اور پھر جیو نیوز اور حامد میر کا حملے میں آئی ایس آئی کو ملوث کرنا...؟

کیاہماری تباہی کے ذمہ دارخدشے ،غلط اندازے، مفروضے ، توہمات اور وسوسے ہیں..؟

یقیناحامد میر کاشمار نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا ءمیں اُن سنینئرصحافیوں اور اینکرپرسنزمیں ہوتاہے جو خطے کے ہر اچھے بُرے حالات پر گہری نظررکھتے ہیں اور حامدمیر جیسے اپنے شعبے میں مایہ ءناز شخصیت کی ناصر ف ہر پاکستانی عزت کرتاہے بلکہ اِن کی بیباک صحافت اور کھرے تبصروں اور تجزیوں کو ادارے بھی احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،آج حامد میرپر ہونے والے قاتلانہ حملے پر صحافت کے حلقوں سمیت ساری پاکستانی قوم اور ادارے تشویش میں مبتلاہیں اوراِس کی پُرزورمذمت کرتے ہوئے آج پاکستان کا ہر خاص و عام شہری حامدمیر کی جلدصحت یابی کے لئے اللہ اور اُس کے پیارے حبیب حضرت محمدمصطفی ﷺ کے حضوردعاگو ہے مگراِسی کے ساتھ ہی افسوس ہے کہ آج سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکے قتل کے بعد جیونیوز نے اپنے سنیئر صحافی اوراینکرپرسن حامدمیر پر کراچی میں ہونے والے قاتلانہ حملے میں پاکستان کے سب سے بڑے اور قابلِ احترام ادارے آئی ایس آئی کوملوث کرکے مُلک دُشمن عناصر کے ناپاک عزائم کی توسیع کردی ہے جس پر عسکری ذرائع نے سخت ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ جنگ گروپ کی جانب سے وطیرہ بنالیاگیاہے کہ جب بھی کوئی واقعہ ہوتاہے جس کا محور کوئی اہم شخصیت ہوتو الزامات کا رخ ” آئی ایس آئی “ کی جانب موڑدیاجاتاہے اِن کا کہناہے کہ یہ قابلِ مذمت اور افسوسناک ہے تووہیںاَب ایک بار پھر غلط اندازے ، مفروضے ،توہمات اور وسوسے اور خدشے کی بنیاد پر جیونیوز اور حامد میر کی جانب سے ڈی جی آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے الزامات کے بعدقوم کوبھی یہ سوچنے پرمجبورکردیاگیاہے کہ جیونیوزاپنے تعین اِس قسم کی بیباک صحافت کی اُوٹ سے مُلک اورقومی اداروں کی کونسی سے خدمت کرناچاہ رہاہے اَب جیونیوز کی اِس حرکت کے بعدجس میں جیونیو زاور حامد میر نے قومی ادارے کو کھلم کھلا ملوث کردیاہے اِس سے تو دنیابھر میں ہماری بقاوسالمیت اور مُلکی استحکام کی جنگ لڑنے والے حساس اداروں کی کارکردگی پراغیارکواور انگلیاں اُٹھانے اور اِنہیں بدنام کرنے کا موقعہ ہاتھ آجائے گا،جیونیوزاور حامدمیر جیسے صحافی اور اینکرپرسنزکوغلط اندازے، مفروضے ،توہمات اور وسوسوں کے باعث اپنے قومی اداروں پر اِس قسم کے الزامات لگانے سے پہلے اچھی طرح سے سوچ لیناچاہیے تھاکہ وہ کیا کرنے جارہے ہیں...؟اِن کے اِس الزام سے شاید اِنہیں یا اِن کے ادارے جیونیوزکو تواغیارسے کچھ فوائد حاصل ہوں مگر اِن کی جانب سے قومی اداروں پر اِس قسم کے لگانے جانے والے الزامات سے مُلک وقوم اور قومی اداروں کا وقارساری دنیامیں مجروح ہوگا،پھرجس کا خمیازہ ساری قوم کو صدیوں تک بھگتناپڑسکتاہے۔

