معاشرے میں میڈیا کا منفی کردار

میڈیا کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ معاشرے کو سنوارنے میں جہاں میڈیا اپنا کردار ادا کرتا ہے ، وہیں پر کچھ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ یوں تو میڈیا کے اچھے پہلو بہت ہیں تاہم اس کے بُرے پہلوؤں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

آج کل کوئی بھی چینل آن کر لو اس کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ پاکستانی میڈیا ہے۔ میڈیا اتنی فحاشی اور بے حیائی پھیلا رہا ہے کہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نیوز سننا بھی محال ہو گیا ہے۔ نیوز میں بھی کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ ایسا آ جاتا ہے کہ بندہ شرم کے مارے پانی پانی ہو جائے اور ملک کے حالات سے با خبر رہنے کی حسرت دل میں لیے ٹی وی سے دور بھاگنا پڑتا ہے۔ باقی ماندہ کسر اشتہارات پوری کر دیتے ہیں۔ اشتہارات کو دیکھ کر وہ اشتہار کم اور ماڈلز کی نمائش زیادہ لگ رہے ہوتے ہیں۔گویا لڑکی کے بغیر تو کوئی اشتہارات مکمل ہوتا ہی نہیں ہے۔

جبکہ کیبل پر چلنے والے دیگر چینلز کی بھر مار ہے ان کے پاس اپنا معیاری تو دکھانے کے لیے کچھ ہوتا نہیں ہے تو وہ سارے انڈیا کے پرگرامات نشر کر رہے ہوتے ہیں اور اب تو ترکش نے بھی ہمارے میڈیا پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ ہماری خواتین اپنے سارے کام زیرالتوا ڈال کر ان پرگرامات سے نت نئے پروپیگنڈے سیکھ رہی ہوتی ہیں۔

گھر کو کیسے سنبھالنا ہے بچوں کی تربیت کیسے کرنی ہے آج کل کی خواتین نے یہ فکر کرنی چھوڑ دی ہے۔ ہمارے بچوں کو اپنے قومی ہیروز کے نام تک تو ٹھیک سے آتے نہیں مگر انڈین ہر فلم کے ہیرو کے ساتھ اسکے ڈائیلاگ بھی یاد ہوتے ہیں۔

ایک شادی کی تقریب میں کھانا لگنے پر بچے نے اپنے والد سے پوچھا ابو کھانا لگ رہا ہے مگر یہاں تو شادی ہوئی ہی نہیں۔ والد نے کہا کہ بیٹا شادی تو ہوگئی ہے۔ جس پر بیٹے نے کہا مگر ابو یہاں تو پھیرے ہوئے ہی نہیں۔ ہمارے بچوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہمارے ہاں پھیرے نہیں نکاح ہوتا ہے۔

پہلے مائیں بچوں کو چھوٹی چھوٹی سبق آموز کہانیاں سناتیں تھیں جن کا بچوں پر اثر بھی بہت ہوتا تھا اور وہ کہانیاں وہ آگے اپنے دوستوں کو بھی بتاتے تھے۔ مگر اب والدین سب کچھ استاد یا میڈیا کے بل بوتے پر چھوڑ دیتے ہیں۔

میڈیا بچوں کی تفریح کے نام پر جو دیکھایا جاتا ہے وہ بھی قابل دید ہی ہوتا ہے۔ جہاں بچوں کو حقیقت پسند بنانا ہے وہاں ہمارا میڈیا انہیں خیالی دنیا میں دھکیل رہا ہے۔ بچے اپنی مدد آپ کو چھوڑ کر کوشش کو پس پشت ڈال کر بین ٹین، بوم اور چھوٹا بین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
بچپن میں جب ٹی وی چینل بہت کم ہوتے تھے تب ان پر بچوں کے لیے بھی اچھے اچھے پرگرامات ہوتے تھے۔ پی ٹی وی کا ایک پروگرام (سراغ) جو شام کے وقت بچوں کے لیے نشر ہوتا تھا جو بچپن میں دیکھا کرتے تھے وہ آج تک ذہنوں پر نقش ہے۔ اکثر و بیشتر آپس میں ان پر گفتگو کر کے آج کے پروگرام سے موازنہ کرتے ہیں تو آج کا کوئی پروگرام ویسا نہیں ملتا۔ جو حقیقت سے قریب تر تھا اور بہت سبق آموز بھی۔
اسکے علاوہ ایسی کرائم اسٹوریز چلائی جاتی ہیں کہ جن کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جہاں ایک چھوٹے سے پوائنٹ سے مجرم کو پکڑنا اور جرائم کی تہہ تک پہنچنا دکھاتے ہیں وہاں کرائم کا یونیک سے یونیک طریقہ بھی دکھایا جا رہا ہوتا ہے۔ جس سے معاشرے میں روز بروز کرائم کا اضافہ ہوتا ہے۔

