کیا دنیا داری بھی مذہب ہے؟

ایک آدمی کو دیکھیں کہ غصہ کی شدت سے اس کے نتھنے پھولے ہوئے ہیں ،بھویں اُٹھی ہوئی ہیں اور کھڑے بھی ٹھیک سے نہیں ہو پا رہا آواز ایسی کانپ رہی ہے کہ اپنے لفظ بھی سمجھ میں نہیں آتے لیکن اچانک سے دروازے پر آواز سنائی دیتی ہے ،اتفاق سے دروازہ آدھا کھلا ہے،یہ آدمی دروازے پر کھڑے آدمی کی آواز کو نظر انداز بھی نہیں کر سکتا تو فورا سے دروازے پر جا کر علیک سلیک کرنے لگتا ہے اس کی آواز شہد کی سی میٹھی اور باڈی لینگویج مکمل تبدیل ہو چکی ہے، نہ تو اس نے لاحول پڑھی نہ ہی کوئی منتر ،مزاج میں ایسی خوشگوار تبدیلی کو آپ کیا کہیں گے جناب یہی دنیا داری ہے کوئی صاحب عقل اس سے انکار نہیں کر سکتا ،نہ ہی اس سے دامن بچا سکتا ہے؟

ہم اپنے ارد گرد انسانوں کو اپنے اپنے مذاہب پر کسی نہ کسی حد تک کاربند دیکھتے ہی ہیں۔ ہندو ہوں یا سکھ، عیسائی ہوں یا پھر مسلمان سب کے سب اپنے اپنے مذہب کے اراگ الاپتے نظر آتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ خود اپنے اپنے عقائد سے متعلق نہیں جانتے ہوتے ۔جن کے متعلق لڑنے مرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ لیکن ایک مذہب جس کو ہم انسانوں کا خود ایجاد کردہ کہہ سکتے ہیں سب کے سب اس پر متفق اور کاربند ہیں، ہندو ہوں یا پادری ،مجوسی ہوں یا نصرانی سب کے سب بغیر کسی تفریق کے اس مذہب کو اپنی زندگی کو رائج کیے ہوئے ہیں اور یہ مذہب ہے دنیا داری اس کے لیے مسلمان نمازوں کو ترک کرتے ہیں تو عیسائی چرچ کو، مفادات کے حصول کے لیے انسانوں میں سب کر گزرنے کا جذبہ حضرت آدم سے ملا ہے ،اُنہیں بھی جنت کے تمام آراموں کے باوجود وہ پا لینے کی خواہش تھی جو ان کے پاس نہیں تھا اور ابن آدم بھی اِسی بے چینی کے ساتھ تمام زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس دنیا داری کے چکر میں لوگوں کے بدلتے چہرے اور روپ انسان کی بہترین ادکاری دیکھنے کا موقع دیتے ہیں نہ صرف دیکھنے کا موقع دیتے ہیں بلکہ ہم خود بھی بہت اچھے اداکار ہوتے ہیں۔شکسپیر نے درست کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہم سب کتپتلیاں اپنا تماشا دیکھانے کے بعد ہم یہاں سے اُتر جاتے ہیں۔کچھ لوگ ایسے لوگوں کو منافق کہتے ہیں تو کچھ گرکٹ مگر بہت سے مواقع پر کہنے والے خود یہی کردار انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہم جب خود اس قسم کے فعل کو انجام دیتے ہیں تو اسے دنیا داری اور خوش اخلاقی کے زمرے میں شامل کرتے ہیں یا پھر یہ بہانہ لگاتے ہیں کہ جو نیا شخص آیا اس نے ہمارا موڈ اور حالت بدل دی لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہر انسان دوسروں کے سامنے اچھا بننے کی کچھ زیادہ ہی کوشش کرتا ہے جبکہ جو قریبی لوگ ہوتے ہیں،اُن کے سامنے اپنی اصلیت کو چھپانا ہمارے اختیار میں نہیں ہوتا تو ہم اصلی چہرا ہر کسی کو نہیں دیکھاتے ۔یہ ایسے ہی ہے کہ لوگ جب دوسروں کے گھر جاتے ہیں تو اچھے لباس زیب تن کرتے ہیں لیکن گھر میں کچھ بھی ایسا پہننے کو ترجیح دیتے ہیں جو ہمارے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو۔ ایسے میں سمجھ نہیں آتا کہ یہ عمل میں جھوت و منافقت ہے یا پھر دنیا داری اور خوش اسلوبی کی علامت۔

