ہم احسان فراموش اور بحث کرنے والے لوگ ہیں

ایک نقطہ ـ’محرم‘ سے ’مجرم‘ بنا دیتا ہے۔ اس نقطے نے محرم کا مفہوم اور تاثیر یکسر تبدیل کر کے مجرم کے زمرے میں لے گیا ۔۔بالکل اسی طرح ہم لوگ، ہم عوام اس نقطے کی طرح ہیں، جو اپنی ذمہ داری، اصولوں اور رویوں سے بالکل ناواقف ہیں ۔۔۔ ہماراکوئی مقام نہیں۔۔۔اسی نقطے کی طرح گردش میں ہی رہتے ہیں ۔آج خوش ہیں تو کل ناخوش، حرف شکر ہماری زبان پر نہیں۔۔۔ہر وقت جلنا، کڑنا اور مرنا ہمارا مشغلہ بن گیا ہے۔ ہرکام کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارا فرض کیا ہے۔۔۔صبح سے رات تک ہم عوام، احسان جتاتے ہیں، احسان فراموش کرتے رہتے ہیں،بحث کرتے چلے جاتے ہیں۔ شکایت کا معمول بناتے ہیں مگر کبھی خود کو درست نہیں کرتے۔محفلوں میں بیٹھ کر ہم حکمرانوں کی نااہلی اور حکومت کی سست روی کا رونا روتے ہیں۔۔۔اصل میں ہم نا شکرے ہیں ۔ہم میں قوت برداشت ختم ہو چکی ہے۔ہم لوگ اپنے دفتروں میں اپنے محکموں میں ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے مگر ایک دوسرے کے بارے میں بڑے بڑے بیانات جاری کرتے ہیں۔۔۔ہمیں لوگ قوانین کی شکایت کرتے ہی اور پھر ہم ہی ان کو توڑتے ہیں۔۔۔ٹریفک پولیس والا سڑک کے بیچ ،سیڈیاں بجا بجا کر، دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں اشارے کرتا رہتا ہے مگر ہم بے حد مجبور قوم ہیں ، جلدبازی کامظاہرہ کر کے نقصانات کماتے ہیں اور پھر حکومت کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔۔۔

ہم لوگ اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ سرکاری اداروں سے پڑھ کر آتے ہیں اور پھر انہی اداروں میں اپنے بچوں کو بھجنا باعث شرم سمجھتے ہیں۔۔۔ہم اپنی تعلیم سے انصاف نہیں کرتے۔۔۔خاصا پڑھا لکھا بندہ، ریڑی والے سے سبزی خریدتا ہے۔۔۔پاس سے ایس پی کی گاڑی گزرتی ہے۔۔۔وہ ایس پی صاحب کو بہت گر م جوشی سے سلام پھینکتا ہے۔۔۔مگر ریڑی والے سے ۱۳ گالیاں دینے کے بعد کلام کرتا ہے۔۔۔یہ ہے ہماری دوہری شخصیت۔۔۔مگر ہم شکایت دوسروں کی کرتے ہیں۔۔۔اب اس پڑھے لکھے آدمی اور ریڑی والے میں کیا امتیاز رہ گیا۔۔۔ایس پی صاحب کو تو پتہ بھی نہیں کہ کسی انسان نے سلام کیا یا بلی نے میاوں۔۔۔وہ تو سرکاری پٹرول پر گاڑی ڈوراتے پھر رہے ہیں۔۔۔ پھر بھی سرکار سے شکایت کرتے ہیں، بجٹ کم ہے، مہنگائی بہت ہے۔۔۔یقین مان لیں ۔۔۔ ایس پی صاحب آپ کو بجٹ اور مہنگائی سے کیا لینا دینا۔۔۔آپ تو غریب کے خون سے پلتے ہیں، بچوں کو پالتے ہیں، غریب کا خون ویسے بھی خاصا سرخی مائل ہوتا ہے، محنت اور حلال کمائی سے جو بنتا ہے۔ اسی سرخی سے آپ اپنی بیگمات کے جواہر بنواتے ہیں۔ مگر پھر بھی ناشکری،احسان فراموشی۔۔۔

