زندگی گزارنا یا بنانا

مفتی ذاکرحسن نعمانی

ایک ہے زندگی گزارناایک ہے زندگی اسلامی اوراسلام کے طریقے کے مطابق بنانا۔پوری دنیاکے لوگوں پر نظرڈالیں توبعض ایسے لوگ نظرآئیں گے جوصرف زندگی گزاررہے ہیں ،بعض ایسے لوگ ہیں جوزندگی بنارہے ہیں ۔جولوگ زندگی بنارہے ہیں اس کی بھی دوقسمیں ہیں :ایک وہ قسم ہے جوزندگی کوصرف دنیاکومدنظررکھ کربنارہے ہیں ۔دوسرے وہ لوگ ہیں جودنیاکے ساتھ آخرت پربھی نظررکھ کرزندگی بنارہے ہیں ۔جن کی نظرصرف دنیاپرہے وہ صرف دنیاوی زندگی بنارہے ہیں،اصل میں دنیاکوان لوگوں نے آبادکیاہے اوریہ لوگ خوب سے خوب ترکی تلاش میں رہتے ہیں۔کچھ لوگ جونہ دنیابناتے ہیں اورنہ دین بناتے ہیں ،نہ دینداری اختیارکرتے ہیں ۔یہ لوگ نہ دین کے ہیں اورنہ دنیاکے ،یہ نہ دنیاوالوں کے کام آتے ہیں اورنہ دین والوں کے کام آتے ہیں ۔ہاتھ پرہاتھ دہرے بیٹھے رہتے ہیں یہ نکمے اوربدقماش لوگ ہیں۔ان کوٹامی (Tomy)اورHappyبھی کہتے ہیں، یہ صرف دنیاوی زندگی گزارتے ہیں۔ان کواس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ زندگی اچھی گزررہی ہے یابری ۔معاشرہ اسلامی ہویاغیراسلامی اس پرلوگ بوجھ ہوتے ہیں ۔ان کامعاشرہ میں کوئی کردار نہیں ہوتابلکہ منفی کرداراداکرتے ہیں۔ایسے افرادکبھی نشئی بن جاتے ہیں ،کبھی جرائم پیشہ ۔ان کاروزگار معاشرہ کوتنگ کرناہوتاہے ۔ان کواس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ہمارے کردارسے کسی کوتکلیف ہوگی یانہیں بس زندگی گزارتے ہیں۔چوری ،ڈکیتی ،جیب کتری یاکوئی جرم ان کے لیے آسان ہوتاہے یہ لوگ صرف نکمے ہی نہیں بلکہ جرائم پیشہ بھی ہوتے ہیں ۔ایک ایساطبقہ بھی ہے جوصرف مانگ کرگزارہ کرتے ہیں یہ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں بلکہ اب توان کے منظم گروپ بن گئے ہیں ان کی سرپرستی کھاتے پیتے لوگ کرتے ہیں ۔روزانہ ان کومختلف مقامات پرمانگنے اورسوال کرنے کے لیے چھوڑدیاجاتاہے پھرمقررہ وقت کے بعدان کودوبارہ اپنے ٹھکانوں پرلے جاکرباقاعدہ ان کے ساتھ حساب کتاب کرکے ان کومزدوری دے کربقیہ رقم خوداپنی تجوری میں جمع کرتے رہتے ہیں۔اس طبقے میں زیادہ ترچھوٹے چھوٹے بچے ،بچیاں اورعورتیں شامل ہیں کچھ نوجوان بھی ہوتے ہیں۔بعض ان میں خودکو بہ تکلف معذورظاہرکرتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی خاص جسمانی عذر نہیں ہوتا۔