اگر رسم و رواج کی بات کی جائے تو کافی عرصے تک برصغیر میں ہندو مسلم کے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے ان کی کافی سارے رسومات ہم میں سرائیت کر گئے تھے اور جو رہی سہی کسر تھی وہ میڈیا نے پوری کر دی۔

ان کی مثالیں اکثرو بیشتر خاص طور پر ہماری شادی کے پرگرامات میں ملتی ہیں اورایک بڑی اور قابل فکر مثال مزاروں پر بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ جہاں ہم مسلمان ہونے کے باوجود غیر اﷲ کو قبروں کی صورت میں سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے علاوہ کسی صورت میں بھی کسی اور کو سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہوا۔ وہ سب جو مندروں میں ہو رہا ہوتا ہے یہاں مزاروں میں ہو رہا ہوتا ہے۔ پہلے تو مزاروں پر قوالی ہوتی تھی پر کلاسیکل گانے اور اب تو ناجانے وہاں کیا کیا ہوتا ہے۔ اتنا ہنگامہ اور شور شرابہ کے بے چارے قبروں والے بھی سوچتے ہوں گئے کہ،
نا جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
اور
جو مر کر بھی چین نہ پایا تو اب کدھر جائیں

نام نہاد عامل بھی جو خود کو مزار والے بابا کامرید یا مریدنی کہہ رہے ہوتے ہیں وہ لوگوں کو لوٹنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ بھی ہماری طرح کے عام انسان ہی ہوتے ہیں مگر لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے پتہ نہیں انہیں کیا کیا سمجھ رہے ہوتے ہیں جو انکے پاؤں میں بیٹھنا، ان کے ہاتھ اور لباس کو بوسہ دینا، انہیں دیکھنے کے لیے جی جان سے کوشش کرنا، دوسروں کو پاؤں میں روندنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ جبکہ وہ مرید بھی لوگوں کے مسائل سن کر کہتے ہیں ابھی ابھی بابا جی نے حکم دیا ہے کے اتنے پیسے جمع کروا دو کالابکرا، یا کالی مرغی لے آؤ وغیرہ وغیرہ تو تمہارا کام ہو جائے گا۔

مگر عقل کی اندھے مرید یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری ان چیزوں سے بابا کو کیا غرض؟ اور بھلا وہ کیسے کسی سے ہم کلام ہو سکتے ہیں؟ یہ سب ایسے مناظر ہوتے ہیں جو ایک قابلِ فہم مسلمان کا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں اور ان الٹے سیدھے عاملوں اور بابوں تک پہنچانے میں میڈیا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ ان کی طرف سے دئے گئے اشتہارات، کرامات کی بھرمار دیکھا دیکھا کر لوگوں کے ایمان کا جنازہ نکالا جاتا ہے۔

ہمارے میڈیا کو چاہیے کے وہ لوگوں کے ذہن سے یہ چیزیں نکالے کچھ ایسا دکھائے جس سے ہمارا معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو اور جہاں تک ممکن ہو دوسروں کی تہذیب دکھانے سے گریز کرے اور اپنی تہذیب و تمدن کا پرچار کرے۔ ہندوستان کا کوئی ایسا پروگرام نہیں ہوگا جس میں وہ اپنا پوچا پاٹ اور مندر نہ دکھائیں یا اس کا ذکر نہ کریں مگر ہمارے ہاں بہت کم پراگرام میں ہمارا کوئی مذہبی طریقہ دکھایا جاتا ہے۔

ہمارا میڈیا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں معیار کو تو بالکل ہی بھول چکا ہے الٹا لوگوں کو دین سے دور کرنا کا بھی باعث بن رہا ہوتا ہے۔ جو تفریح کے نام پر بھی وہ بے ہودگی دکھا رہا ہوتا ہے کہ بس․․․․․․․․․․ اور ہماری ماڈلز وہ تو کہیں سے بھی پاکستانی نہیں لگ رہی ہوتیں خود کو اونچا کرنے اور نام کمانے لیے وہ کچھ بھی پہننے اور کوئی بھی گھٹیا قسم کی حرکات و سکنات کرنے سے گریز نہیں کرتیں۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ جہاں ’’اسٹیٹس اپ‘‘ ہو جاتا ہے وہاں عزتیں رُل جاتی ہیں۔ حالانکہ عزتوں کے بغیر اسٹیٹس کس کام کا․․․؟ غور کرنے کی بات ہے․․․․ تبدیل کیجئے خود کو، اگر آج ہم اپنی سمت درست کرلیں گے تو کل ہم اپنے بچوں کو ایک صحت مند پاک صاف معاشرہ دے پائیں گے۔

Safoora Nisar
About the Author: Safoora Nisar Read More Articles by Safoora Nisar: 11 Articles with 12043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.