ہمارے ہاں شادی بیاہ کے لیے خصوصاً اور عام رشتہ داری میں عموماً اس قسم کے کردار ظاہر کیے جاتے ہیں کہ بعد میں حقیقت کھلنے پر زندگی عذاب بن جاتی ہے مگر پھر بھی یہی ہوتا ہے اور یہی ہو رہا ہے ،ہمارے ہاں کیا پوری دنیا میں عام گھروں سے لے کر ہمارے وزراوامرا بھی یہی کچھ کرتے ہیں ،ایک طرف تو دوستی اور اندر اندر سے دشمنی، پاکستان میں عام لوگ جب بات کرتے ہیں تو عموماً امریکہ سے متعلق اچھے خیالات نہیں پائے جاتے لیکن جب پہننے ،کھانے کی بات ہوتی ہے تو ہم لوگ گوروں سے زیادہ کسی کو قابل تقلید نہیں سمجھتے۔ انسانوں میں مذہب سے ذیادہ مفادات پرستی کا رحجان عام ہے خواہ وہ کسی خطے میں بھی ہوں،ایسے لوگ جن کا ظاہر اور باطن ایک ہو آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن یہاں مسلہ یہ ہے کہ ہر کوئی خود کو دودھ کا دُھلا اور دوسرے کو گندا سمجھ کر دل کو تقویت دیتا ہے تاکہ بے جینی سے بچ سکے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ کیا صیح ہے اور کیا غلط لیکن یہاں پر لوگ کرتے وہی ہیں جو کرنا انہیں پسند آتا ہے اور انہیں پسند وہی آتا ہے جو ان کی پسندیدہ کمیونٹی کر رہی ہو یہی وجہ ہے کہ پاکستانی لوگ انگلینڈ میں بھی جا کر پنجابی بولتے نظر آتے ہیں ، ان کے نزدیک یہ فخر کی بات ہے کہ اپنی زبان کو بول رہے ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اہم یہ نہیں کہ کس زبان میں بولا جا رہا ہے اہم تو یہ ہے کہ کیا بولا جا رہا ہے لیکن ہم لوگ چونکہ دنیا دار ہیں تو ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ ہماری کمیونٹی کیا کہے گی ،ہم نے اپنا آپ کیسے چھوڑ دیا۔کیا ہی افسوس کی بات ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود کہ کیا صیح ہے اور کیا غلط ہم کرتے وہی ہیں جو ہمارے ماں، پاپ نے کیا ہوتا ہے ،خواہ کتنی ہی اچھی کتابوں کے مصنف بن جائیں یا کتنا ہی اچھا بول کر لوگوں کو اپنی اچھائی سے متفق کر دیں لیکن جب ہم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو سوچنا لازمی چاہیے کہ یہ دنیا داری ہمیں صرف دنیا کا ہی تو نہیں کر کے چھوڑ دے گی ۔ یہ کس کی خوشی کے لیے ہم اپنی ذات کو طرح طرح کے رنگ دیتے ہیں۔ کیا صرف لوگوں کے لیے؟ اپنے نفس کی خوشی کے لیے؟ وجہ کچھ بھی ہو ، دُعا کیجیے کہ رب سمجھنے کی توفیق دے کہ سچ میں ہمارے عمل درست راستے کی طرف جاتے ہیں یا پھر محض راستے کی طرف جس کی کوئی منزل نہیں۔

kanwal naveed
About the Author: kanwal naveed Read More Articles by kanwal naveed: 3 Articles with 2646 views I'm married . I want to do something good for my country . Life is too short and I know what to do for it.Pray for me all my friends.I write on hamari.. View More