مجبوری والے سائل کی اسلام میں رخصت ہے لیکن ترغیب نہیں دی گئی بلکہ مانگنے کی مذمت کی گئی ہے صرف دینے والوں سے فرمایاہے کہ سائل کونہ جھڑکو۔پیشہ وربھکاری کوسمجھانامسلم معاشرہ کی ذمہ داری ہے ان کوبھگانااورڈراناحکومت کی ذمہ داری ہے۔ایسے افراد کوروزگاردلانایابے روزگاری فنڈ دیناحکومت کے فرائض میں داخل ہے۔جومجبوراً مانگتے ہیں ان کی ضروریات پوری کرنامسلم معاشرہ اوراسلامی حکومت دونوں کافرض ہے ۔حکومت کے خرچے بہت زیادہ ہیں جائز خرچے تودرست ہیں لیکن فضول اسراف اورتبذیر والے خرچ بہت زیادہ ہیں ۔ہرسطح پرلوگ قناعت سے کام لے سکتے ہیں لیکن حکومت کی سطح پرقناعت بالکل ندارد ہے سب کے دل بے رحم بن جاتے ہیں۔حکومت میں آکران کوخدااوررسول بھی یادآجاتاہے ۔سرکاری حج اورعمرے شروع ہوجاتے ہیں حکومت سے باہر ہوں توفرض نماز بھی نہیں پڑتے ۔قوم کودکھلانے کے لیے غم خوار،اسلامی لیڈراپنے آپ کوظاہرکرتے ہیں ۔ صرف ناجائز خرچوں پراکتفا نہیں کرتے بلکہ ملک وقوم کی دولت کودونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔ اندرون ملک اوربیرون ملک بینکوں میں پیسہ کسی اورکے نام پرجمع کرتے ہیں۔

ایک طبقہ کاپیشہ قحبہ گری ہے ان قحبہ خانوں میں پیشہ ورخواتین ہوتی ہیں ۔ان بے حیائی کے اڈوں میں زناکاکاروبار ہوتاہے ان کی سرپرستی کافی عرصہ تک منہ کالاکرنے والی آنٹیاں کرتی ہیں اوران آنٹیوں کی سرپرستی بدمعاش اورجرائم پیشہ افراد کرتے ہیں ۔ملک کے بعض بڑے شہروں میں یہ اڈے موجود ہیں ۔اخبارات میں کبھی کبھار ان کے قصے کہانیاں چھپتی رہتی ہیں۔ پتہ نہیں صاحب ِ اقتداراورذمہ دار حضرات ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیتے ۔ممکن ہے ان گھناؤنے مقامات کے ساتھ بھی ان کے مفادات وابستہ ہوں ۔میری اس بات کی تائید اس کتاب سے ہوتی ہے جس کانام ہے ’’پارلیمنٹ سے بازارِ حسن تک ‘‘ ۔اس گندی جگہ کانام بازارحسن رکھ دیا۔ پارلیمنٹ میں بیٹھ کرملک وملت کی تقدیر بنانے والے بازارِ حسن کے ساتھ رابطے اورتعلق میں رہ کرملک وملت کی تقدیریں بناتے اوربدلتے ہیں ۔یہ ایسے لیڈر ہیں کہ ملک وقوم کوتباہی کی طرف لے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایوان بالااورقومی اسمبلی والے ہمیشہ اپنے مفادات کی جنگ میں رہتے ہیں ۔اپنے مفادات کی خاطر حکومتی دورانیہ جوڑ توڑ میں گزرتاہے اوران کوووٹ دینے والے ایک دوسرے کے خون چوسنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔قوم میں بے وقوفوں اورجاہلوں کی کثرت ہے یاان کوچھوٹے چھوٹے مفادات ملتے ہیں ۔ان مفادات کی خاطراپنے لیڈر کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

