تحفظ پاکستان کا ڈریکولا

پاکستان میں باوا آدم نرالا ہے۔ ہم نے قانون اور آئین کی عملداری کی ایسی قسم کھا رکھی ہے کہ نہ سابق جنرل مشرف مقدموں سے بچ سکتا ہے اور نہ کوئی چھ ماہ کا دودھ پیتا بچہ ۔ مشرف کا تو پھر بھی کوئی والی وارث ہے لیکن چھ ماہ کے دودھ پیتے بچے کو اپنی ضمانت کروانے کے لیے عدالت میں پیش ہونا پڑا ہے، میں اس جج کا شکر گزار ہوں جس نے بچے کی ضمانت لے لی اور مچلکے پر اس کے انگوٹھے لگوالیے، لیکن میں اس نظام پر ہزار نفرین بھجتا ہوں جو صدر مملکت سے لے کر وزیر اعلی تک وزیر داخلا سے لے کر آئی جی پولیس تک اور چیف جسٹس سے لے کر ایک جوڈیشل مجسٹریٹ تک کو جو چھ ماہ کے دودھ پیتے بچے پر نقص امن کا جھوٹا بے بنیاد اور مضحکہ خیز پرچہ ختم کرانے کا اختیار تفویض نہیں کرتا۔ میں قانون کی الف بے سے واقف نہیں ہوں اس لیے میرا گمان غلط بھی ہو‎سکتا ہے، مگر بچے پر ایسا کیس سمجھ سے بالاتر ہے-

موجودہ حکومت نے قومی اسمبلی سے تحفظ پاکستان کا قانون بلڈوزکروالیا ہے یہ بنیادی انسانی حقوق کے سراسر منافی ہے۔ اس قانون کے تحت حکومت کے ایک معمولی اہل کار کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ کسی کو بھی بغیر وجہ بتائیں تین ماہ کے لیے بند کردے، اس عرصے میں کسی عدالت میں بھی اسکی شنوائی نہیں ہوسکتی۔ ہم نے جو تاریخ پڑھی ہے اس میں ایسے جابرانہ اور قاہرانہ اختیارات صرف ہلاکو اور چنگیز خان کے پاس تھے۔ وہ تو بغیر وجہ بتائے کسی کو بھی پار کرسکتے تھے، انکا دل چاہتا تھا تو وہ انسانی سروں کے مینار پر اپنا تخت سجا لیتے تھے-

ایک طرف ہم دہائی دے رہے ہیں کہ جمہوریت اور آئین کی بالادستی ہونی چائیے،دوسری طرف ہم سیاہ قانون لارہے ہیں۔ اس قانون کے تحت ایک ریپڈ فورس بھی کھڑی کی جائے گی جو لوگوں کو بغیر وجہ بتائے تین ماہ کے لیے بند کرنے کے لیے انکے گھروں دفتروں دکانوں اور فیکٹریوں پر اچانک چھاپے مار کر اٹھا سکے گی، جمہوری دور میں جنگل کا قانون نافذ کرنے کا جواز کیا ہے، صرف یہ کہ ملک اور قوم کو پچھلے بارہ برسوں سے دہشت گردی کا خطرہ لاحق ہے۔ مگر جن لوگوں کو اس دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے حکومت انکو رہا کررہی ہے، انکے پس پردہ لیڈروں سے مذاکرات کر رہی ہے، اگر دہشت گردی کی اس جنگ میں کوئی لا پتہ ہوچکا ہے تو ہماری عدالیتں ایسے افراد کی رہائی کے لیے فوج ایف سی رینجرز کے اعلی ترین افسروں کو بھی طلبی کے نوٹس جاری کررہی ہیں۔ تو کیا ایک بار ان لوگوں کو چھوڑنے کے بعد قانونی طور پر دوبارہ گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔ یہ مذاکرات نہ ہوئے صریح مذاق ہوا-

ہمارے کچھ دوست بہت رونا روتے ہیں کہ انہیں جنرل ضیاء الحق کے دور میں کوڑے پڑے۔ ایوب خان نے کچھ سیاستدانوں کو ایبڈو کیا، پرویز مشرف کے دور میں شریف برادران کو پکڑ دھکڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ زرداری نے بھی لمبی جیل کاٹی اور ڈاکٹر مجید نظامی سے مرد حر کا خطاب پایا یہ جو کچھ ہوا غلط ہوا یہ نہیں ہونا چائیے تھا مگر جس دور ستم کا تذکرہ گول کردیا جاتا ہے، وہ بد دیانتی کے مترادف ہے، ہمارے جمہوری حکمرانوں نے ڈکٹیٹروں کو بھی مات دے دی، ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا لبادہ اوڑھا اور پہلا وار آزادی صحافت پر کیا اور زیڈ اے سلہری کو فکس اپ کردیا گیا مختلف جرائد کے ڈیکلریشن بند کئے گئے، متبادل پرچہ چھاپنے کی کوشش کی جاتی تو پریس سیل کردیا جاتا، اسی دور میں آئین بنا یہ اسکا کریڈیٹ ہے لیکن ادھر آئین بنا اور ادھر بنیادی حقوق معطل کردیئے گئے، خصوصی ٹربیونل بنے دلائی کیمپ کو ٹارچر سیل میں تبدیل کیا گیا، میاں طفیل محمد جیسے بوڑھے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر انسانیت ہمیشہ شرماتی رہے گی ملک قاسم کی کمر دوہری کردی گئی کس کس کے نام لکھوں اور کس کس کے نہیں، شاہی قلعہ کے عقوبت خانے میں کس کس کے گھٹنوں میں میخیں ٹھونکی گئیں یہ سب جمہوریت کا کارنامہ ہے اور بھٹو کی جمہوری حکومت کو سارا کریڈیٹ جاتا ہے، اور دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ بھٹو کی بیٹی جب اقتدار میں آئی تو انکی اندھی اور بائولی فورس نے میاں شریف جیسے شریف النفس کو دفتر سے گھسیٹ کر جیپ میں ڈالا اور میاں نواز شریف کے دور کو بھی یاد کیجئے جب حسین حقانی کی کمر کی چھترول کرکے چمڑی ادھیڑنے کی کوشش کی گئی اور نجم سیٹھی کو رات کے اندھیرے میں بیڈ روم سے اٹھایا گیا۔

امریکہ میں یہ تجربہ ہوچکا امریکی عوام بھی امریکی چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں ہر کسی کا فون کمپیوٹر بھی امریکی نگرانی میں ہے اور اگر ہماری حکومت ڈریکولا قانون لانے میں کامیاب ہوگئ تو میں دیکھوں گا کہ ہمارے منچلے حمزہ شہباز اور بلاول بھٹو فیس بک پر کیسے فقرے کس سکتے ہیں-

عوام کو نہ آمریت کے معنی آتے ہیں اور نہ جمہوریت کے انہیں روزی روٹی کی قکر لاحق رہتی ہے جس میں کوئی پٹواری کوئی تھانے دار محرر کوئی وڈیرا، کھنڈت ڈال دیتا ہے، وہ تو پیدا ہوتے ہی اس ڈریکولا نظام کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اوپر سے تحفظ پاکستان کے نام پر کالا قانون بھاگو ،دوڑو، بچاؤ-

mohsin noor
About the Author: mohsin noor Read More Articles by mohsin noor: 273 Articles with 243976 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.