ہم لوگ ایک معیاری زندگی کے طالب ہیں۔سہل زندگی، آسان رائیں اور حسین خوابات میں جیتے ہیں۔۔۔مگر ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہم بھی ایک خواب کی پیداوار ہیں جو ہمارے عظیم رہنماؤں نے ماضی میں دیکھا۔۔۔لیکن ہم اس خواب کو بھلا بیٹھے ہیں ۔پاکستان بنا، آزادکشمیر لفظوں میں سکون تلاش کرتا رہا۔۔۔لیکن ہم کشمیری، پاکستانی نا جانے کیا قوم ہیں کہ ملک کی تعمیر کے بجائے اپنی انا اور اپنے غرور میں جی رہے ہیں۔۔۔دوسروں کی حق تلفی کر کے، دھوکہ دے کر ،بے اعتباری کر کے خود قابل اعتماد نہیں رہے۔۔۔

کبھی کبھی تو میں سوچتی ہوں ہم فارغ قسم کے لوگ ہیں جو تعمیری صلاحیت سے بے خبر ہو کر، حکمرانوں اور سیاست دانوں کے بارے میں بحث کرتے رہتے ہیں۔۔۔اپنے کردار پر توجہ نہیں دیتے۔اب ضلع بھمبر کو ہی لے لیں کہنے کو تو ایک ضلع ہے مگر یقین جانیئے ضلع والی تو کوئی بات ہی نظر نہیں آتی۔ اگر میں قصبہ کہوں تو خاصا مناسب لفظ ہو گا۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پانی کا نظام تسلی بحش نہیں ہے۔ چور بازاری عام ہے۔ نادرا آفس، کچہری، سرکاری ہسپتال میں آفسران من مانی کر رہے ہیں۔۔۔ پس کوئی پوچھ نہیں کوئی روک نہیں۔ شہر میں تو خود آفسران سرکاری بجٹ پر ادھر ادھر بھاگتے رہتے ہیں، مگر ضلع بھمبر آج بھی ترقیاتی کاموں میں پیچھے ہے۔۔۔پنجاب پولیس کی آمد ہوئی۔۔۔ٹریفک قوانین ترتیب دیئے گئے ۔، ہلمٹ کی سختی۔۔۔ ، مگر ہم لوگ کیا کرتے ہیں وہی شکایت۔۔۔لوگوں نے دو چار دن کے لیے، ہلمٹ گمایا، مگر جونہی آزادکشمیر کی حدود سے باہر نکلتے ہی ہمارے اندر کا انسان باہر آگیا۔پھر ہم ہی شکایت کرتے ہیں کہ نظام نہیں چلتا۔۔۔

سرکاری ہسپتال کا ہی جائزہ لیں تو دیکھنے میں واضح صورت حال نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات ہر حالت میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں مگر انسانوں سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم لوگ ڈاکٹر بن کر غریبوں کی امداد کرنے کا شوق ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن سیٹ سنھبالتے ہی دہ لفظ پیار کے بولنا بھول جاتے ہیں۔ ہم ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کو اصولوں کی تعلیم دیتے ہیں۔ حقیقت بیان کرتے ہیں، لیکن خودعمل سے عاری ہیں۔ بھمبر سرکاری ہسپتالوں کا جائزہ لیں، اچھے اچھے میڈیکل کالجوں سے ڈاکڑی پڑھ کر آئے،مریض ڈاکڑ کا پوچھے تو جناب ٹی بریک میں مصروف ہیں۔۔ ڈلیوری کیس آپہنچا۔۔ڈاکٹر کہاں ہیں، جی وہ تو آرام فرما رہے ہیں، وہ تو ٹی بریک میں ہیں۔۔۔ کیس پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔۔۔ ڈاکٹر گپوں میں مصروف ہے۔ زچہ بچہ اذیت میں ہے۔۔۔ اخلاقی طور پر تو ڈاکٹر کو سب کچھ چھوڑ کر آجانا چاہیے۔لیکن شاہد ڈاکٹروں کی سوچ ہے کہ بچہ بھی اپوائنٹمنٹ لے کر پیدا ہو۔۔۔قدرتی عمل کسی آرڈر کے محتاج تھوڑی ہوتے ہیں۔۔۔خیر ٹی بریک جاری ہے۔۔۔ زچہ مر گئی۔۔۔ بچہ مر گیا۔۔۔ لیکن چائے نہیں ختم ہوئی۔۔۔ یہ تو کارگزاری ہے ہماری سرکاری ڈاکٹروں کی۔ ہم ڈاکٹر وہ عہد بھول چکے ہیں جو ڈگری وصول کرتے وقت کرتے ہیں کہ قوم کی خدمت کریں گے۔ ہم تو اپنی انا کے پجاری بن جاتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم سسٹم نہ چلنے کی دوہائی کرتے ہیں۔سسٹم کو چلانے والے ہم لوگ ہی ہیں مگر بے حسی کاشکارہیں۔ احسان فراموش ہیں، حکومت کو زیر بحث لاتے ہیں۔۔۔