ہمارے ملک میں ایک خطرناک پڑھالکھاطبقہ بھی ہے جولوگوں کوتعلیم یافتہ بنانے کے دعویدار ہیں اورمخلوط تعلیم کے تعلیمی ادارے بناتے ہیں ۔لوگوں کویہ باورکراتے ہیں کہ ملک وقوم کے بچوں اوربچیوں کامستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے ۔ان کایہ دعویٰ ہے کہ ملک وقوم کومستقبل کے ہرمیدان کے بہترین معمار دیں گے لیکن سب لوگ کھلی آنکھوں کے ساتھ ان مخلوط تعلیمی اداروں کے Free(آزاد)اورOpen (کھلے)ماحول کودیکھ رہے ہیں ۔لڑکے اورلڑکیوں میں مکمل آزادی آگئی ہے ۔ان اداروں میں اسلام کے احکامات مکمل طورپرذبح ہورہے ہیں ۔کیایہ ادارے بچوں اوربچیوں کی زندگیاں بنارہے ہیں ،یہ توان کی زندگیاں بگاڑرہے ہیں ۔یہ ادارے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہم مسلمان بچوں اوربچیوں کوتعلیم دے رہے ہیں یہ صرف انسان نہیں بلکہ مسلمان بھی ہیں اس انسان کے ساتھ اسلام لگاہواہے ۔کچھ انسانیت کے تقاضے ہیں اورکچھ اسلام کے ۔یہ ادارے چلانے والے دعویٰ تواسلام کاکرتے ہیں لیکن اسلام کاایک تقاضہ بھی پورانہیں کررہے ۔ایسے تعلیمی ادارے چلانے والوں سے میراسوال ہے کہ کفار کے جوبچے اوربچیاں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان میں اوران مسلمان بچوں اوربچیوں میں کیافرق ہے۔ ایک عقیدے کاچھپاہوافرق ہے اوروہ بھی ہروقت خطرہ میں رہتاہے۔نادان والدین کوخوشی صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے بچے خوب انگریزی سیکھ رہے ہیں ،انگریزی ماحول ہے بہترین انگریزی سیکھیں گے توبہترین ڈاکٹر اورانجینئر بنیں گے اگرچہ اُن کے اخلاق بگڑ جائیں ، انسانیت سے حیوانیت کی طرف سفرشروع کردیں تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے،والدین کواس کی فکرہی نہیں۔ایسے آزاد ماحول میں تعلیم حاصل کرنے والوں نے گرل فرینڈزاوربوائے فرینڈز اصطلاح گھڑ لی ہے اورپھر ان اصطلاحات کوحقیقت کاجامہ پہنادیا۔لڑکی کے گھر بوائے فرینڈآرہاہے اورلڑکے کے گھرمیں گرل فرینڈ آرہی ہے ۔آزاد تعلیمی ماحول کے بے حیائی کوبڑھے دھڑلے سے اپنے گھروں میں لے آئے ہیں ۔ماں باپ یاتومجبورہیں یاپھرپرلے درجے کے بے غیرت ہیں حالانکہ مرد کاقیمتی زیور توغیرت تھاجس کاجنازہ نکل گیااورعور ت کاقیمتی زیور حیاتھی جس کی دھجیاں بکھرگئیں ۔ایسابے حیائی پرمبنی اوراخلاق باختہ ماحول سوچی سمجھی اسکیم کے تحت بنایاجارہاہے جس میں والدین کابھی پوراحصہ ہے اورپھرایسے بے حیااوراخلاق باختہ افراد بنانے پربے دریغ روپیہ بھی صرف کررہے ہیں ۔اس وقت دنیاوی لحاظ سے سب سے قیمتی دولت تعلیم کی ہے۔ مسلم معاشرہ میں والدین اورتعلیمی اداروں کے بانی سوچیں کہ ہم بچوں اوربچیوں کی زندگیاں بنارہے ہیں یابگاڑ رہے ہیں ۔زندگی کوتوویسے بھی گزرناہے کوئی اچھاکام کرے یابرا،جائز کام کرے یاناجائزاور دنیاکی تعمیر اورترقی میں حصہ لے یانہ لے زندگی گزر جائے گی۔

