پیالی میں طوفان

طوفان ِ نوح اتر گیا تھا تو پھر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی دوسرا طوفان اٹھے اور پھر سدا اٹھا ہی رہے۔عروج زوال کے ساتھ ملحق ہوتا ہے ایک آتا تو دوسرا اپنی راہ لیتا ہے۔ہمارے ملک میں لیکن کمال کے لوگ بستے ہیں کہ طوفانوں سے خیر کی توقع کرتے ہیں۔پھر جب خواہش خبر بننے لگے تو پیالی میں طوفان اٹھانے کے ماہر دور دور کی کوڑیاں لاتے اور کڑیاں ملاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔اب تو الیکٹرانک میڈیا کی شکل میں انہیں بھونپو بھی مل گئے۔ اسلام آباد کے ڈرائنگ رومز کی سرگوشیاں اور خواہشیں اب پورا ملک سنتا ہے اور چونکہ ان سرگوشیوں کی اصل سے واقف ہے اس لئے سر دھنتا ہے۔کسی زمانے میں لفظ کی حرمت کا پاس ہوا کرتا تھا آج کل لفظ کی حرمت کو پاس کرنے کا رواج ہے۔مجال ہے جو کوئی کسی غلط خبر پہ شرمندہ ہو معذرت کرے ۔اب تو یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں۔بیٹی گھر سے بھاگ گئی۔پورا میڈیا لڑکی اور لڑکے کے انسانی حقوق کی دھائی دے رہا ہے اس مجبور اور بے کس باپ اور دکھیاری ماں کے حقوق کا کوئی سرے سے ذکر ہی نہیں کرتاجنہوں نے جگر کا خون دے کے اس بوٹے کو سینچا تھا۔

یورپ والے ہمیں ہماری دینی تعلیمات کے برعکس چھوٹی عمر میں نکاح کرنے سے منع کرتے ہیں اور ان کے پاکستانی نمک خوار ان کی ہاں میں یوں ہاں ملاتے ہیں جیسے یہی منشائے خداوندی ہو۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ یورپ میں بارہ سالہ لڑکا باپ اور گیارہ سال کی لڑکی ماں بن گئی اور یہ نیا ریکارڈ ہے۔چھوٹی عمر میں بچے پیدا کرنے پہ پابندی نہیں کہ وہاں پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے لڑکی ایک آدھ ابارشن ضرور کروا لیتی ہے لیکن نکاح کی اجازت نہیں ہونی چاہئیے کہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ایسے انسانوں پہ اور ان کی سوچ پہ چرخِ نیلگوں کیا کیا لعنت نہ برساتا ہوگا۔ایک بندے کا تکیہ کلام تھا کہ تم گھر سے نکلو تو تمہیں پتہ چلے۔ایک دن کسی دل جلے نے بڑھ کے پوچھ لیا کہ جناب آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے گھر میں کیا ہو رہا ہے۔ جواب آیا نہیں۔ وہ ترنت بولا ! حضور آپ کبھی گھر جائیں تو آپ کو پتہ چلے۔ہمارے ہاں نکاح کی چھوٹی عمر میں مخالفت کرنے والے کبھی گھر جائیں تو انہیں پتہ چلے کہ ان کے اپنے گھروں میں کیا ہورہا ہے۔

بات کی بھی کیا بات ہے۔ کہاں سے چلتی اور کہاں جا کے رکتی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے ایک بیان پہ یار لوگوں نے جو جو امیدیں باندھیں۔جو جو خوش فہمیاں پھیلائیں اور جن جن خواہشات کا اظہار کیا۔ جیسے سیاسی قوتوں کو جعلی پولیس مقابلے کی طرح فوج کے خلاف صف آراء کرنے کی کوشش کی۔نواز زرداری ملاقات کو فوج کی چھیڑ بنانے کی کوشش کی۔اسے دیکھ کے یوں لگتا تھا کہ اگلے کچھ ہی لمحوں میں ٹرپل ون بریگیڈ موو ہوا چاہتا ہے۔میرے عزیز ہم وطنو کی آواز گونجا چاہتی ہے اور اٹک قلعے کی دیواریں پھر کسی مکیں کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنی بانہیں وا کر چکی ہیں۔
سنا تھا کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
ہم بھی گئے دیکھنے ۔۔۔۔پہ تماشہ نہ ہوا