اس کے علاوہ بھمبر میں برادری نظام کی فضا بہت گرم ہوتی جا رہی ہے۔ شہر میں ہماری وابستگی ہر برادری سے الگ الگ ہے۔ لوگ برادریزم میں اندھے ہو چکے ہیں۔ ہم لوگ بھول چکے ہیں کہ انسان ہیں مٹی میں جان ہے۔ مگر یہاں تو ہر کام برادری کے ٹوکن سے حل ہوتا ہے۔ راجپوت ہو جاٹ ہو، جرال ہو گیا ہر ایک کی اپنی لاٹھی، اپنی بھنس ہے۔ مسائل لکھنے پر آئیں تو ختم ہو ہی نہیں سکتے۔ مہنگائی بڑھتی جارہی ے۔ باب کشمیر بجلی کی ناقص فراہمی کی وجی سے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ تعاصب پسندی عام ہے۔ محکمہ پولیس اپنا بادشاہ اور ملکہ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ کچہری میں چلیں جائیں تو عجیب ماحول ہے لوگ سانپ او ر سیڑھی استعمال کرتے ہیں۔۔۔ جی میں آیا تو کسی کو سانپ سے ڈسوا دیا تو کسی کو سیڑھی پر چڑھا دیا۔۔۔یقین مانیئے ہم خود نفسانفسی کا شکار ہیں اور شکایت سرکار کی کرتے ہیں۔۔۔

صحافت کسی دور میں مقدس پیشہ سمجھا جاتا تھا لیکن آجکل کے ملاوٹ کے دور میں اس شعبہ کو بھی پھچھوندی لگ چکی ہے۔ صحافیوں کو چائیے کہ ضلع بھمبر کے اصل مسائل کو سامنے لائیں۔ لیکن چند روپوں کی خاطر یہ حضرات مختلف سیاسی پارٹیوں سے شراکت کر کے ان کی من پسند رپورٹیں کرتے رہتے ہیں؂؂؂۔ یہ صحافت کے دیوتا، لفظوں کی ہیر پھیر کرتے رہتے ہیں۔ سچائی کو چھپانا اور بعض ازاں تو مواد ردی کی نظر کر دیا جاتا ہے۔ یہ حالت ہے ہم لوگوں کی، ہم اپنے ضمیر پر کالا کپڑا لپیٹ کر سلا چکے ہیں تاکہ کچھ محسوس ہی نہ ہو ۔ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہو سکتے جب تک انھہیں سامنے نہ لایا جا سکے۔ مگر ہم لوگ ذمہ داری تو لے لیتے ہیں مگر فرض پورا نہیں کرتے ۔ہم سب لیڈر بن چکے ہیں ہر وقت سیاست کے فلسفے اور جمہوریت پر بات کرتے رہتے ہیں۔ ظلم کو حاکم بنا دیا گیا ہے اور رحم محکوم ہی رہ گیا۔۔ ۔ اس علاقے میں سنگین مسائل اس وقت حل ہوں گے جب ہم صحافت کے داؤ پیچ سمجھ کر حقیقت کو سامنے لائیں گے۔ ہمیں چاہیے ہم اپنا آپ درست کریں۔ احسان فراموش نہ بنیں بلکہ خدمت گزار بنیں۔۔۔

lubna azam
About the Author: lubna azam Read More Articles by lubna azam : 43 Articles with 37873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.