دوسر ی طرف انبیاء کرام علیہم السلام اوران کے نائبین اورسچے متبعین ہیں جولوگوں کی زندگیاں بناتے ہیں اوربنارہے ہیں۔بچوں اوربچیوں کی شروع سے اسلامی تعلیم و تربیت کرتے ہیں سکول ہویامدرسہ اس میں بہترین تعلیم دیتے ہیں ۔تعلیم دینی ہویادنیوی اسلامی دائرہ میں ہوتی ہے ۔معاشرہ کوبہترین اسلامی افراد مہیاکرتے ہیں پھرصرف اسی پر اکتفانہیں کرتے بلکہ جن کی تعلیمی اداروں نے زندگیاں بگاڑ کررکھ دی
ہیں ان بچوں کی بھی ان کوفکرہوتی ہے کہ کس طرح ان کی بگڑی ہوئی زندگی بن جائے ۔میں توہمیشہ کہتاہوں دیندارلوگوں کااصل میدان نوجوان نسل اورنوجوان طلبہ ہیں اورمحنت کااصل میدان ان کوبناناچاہیے ۔تعلیمی اداروں میں ان کی بہترین اسلامی تعلیم وتربیت کرنی چاہیے ۔لیکن افسوس اس بات کاہے کہ بعض ادارے ان کے اخلاقیات کوتباہ کرکے رکھ دیتے ہیں اورتبلیغی جماعت کے بے لوث اورمخلص افراد ان کی زندگیاں سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جس طرح مختلف طبقوں کی دینی تربیت کے جوڑ مقررکرتے ہیں کبھی اساتذہ کاجوڑ ہے ،کبھی پروفیسروں کا،کبھی ڈاکٹروں کا،کبھی زمینداروں کا، اورکبھی دینی مدارس کے طلبہ کاجوڑ ہوتاہے اورکبھی عصری اوردنیوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کاجوڑ ہوتاہے ۔دین کے نام سے ان کواکٹھاکرتے ہیں ۔دینی لحاظ سے ان پرمحنت کرتے ہیں ان کارُخ آخرت کی طرف موڑتے ہیں ہم نے کئی ایسے نوجوان طلبہ دیکھے ہیں جوالٹرا ماڈرن(فیشن کے بہت دلدادہ) تھے لیکن تبلیغی جماعت کی محنت سے ان کی زندگیاں بدل گئیں اوراب شکل وصورت سے کسی دینی مدرسہ کے معصوم طالب علم معلوم ہوتے ہیں۔ عصری درس گاہوں میں داڑھی اورپگڑی والے نوجوان نظرآتے ہیں یہ تبلیغی محنت کے اثرات وبرکات ہیں ۔حضورﷺ کے ورثاء علماء کرام اورمبلغین وغیرہ لوگوں کی زندگیاں بناتے ہیں اس کامطلب یہ ہے کہ عملاًدین کی طرف بلاتے اوردین پرلگاتے ہیں اسی کوزندگی بناناکہتے ہیں۔ اگرعصری اداروں میں دنیوی تعلیم کے ساتھ کچھ دینی تربیت ہوتوبہترہوگا۔بعض ایسے عصری ادارے بھی بن گئے ہیں جوطلباء کی دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کابھی خیال رکھتے ہیں اوریہ اس لیے کہ اکثروالدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے اوربچیاں ایسی تعلیم حاصل کریں جس سے ان کی زندگیاں بن جائیں لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کی تعلیم وتربیت کے نظام میں دخل اندازی نہیں کرسکتے ۔ دوسری طرف اولاد کوتعلیم دینابھی ضروری ہوتی ہے اوراب تقریباً ہرگھرانہ تعلیم کی طرف بھرپورتوجہ دے رہاہے کوئی گھرانہ ایسانہیں جس سے بچے اوربچیاں ان تعلیمی اداروں کارخ نہ کرتے ہوں۔

مسلم معاشرہ اورحکومت کوچاہیے کہ عصری تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کاخیال ضروررکھیں کیونکہ دینی تربیت کے بغیرخالص عصری تعلیم سے بہترین مسلمان ڈاکٹر اورانجینئر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔ہم سب مسلمانوں کافریضہ بنتاہے کہ ایک دوسرے کی زندگی کواسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اوریہ سوچ ختم کردیں کہ زندگی صرف گزارنی ہے کیونکہ صرف زندگی گزارناحیوانات کاکام ہے۔ گدھاساری عمرگدھارہتاہے ،بکری ساری عمربکری رہتی ہے اورکتاساری عمرکتارہتاہے ان میں کوئی زائد اچھی صفت پیدانہیں ہوتی لیکن انسان پردنیوی اوردینی محنت کی جائے تومختلف اچھی خوبیوں کامالک بن جاتاہے۔کبھی دنیاکے لحاظ سے خوبیوں اورصفات کامالک بن جاتاہے مثلاًڈاکٹریاانجینئر بن جاتاہے اورکبھی دینی لحاظ سے خوبیوں اورصفات کامالک بن جاتاہے مثلاً حافظ اورعالم یااس سے آگے صدیق، شہیداورصالح بن جاتاہے۔دنیاوی لحاظ سے انسانی ترقی کے محدوددرجات ہیں لیکن وہ بھی صرف موت تک یانوکری سے ریٹائرمنٹ تک ہوتے ہیں لیکن آخرت کے لحاظ سے روحانی درجات کی کوئی انتہا نہیں صرف نبی نہیں بن سکتا۔اس لیے دنیامیں سب سے زیادہ محنت خودانسان کواپنے اوپراوردوسرے انسانوں پرکرنی چاہیے تاکہ سب کی زندگی بن جائے۔

Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 190696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.