وہ قومی سلامتی کونسل جس پہ ایک شریف آدمی کو دھکے دے کے گھر بھیج دیا گیا تھا اسی سلامتی کونسل کے اجلاس میں آملے سینہ چاکان سے سینہ چاکان اور سب گلے شکوے جاتے رہے ۔گو کہ ایک عربی محاورے کے مطابق نیزے کے زخم سے زبان کا زخن زیادہ گہرا ہوتا ہے لیکن قوم کو نوید ہو کہ چائے کی پیالی میں اٹھایا جانے والا یہ طوفان اپنی موت آپ مر گیا۔

وطن ِ عزیز جن حالات سے دوچار ہے اس میں ملک کے اداروں کے درمیاں کسی غلط فہمی کا پیدا ہونازہر ناک ہے جسے بعض لوگ اپنے مےادات کے لئے خبرناک بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اس ملک کے عوام ایسے عناصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی کریں بلکہ باقاعدہ ان کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار بھی کریں۔ایک گھر میں رہتے ہوئے دو بھائی بھی بعض اوقات اختلاف رائے کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن بندوق اٹھا کے کوئی دوسرے کو قتل نہیں کرتا اور اگر کر دے تو اسے دنیا کی لعن طعن کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔پرانا زمانہ لد گیا۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔اب سارے فریق سمجھ دار ہو گئے ہیں۔ انہیں حالات کی سنگینی کا خوب احساس ہے۔ ملک بہتری کی طرف گامزن ہے۔ اسی تخریب میں تعمیر کے آثار ہیں۔ وقت گذر جائے گا لیکن تعمیر کے حامی اور تخریب کے بیوپاری چھانٹیں جائیں گے۔ تاریخ ٹیپو سلطان کو بھی یاد رکھتی ہے سراج الدولہ کو بھی اور میر جعفر اور میر صادق کو بھی۔

ریاست تو ماں کے جیسی ہوتی ہے۔اسے ماں جیسا ہی ہونا چاہئیے۔ریاستی ادارے اس کے دست و بازو۔ ان میں توازن اور اعتدال ہی خوبصورتی ہے۔ اب شاید غلطی کی گنجائش نہیں۔ ہمیں اس دریا کو جلدی پار کرنا ہے کہ ہمیں اس سے بھی بڑے ایک اور دریا کا سامنا ہے۔ادارے اپنے وقار کا خیال رکھیں اور اپنے ساتھ دوسروں کا بھی بلکہ دوسروں کا تھوڑا بڑھا کے۔باہمی احترام ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر وقت آپ کو شیر بن کا مشورہ دیتے ہیں اور جب کبھی آپ ان کے جھانسے میں آکے شیر بنتے ہیں تو ٹیوبوں کے پنگچر کھلنے لگتے ہیں۔ بہادر اورایمان دار آدمی دشمن کی صفوں میں ہو تو بھی انسانیت اس کا احترام کرتی ہے اور بزدل بات کرتا ہے ہلا شیری دیتا ہے۔ غصہ دلاتا ہے اور جب اس کے کئے کا نتیجہ سامنے آتا ہے تو کہیں دبک کے بیٹھتا اور تماشہ دیکھتا ہے۔ ان تماش بینوں سے بچے حکومت بھی اور اس کے ادارے بھی۔اﷲ کریم اس ملک اور اس کے لوگوں کو اعتدال کی دولت سے مالا مال کر دے۔ آمین

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268008 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More