اگرچہ آج کا اِنسان مشینی دورمیں داخل ہوکر بھی طرح طرح کے غلط اندازوں، مفروضوں وسوسوں اور تُوَ ہُّمات میں مبتلاہے،اگرآج اِن بنیادوں پر دیکھاجائے تو ایسامعلوم دیتاہے کہ جیسے جیونیوز اور حامد میربھی اِن ذہنی بیماریوں کے شکار لگتے ہیں،تب ہی اِنہوں نے فوراََ اپنے پر ہونے والے حملے کا الزام قومی ادارے کو ٹھیرادیایہ ضروری نہیں ہے کہ جیونیوزاور حامد میر ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں یہ غلط بھی تو ہوسکتے ہیں کیوں کہ اِنسان تو ہے ہی خطاکا پتلا.....مگر آ ج جیونیوزاور حامد میر قومی ادارے پر حملے کا الزام لگاکر جیسے سراپاخطابن گئے ہیں۔

بہر حال ...؟ایک جیونیوز اور حامدمیر ہی کیا بلکہ موجودہ حالات میں ایسالگتاہے کہ جیسے آج تو میرے مُلک اور معاشرے کا ہر فردہی غلط اندازوں ، مفروضوں وسوسوں اور توہمات میں مبتلانظرآتاہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی ظاہری و باطنی بیماریوں اور پریشانیوں سے نجات کے لئے بدعقیدہ اور جعلی پیروں اورعاملوں کے چکروں میں پڑکر اپناسب کچھ غرق کررہاہے، ا گر یہی کچھ کرناتھاتو پھر اتنی ترقی کرنے کی کیا ضرورت تھی ...؟ایساتو گزرے زمانوں کے اِنسان بھی کیا کرتے تھے، موجودہ حالات میں بھی اِنسان ایساویساکچھ کرکے کیا سمجھتاہے کہ اِس نے جتنی ترقی کی ہے اِس سے اِس نے اپنے اندر کا اِنسان اور فطرت تبدیل کرلی ہے تو جو اب یہ ہے کہ نہیں آج بھی اِنسان وہیں کا وہیں کھڑادِکھائی دیتاہے جہاں سے یہ چلاتھا، توپھریہ مان لیاجائے کہ آج کا اِنسان بھی اندازوں اور وسوسوں اور توہمات میں جکڑاہواہے اِس کی ترقی اپنی جگہہ سہی مگر آج بھی اندازوں اور وسوسوں اور توہمات نے اِس کا پیچھانہیں چھوڑاہے۔

جبکہ آج کی دنیا کے اِنسانوں میں ذہنی بیماریوں کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ غلط اندازے اور وہ وسوسے اور توہمات ہیں جن میں مبتلاہوکر بیشتر اِنسان نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا تیزی سی شکارہورہے ہیں،یوں آج معاشرے میں بیمارجسم سے بیمارذہن زیادہ خطرناک ہوگیاہے۔

اگرچہ آج بھی معاشرے میں بڑھتے ہوئے وبائی ذہنی امراض اورنفسیاتی بیماریوں سے لوگوںکو بچایاجاسکتاہے مگرآج جن کی یہ ذمہ داری ہے لگتاہے کہ وہ خودبھی کسی نہ کسی نفسیاتی اور ذہنی بیماری کا شکارہوگئے ہیں اَب ایسے میں کون ایساہوگا...؟جو معاشرے کے لوگوں کو وبائی ذہنی امراض سے بچائے گا۔آج ایسے میںضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے اردگرد کے ماحول کا تفصیلی جائزہ لیناہوگااور پھر ایک ایسی متحرک تحریک چلانی ہوگی جس میں ایسے افراد شامل ہوں جو اِنسان اور آدمی میں پانے جانے والے واضح فرق کو جانتے ہوں اور اِسی طرح وہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد اِنہیں نبھانے کا فریضہ بھی اداکریں۔اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے والے زمانے کے اِنسانوں کے پاس اتنابھی وقت نہیں ہے کہ یہ اپنے آپ پر بھی توجہ دے سکے آج اگراِنہیں کوئی مگن ہے توبس یہ ہے کہ یہ کم سے کم وقت میں بہت کچھ حاصل کرلیں اور درجہ بدرجہ مادی ترقی کرتے ہی چلے جائیں ،یوںآج کے اِنسان کی اِس کوشش اور کشمکش نے اِسے کہیں کا بھی نہیں چھوڑاہے،یہ اپنی پیدائش سے لے کر قبرکی آغوش میں جانے تک اپنا مادی قداُونچاکرنے میں ہی لگارہتاہے حتیٰ کہ یہ مرجاتاہے مگر اِس کی خواہشات اُدھوری رہ جاتیں ہیں۔

