند کریں گے۔انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کشمیری بھائیوں کو یہیں مودی کے رحم و کرم پر چھوڑ جائیں گے یا ساتھ لیجائیں گے؟ بہرحال عمر عبداﷲ کا یہ بچکانہ موقف ہند کے 18کروڑ مسلمانوں کو منظور نہیں ہے ۔ہم کہتے ہیں ہندستان نہ کبھی فرقہ پرستوں کی جاگیررہا ہے اور نہ بنے گا۔ ان کو اگر ہندستان کا سیکولر چہرہ (جو ہندو دھرم کا اصل چہرہ ہے) پسند نہیں ،تو ان کوبحرہند کے تہہ میں یا ہمالیہ کی چوٹیوں پر ٹھکانہ ڈھونڈنا ہوگا۔ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ تو اتفاقاً اور مجبوراً ہندستانی ہیں، جب کہ مسلم اقلیت نے تقسیم وطن کے وقت شعوری طور سے اس ملک کو اپنا وطن چناہے۔ہم یہودیوں کی طرح اپنا وطن چھوڑ کر جانے والے نہیں ہیں۔ ہمارے آبا و اجدادکے قافلے اس وقت یہاں کے دریاؤں کے کنارے اترے تھے جب یہاں کی فضائیں اذان کی آواز سے نا آشنا تھیں۔ آج اس ملک میں ناقوس سے زیادہ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صداگونجتی ہے اور انشاء اﷲ یونہی گونجتی رہے گی اور گری راج کشورجیسے لوگ اپنی ہی آگ میں جھلس کر بھسم ہوجائیں گے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 162802 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.