انوکھی تباہی

ایک پرائمری اسکول ٹیچر نے کلاس کے بچوں کو کلاس ورک دیا کہ وہ ایک مضمون لکھیں کہ وہ (بچے) کیا چاہتے ہیں کہ ان کا خدا ان کے لیے کرے۔سب بچوں نے مضمون لکھا وہ تمام بچوں کے مضامین اپنے گھر پر چیک کرنے لگی اس دوران ایک مضمون نے اس کو آبدیدہ کردیا اور ’’بے اختیاری میں اس کے آنسو نکل آئے‘‘-

اس کا شوہر اس کے قریب ہی بیٹھا تھا اس کے آنسو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ کیا ہوا؟

ٹیچر بولی یہ مضمون پڑھیے یہ ایک بچے نے مضمون لکھا ہے

شوہر نے مضمون لیکر پڑھنا شروع کیا اس میں لکھا تھا ’’اے خدا آج میں آپ سے بہت خاص مانگتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے ٹیلی ویژن بنادے میں ٹی وی کی جگہ لینا چاہتا ہوں، ایسے ہی جینا چاہتا ہوں کہ جیسے میرے گھر میں موجود ٹی وی جی رہا ہے میں ٹی وی کی جگہ لیکر بہت خاص بن جاؤں گا میرے ماں باپ، میرے بہن بھائی سب میرے ہی گرد بیٹھے رہیں گے۔ جب میں ٹی وی کی طرح بول رہا ہونگا تو سب میری باتیں بڑی توجہ سے سن رہے ہونگے۔ میں تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز بنا رہوں گا اور بغیر رکے سب مجھے ہی دیکھتے سنتے رہیں گے کوئی مجھ سے سوال جواب نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی مجھے ڈانٹ ڈپٹ، مار پیٹ کرے گا۔ میں ایسی ہی خاص احتیاط کے ساتھ استعمال کیا جاؤں گا جیسے ٹی وی کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جاتی ہے جیسے جب ٹی وی خراب ہوجائے اس کا جتنا خیال کیا جاتا ہے اتنا ہی میرا خیال رکھا جائے گا میری ذرا سی خرابی سب کو پریشان کردے گی۔

میں اپنے ابو کی توجہ کا بھی ایسے ہی مرکز بن جاؤں گا جیسے میرے ابو ٹی وی کو دیتے ہیں کہ آفس سے آتے ہی ٹی وی کی طرف متوجہ رہتے ہیں چاہے ابو کتنے ہی تھکے ہوئے ہوں اسی طرح میں چاہتا ہوں کہ میری امی بھی میری طرف ایسے ہی متوجہ رہیں جیسے وہ ٹی وی کی طرف متوجہ رہتی ہیں چاہے وہ کتنی ہی پریشان اور غصے میں ہوں۔ چنانچہ بجائے مجھے نظر انداز کرنے کے وہ میری طرف متوجہ رہیں گی۔
اور میرے بھائی بہن بھی جو مجھ سے لڑتے اور جھگڑتے رہتے ہیں میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میرے اردگرد پھریں گے۔ میرے لیے امی ابو کی منتیں کریں گے اس طرح سب کے سب میری طرف متوجہ رہیں گے اور آخر میں سب سے بڑھ کر یہ کہ سب میری وجہ سے پریشانرہتے ہیں اور غصہ کرتے ہیں تو میرے ٹی وی بن جانے کے بعد میں ان سب کو ایسے ہی خوش و خرم رکھ سکوں گا جس طرح ٹی وی رکھتا ہے۔
اے خدا میں نے تجھ سے زیادہ نہیں مانگا بس یہ مانگا ہے کہ مجھے ٹی وی بنادے مجھے اس کی جگہ دے دے۔

ٹیچر کے شوہر نے افسوسناک انداز سے بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا ‘‘ اے خدایا کتنا مایوس بچہ ہے۔ بے چارے کے ساتھ کتنا برا ہوتا ہے اس کے گھر میں اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے۔
ٹیچر نے نظریں اٹھا کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ مضمون ‘‘ہمارے اپنے بچے‘‘ کا لکھا ہوا ہے.

ٹیلی ویژن آج کل ہردوسرے گھرمیں پایاجاتاہے ۔جس کی وجہ سے ایسے واقعات مختلف گھروں میں دیکھنے کوملتے ہیں کہ لوگ ٹی وی کوزیادہ اورانسانوں کوکم اہمیت ملتی ہے ۔جوکہ ایک انتہائی بری بات ہے جس کاخاتمہ ہوناچاہئے ۔

اب میں آتاہوں اصل بات پر کہ ٹیلی ویثزن سے ایک انوکھی تباہی بھی پھیل رہی ہے جس کی وجہ انڈین ڈرامے ہیں۔آج کل انڈین چینلزکے ڈرامے پورے پاکستان میں بہت زیادہ دیکھے جاتے ہیں حدتویہ ہے کے پاکستانی چینلزپربھی انڈین ڈرامے دکھائے جارہے ہیں جن کولوگ تفریح کا نام دیتے ہوئے خصوصی ٹائم نکال کردیکھتے ہیں لیکن تفریح کے نام پرانڈین کلچربہت ہی خوفناک طریقوں سے کے ذریعے گھرگھرپھیل رہا ہے ۔پڑوسی ملک پاکستانیوں کے بچوں اور خاندانوں کو اپنے ہر ڈرامے میں دس یا پندرہ منٹ کے بعد(نعوذبااﷲ) بتوں کا احترام اور پوجا سکھا رہا ہوتا ہے۔ اور معصوم بچوں کو اپنے عجیب و غریب دیوتاؤں کے قصے دکھا دکھا کر اپنے مذہب سے روشناس کرا رہا ہوتا ہے۔جوبہت زیادہ تشویش کی بات ہے۔اسکے علاوہ انڈین چینلزپرایسے ڈرامے چلائے جاتے ہیں جن میں فحاشی کاعنصرنمایاں ہوتاہے جوکہ نوجوان نسل کی گمراہی کاباعث بن رہے ہیں ایک اسلامی ملک میں توویسے بھی فحاشی کاایک ذرہ بھی داخل نہیں ہونے دیناچاہئیے ۔

میں مزیداس بارے میں بات کرکے انڈین چینلزکی ایڈورٹائزنگ نہیں کرناچاہوں گاکیونکہ میں ان کے بہت خلاف ہوں میرے خیال میں ان ڈراموں کی روک تھام کیلئے حکومتی سطح پر جلدازجلد اقدامات ہونے چاہئے ۔عوام کوبھی ایسے چینلزدیکھنے سے گریزکرناچاہئے جبکہ میڈیااورمختلف تنظیموں کوبھی ایسی برائیوں کی روک تھام کے لئے اپناکرداراداکرناچاہیے۔جوکہ دیمک کی طرح ٹیلی ویژن کے ذریعے ہرگھرمیں پھیل چکیں ہیں۔اورملک میں انوکھے طریقے سے تباہی وبربادی کاباعث بن رہی ہیں۔

Jamshaid Malik
About the Author: Jamshaid Malik Read More Articles by Jamshaid Malik: 43 Articles with 99317 views You Can Get More Info About Malik Jamshaid Azam With Face Book Page Link.

https://www.facebook.com/MalikJamshaidazamofficial
.. View More