آج کے جدیددور کا اِنسان جس طرح زندہ ہے، اَب اِسے سمجھنا خود اِس کے اختیار میں بھی نہیں رہاہے اِس کامشینوں کی طرح کا م کرنااور ہر کام کا فوری فوری نتیجہ حاصل کرنے والارجحان یقینا اِس کی ذہنی بیماریوں اور نفسیاتی امراض میں مبتلاہونے کی گواہی کے لئے کافی ہے، اَب یہ اور بات ہے کہ آج یہ نفسیاتی مریض بن کر بھی یہ تسلیم نہیں کرتاہے کہ وہ ذہنی بیماریوں میں مبتلاہوگیاہے اور ایسے میں اِسے اپنے علاج کی اشدضرورت ہے مگر یہ کیساپاگل ہے ...؟کہ یہ خود پاگل ہوکر بھی دوسرے کو پاگل سمجھتااورکہتاہے کیا یہ المیہ نہیں ہے...؟ اُن اِنسانوں کے لئے جو مادہ پرستی اور دنیاوی ہوس کی ریس سے باہر ہیں۔

جبکہ موجودہ زمانے میں یہ نقطہ بھی اِنسانوں کے لئے ایک بہت بڑاسوالیہ نشان بن گیاہے کہ آج کے زمانے کے اکثر اِنسان ذہنی و نفسیاتی امراض میں مبتلاہیں اور کہتے ہیں کہ اندازہ ہورہاہے کہ جیسے اِس پر اور... اُس پر.... کسی جِن یا بھوت پریت کا سایہ ہوگیاہے اگرچہ اِس سے بھی انکار نہیں ہے کہ موجودہ سائنسٹفک دورمیں اِنسان کا اعتماد اپنے مذاہب سے کم ہوکراپنی ہی بنائی ہوئیں ایجادات اور اِن سے حاصل ہونے والے علم اور نتائج پر زیادہ ہوگیاہے،جو درپردہ اِس کی مذہبی اور ایمانی تباہی اور بربادی کی بھی بڑی وجہ ہے۔

آج ہم پاکستانیوں کا جو ایک سب سے بڑامسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے مُلک کا کوئی بھی شہری خواہ صدرِ پاکستان ہوں یا وزیراعظم پاکستان ہوں اُوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب توہمات ، اندازوں اور وسوسوں جیسی نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوکرپاگلوں جیسے ہوگئے ہیں، آج اگرہمیں اِس تباہی اوربربادی والی کیفیات سے نکلنا ہے توپھر ہمیں ہر صورت میں اپنی حقیقی ترقی کے خاطر یہ کام ضرورکرناہوگاکہ ہم سب کو مل کر اپنے اپنے تعین توہمات اور اندازوں اور وسوسوں جیسی ذہنی بیماریوں سے خود ہی نکلناہوگااور توہمات کے اپنے ہی بنائے گئے بُتوں کو توڑڈالناہوگاجن کی وجہ سے ہم پاگلوں جیسے ہوگئے ہیں اورترقی نہیں کرپارہے ہیں۔

چونکہ ابھی جنگ گروپ کے سینئرصحافی اور اینکرپرسن حامدمیر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات ہوناباقی ہے سو نہ تو جیونیوز اور خودحامدمیر کو بھی یہ چاہئے کہ یہ قبل ازوقت محض کسی خدشے کی بنیادپر کوئی ایسی بات کہیں کہ جس سے قومی اداروں کی ساکھ اور مُلک کی خودمختاری کو نقصان پہنچے کا اندیشہ ہواور اگر جذبات میں بے سوچے سمجھے ایساکچھ کہہ گئے ہیں تو اِسے فوری طور پر واپس لیں اِس ہی میں قوم اور اداروں کی بھلائی ہے ورنہ ہمارادُشمن جو تیسری طاقت بن کر کھیل کھیل رہاہے اِسے فائدہ پہنچے گا اور ہم یوں ہی خدشات ، اندزوں ، وسوسوں، مفروضوں اور توہمات میں پڑکر ایک دوسرے پر الزامات لگاتے لگاتے لڑتے رہیںگے اور ایک دوسرے کو کمزور سے کمزورترکرکے ایک ایک کرکے دُشمن کا نوالہ بنتے رہیں گے، کیوں کہ ہمارادُشمن تو یہی چاہتاہے کہ ہم اور ہمارے ادارے آپس میں لڑتے لڑتے خود ہی ختم ہوجائیں۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 888130 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.