بلوچستان میں بھارتی مداخلت پر حکومتی خاموشی

سینئر وزیر اور پاکستان مسلم لیگ (ن )بلوچستان کے چیف سردار ثناء اﷲ زہری خان نے کہا ہے کہ بھارت صوبے میں علیحدگی پسند تحریک کی فنڈنگ کرتا ہے۔گوادر پورٹ کی ناصرف سیاسی، بلکہ جغرافیائی سطح پر بھی بڑی اہمیت ہے اور اس کو استعمال کے قابل بنانے سے دیگر علاقائی بندرگاہوں کیلئے مدد گاہ ثابت ہو گا۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کی مالی طور پر مدد کرنے میں بھارت ملوث ہے اگر ساحلی شہر گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کے قابل بنادیا گیا تو کچھ دیگر پڑوسی ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور صوبہ میں بدامنی پھیلانے کیلئے اس کی مدد کرسکتے ہیں۔نئی دہلی مین تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے انکشاف کیا کہ جون 2014 میں بھارت پاکستان کے مابین مسائل کو حل کرنے کے لئے بات چیت شروع ہو گی اور ہم امید کرتے ہیں کہ مسائل کو حل کرنے کے سلسلے میں پیش رفت ہو گی۔ جون تک بھارت میں نئی حکومت نے اپنا کام شروع کیا ہو گا اور پاکستان جتنی جلد ممکن ہو سکے بات چیت کا خواہشمند ہے تاکہ خطے میں جو صورت حال پیدا ہوتی جا رہی ہے اسے دور کرنے میں مدد مل سکے گی۔ بھارت پاکستان کی حکومتیں مسائل کو قالین کے نیچے چھپا نہیں سکتی ہیں بہر حال مسائل کو حل کرنے کے لئے کسی نہ کسی وقت اقدامات اٹھانے ہی ہوں گے۔ بہتر یہی ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک ایسی فضا قائم کی جائے جسے راہیں خود بخود معین ہو سکیں۔ کشمیر کے مسئلے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان سیاچن ، سرکریک کے مسائل بھی موجود ہیں جنہیں حل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے خطے میں صورت حال تیزی کے ساتھ بدلتی جا رہی ہے اور بھارت پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں امن قائم کرنے کے لئے اب سنجیدگی کے ساتھ اقدامات اٹھائیں۔ مسائل کو جمع نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے حل کے لئے کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے تمام ملکوں میں تعینات ہائی کمشنروں سے تاکید کی ہے کہ وہ مسائل کو حل کرنے کے لئے اپنی خدمات انجام دیں خاص کر بھارت پاکستان کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف کافی سنجیدہ دکھائی دے رہے ہین اور انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا جو عندیہ دیا ہے اسے خطے میں اعتماد سازی بحال کرنے میں کافی مدد ملی ہے اور بھارت کی نئی منتخب حکومت پر یہ لازمی ہے کہ وہ پاکستانی وزیر اعظم کے خیر سگالی کے جذبے کا مثبت جواب دے۔ بھارت میں تعینات پاکستان کے ہائی کمشنر نے کہا کہ اب کافی ہو چکا ہے اختلافات کشیدگی ، تناؤ کے ماحول نے دونوں ملکوں کے لوگوں کو مختلف مسائل اور مصائب سے دوچار کیا ہے اور اگر دور جدید میں بھی ان مسائل کا حل نہ ڈھونڈ نہ نکالا گیا تو یہ دونوں ملکوں کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ ہر ایک مسئلے کو پرامن طریقے سے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے حل کرنے کے خواہشمند ہیں نہ پاکستان کسی کو ڈرانا چاہتا ہے اور نہ پاکستان کسی سے ڈرتا ہے ہم بھارت کو یہ بات یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مسائل ہیں جن کے حل کے لئے اقدامات اٹھانا وقت کی رورت ہے مسائل کو ایک طرف رکھتے ہوئے تجارت کو فروغ دینے باہمی اشتراک بڑھانے کی کارروائیاں تب تک بے معنی ہیں جب تک نہ مسائل کو حل کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ملک نہ صرف اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر بھروسہ کریں اور صورت حال کو اپنے حق میں بنانے کے لئے کارگر اقدامات اٹھائیں پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ پرامن طریقے سے ہر ایک مسئلے کو حل کیا جانا چاہئے تاکہ برصغیر میں رہنے والے کروڑوں لوگوں کو راحت مل سکے۔ پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھارت کے ساتھ دوستی و تجارت کی زیادہ ہی فکر پڑی ہوئی ہے وہ اپنی ہی پارٹی مسلم لیگ(ن) بلوچستان کے صدر کے بیان کو بھی دیکھ لیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی میں بھارت کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوچکی، افغانستان میں بھارت کے سات قونصل خانے اور تربیتی سنٹرز بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو ہر طرح کے وسائل فراہم کر رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ کشمیر پر اس نے غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے۔ پاکستانی دریاؤں کے پانی پر آبی جارحیت کا مرتکب ہورہاہے لیکن حکومت اور اس کے پروردہ بھارت سے تجارت کرنے کے لیے بے تاب نظر آتے ہیں۔ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور بھارت کے ساتھ نہ صرف تجارت بلکہ اس کے ساتھ سیاسی، سفارتی، خارجی تعلقات کو ختم کرنے کا اعلان کریں۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا۔بھارت نے امریکہ کی شہ پر افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کو میدان جنگ بنایا اور بہت فائدے اٹھائے ہیں۔وہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے مذموم منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔منظم منصوبہ بندی کے تحت بم دھماکے کر کے بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔اس وقت پاکستان انتہائی حساس حالات سے دوچار ہے۔ ہماری اسمبلیوں کے ان کیمرہ اجلاسوں میں واضح طور پر یہ بات تسلیم کی گئی ہے کہ پاکستان میں ہونے والے بم دھماکوں اور دہشت گردی کی وارداتوں میں انڈیا ملوث ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ باتیں چھپانے والی نہیں ہیں۔ یہ انسانوں کے خون کا مسئلہ ہے۔ انڈیا کی دہشت گردی کو دنیاپر واضح کرنا چاہیے۔ حکمران سبی بلوچستان اور اسلام آباد جیسے دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کروائیں تو ان سب کے پیچھے انہیں انڈیا کا ہی ہاتھ ملے گا۔ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت سے کسی قسم کی تجارت اور اسے پسندیدہ ترین ملک کا درجہ نہیں دیا جاناچاہیے‘ پہلے کشمیریوں کا ان کا حق ملنا چاہیے۔ کشمیر کو تقسیم نہیں کیاجاسکتا۔ انڈیا نے سلامتی کونسل میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا جو وعدہ کیا تھا اس کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کیا جائے پھر حکومت کو اس سے کسی قسم کی کوئی بات کرنی چاہیے۔ یہ بانی پاکستان محمد علی جناح اور لیاقت علی خاں کی پالیسی ہے۔ مسلم ملکوں کو بیرونی قوتوں کی غلامی سے نجات دلانے کیلئے جرأتمندانہ راستے اختیار کرنے ہوں گے۔ امت مسلمہ اسلام دشمن قوتوں کے مقابلہ کیلئے سیسہ پلائی دیوار بن کرکھڑی ہو جائے۔ عوام کا ہر طبقہ ملک و ملت کے دفاع کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ اغیار کی غلامی سے نکلے بغیر خطوں وملکوں کاتحفظ ممکن نہیں ہے۔بھارت آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ طاقت و قوت کے بل بوتے پر کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کچلنا چاہتا ہے لیکن وہ اپنے اس مذموم منصوبہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کشمیریوں کی قربانیوں نے بھارت کا غرور و تکبر خاک میں ملا دیا ہے۔ مظلوم کشمیریوں کو مکمل آزادی ملنے تک جنوبی ایشیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ۔

Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 176080 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.