مدرسہ اصلاحات اور اسلامی نظریاتی کونسل کا قضیہ

قومی اسمبلی میں گزشتہ دنوں منظور ہونے والی ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر کے دینی مدارس کے نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے جس پر عمل کیا جائے گا۔ قرارداد میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ اصلاحات کی نوعیت کیا ہو گی؟ لیکن یہ سبھی جانتے ہیں کہ اصلاحات سے مراد کیا ہے……؟ پاکستان کے مدارس کے بارے میں عرصہ دراز سے دنیا بھر میں یہ پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں سے مذہبی انتہا پسندی پروان چڑھتی ہے جس سے امریکہ، بھارت سمیت ساری دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کے خلاف سب سے زیادہ پراپیگنڈہ امریکہ اور اس کے حواری ممالک کی جانب سے کیا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کو قرارداد منظور کرنے سے پہلے اصلاحات کے بارے میں کھل کر بتانا چاہئے تھا کہ ان کی نوعیت کیا ہو گی؟ اگر ان کی مراد وہی ہے جو ہمارے ہاں نام نہاد روشن خیال طبقہ جسے سیکولر (لادین) کہا جاتا ہے کے خیالات ہیں تو اسے بھی واضح کیا جانا چاہئے اور اگر اس سے مراد وہ اصلاحات ہیں جن کا اظہار چند ہفتے پہلے حکومتی ایوانوں میں ہوا کہ اصلاحات کے ذریعے مدارس کا نصاب تبدیل کر کے اس میں جدید علوم کو شامل کیا جائے گا اوران کا آڈٹ بھی ہو گا اس کا بھی کھل کر اعلان ہونا چاہئے۔

یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہونی چاہئے کہ پاکستان کے دینی مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو جدید عصری تعلیم کی سہولت بھی بہم پہنچائی جاتی ہے۔ ملک بھر کے تعلیمی بورڈز کے امتحانات میں بہت سی نمایاں پوزیشنیں بھی یہی طلبا حاصل کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر مدارس میں جدید ترین سائنسز و کمپیوٹر لیبارٹریاں بھی قائم ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر یہ بات کہ دینی مدارس میں داخلہ ہی ان طلباء کو ملتا ہے جو جدید عصری تعلیمی اداروں سے کم از کم میٹرک تک تعلیم پہلے ہی حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والے طلباء کبھی حکومت یا معاشرے کے لئے بوجھ نہیں بنے۔ یہاں سے نکلنے والے طلباء کی ہمیشہ معاشرے میں ضرورت اور کھپت پہلے سے زیادہ ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نکلنے والے طلباء نے حکومتوں سے بھی کبھی نہیں کہا کہ انہیں نوکریاں دی جائیں۔ اس لئے تو نام نہاد روشن خیال لوگوں کی اس فکر پر ہنسی آتی ہے جو یہ کہتے، لکھتے، پھرتے ہیں کہ مدارس کے طلباء معاشرے کا مفید حصہ نہیں بن سکتے اس لئے انہیں بھی اگر جدید علوم و فنون سے روشناس کروایا جائے تو وہ ہمارے معاشرے کا مفید و معاون حصہ بن جائیں گے۔ حالانکہ اگر انہی لوگوں سے پوچھا جائے کہ ہماری جدید یونیورسٹیوں اور کالجوں سے جو ہر سال لاکھوں طلباء اعلیٰ ڈگریاں لے کر نکل رہے ہیں، کیا آپ نے ان سب کو روزگار مہیا کر کے ملک و معاشرے کا مفید شہری بنا دیا ہے؟ تو ان کے پاس کبھی کوئی جواب نہیں ہوتا۔ ہماری حکومتیں تو خود اپنی یونیورسٹیوں کو یہ حکم نامہ جاری کرتی ہیں کہ طلباء کی بڑی تعداد کو جان بوجھ کر فیل کیا جائے تاکہ وہ نوکریوں کا مطالبہ ہی نہ کر سکیں۔ اس کے باوجود ہر سال یونیورسٹیوں سے اعلیٰ ڈگریاں لے کر فارغ ہونے والے یہ لاکھوں طلباء معاشرے پر بوجھ بڑھاتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ چند ہزار کی چھوٹی موٹی نوکری جس کے لئے چند سال پہلے میٹرک پاس مشکل سے ملتا تھا، اب اس کے حصول کے لئے ماسٹر ڈگری ہولڈر اور ڈاکٹرز تک ہزاروں کی تعداد میں قطاروں میں کھڑے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں۔ مدارس کے طلباء کو معاشرے کا مفید حصہ بنانے کی سوچ رکھنے والوں سے اولین گزارش یہ ہے کہ وہ پہلے ان سب کو مفید شہری بنالیں اور پھر آگے کا سوچیں۔ یہ نوجوان ہماری قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں جو یہاں بھوک و افلاس کے مارے بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں۔ وہاں ذلت اٹھاتے ہیں، بے شمار موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو بہت سے خودکشیوں پر اتر آتے ہیں۔ ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ جس کے حل کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔

یہاں دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اگر اصلاحات کرنا ہی ہیں تو پہلے جدید عصری تعلیمی اداروں میں کی جائیں جہاں سے نکلنے والے اعلیٰ دماغ اور ڈگری ہولڈرز مسلمان ہونے اور اسلامی نام رکھنے کے باوجود اسلام کی الف بے سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کا پانچ سال تک وزیر داخلہ رہنے والا بسم اﷲ نہیں پڑھ سکتا اور دنیا کے 5 ویں ذہین ترین انسان کو سورہ اخلاص بھی یاد نہیں۔ یہ تو محض مثالیں ہیں ورنہ حالات اس سے سنگین تر ہیں۔ آئین پاکستان کی عزت و پاسداری کا خیال کرنے والوں کو آئین کی وہ شقیں عملی طور بھی پڑھنی چاہئیں کہ جن میں لکھا ہوا ہے کہ حکومت ہر شہری کو دین کی بنیادی تعلیم دینے کی پابند ہے جو سرے سے نہیں ہو رہا۔ لیکن اس امر کو کوئی آئین کی خلاف ورزی یا قانون شکنی قرار نہیں دیتا۔

مدارس کے نظام میں مداخلت کرنے اور ان کی اصلاحات کا سوچنے والوں کے لئے کرنے کے اور بھی بہت سے کام ہیں جنہیں اگر وہ کرنا شروع کر دیں تو یہ ان کا ملک و ملت پر احسان ہو گا۔ اس لئے گزارش ہے مدارس کا نام لے کر اصلاحات اور نصاب کا نام لے کر نظام میں مداخلت کا خیال دل سے نکال ہی دیں تو بہتر ہے۔ قوم کو مزید الجھانے اور مسائل بڑھانے کے علاوہ اس سے کچھ نہیں ملے گا۔

اسی دورران میں سندھ اسمبلی میں گزشتہ ہفتے ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ ملک کے آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل کو تحلیل کر دیا جائے کیونکہ یہ ادارہ اپنا کام صحیح انجام نہیں دے سکا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ کونسل کی وہ حالیہ سفارشات ہیں جن میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ ’’آئین میں درج یہ شرط کہ مرد دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت کا پابند ہے، غیر اسلامی ہے جسے ختم ہونا چاہئے‘‘۔ اس پر کافی لے دے جاری ہے کہ اس سفارش کی کیا ضرورت تھی؟ وغیرہ وغیرہ۔پہلی حیرانی اس بات پر ہے کہ سندھ اسمبلی جس میں بھاری اکثریت حکمران پیپلزپارٹی کی ہے اس نے اسلامی نظریاتی کونسل میں موجود اپنے 5 ارکان سے استعفی کیوں نہیں لئے؟ انہیں یہ قرارداد استعفے لینے کے بعد منظور کرنی چاہئے تھی۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل اپنے قیام سے لے کر آج تک 700 سے زائد سفارشات بھیج چکی ہے کہ ان کے مطابق ملکی آئین و قوانین کو اسلامی بنایا جائے جس کا وعدہ آئین میں لکھا ہوا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی 700 سے زائد سفارشات پر آج تک کبھی کسی اسمبلی نے عملدرآمد نہیں کیا حالانکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے اور اسے قائم ہی اسی لئے کیا گیا تھا کہ یہ ملکی قوانین میں موجود غیراسلامی قوانین کی نشاندہی کر کے انہیں ختم کروائے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں تمام مسالک کے علماء موجود ہیں جو متفقہ طور پر رائے دیتے ہیں۔ اگر ان کی اسلامی رائے اور سوچ کسی کو پسند نہیں تو اسے چاہئے کہ وہ خود کو اسلامی نظریاتی کونسل کا نام لے کر شریعت اسلامی پر رقیق حملے کرنے کے بجائے اپنے بارے اور اپنے خیالات کے بارے کھل کر بات کرے۔اسلامی نظریاتی کونسل نے چند ماہ پہلے قرار دیا تھا کہ 2006ء میں قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے ’’حقوق ایکٹ‘‘ کی تین اہم شقیں غیراسلامی ہیں، اس پر سارے علماء و مسالک پہلے بھی متفق تھے لیکن اسے قومی اسمبلی، سینٹ سے منظور کروا کر ملکی قانون کا حصہ بنا دیا گیا۔ اتنا بڑا جرم اور اگر اس کی نشاندہی کونسل کرے تو وہ مجرم کیسے ٹھہر گئی؟ اس ایکٹ کے خلاف تو جماعۃ الدعوۃ نے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی دستخطی مہم بھی چلائی تھی جس میں ایک کروڑ پندرہ لاکھ سے زائدعوا م و خواص سبھی نے دستخط کئے تھے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں ڈی این اے کو کسی جرم میں حتمی شہادت مان کر اس پر فیصلہ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ایسا قانون کسی ملک میں موجود ہے۔یہی بات کونسل نے کہی تو ہمارے اسلام بے زار طبقے نے اس پر چڑھائی کر دی کہ انہیں جدید علوم سے واقفیت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ کونسل کا نام لے کر اسلامی شریعت کا مذاق اڑانے اور اس پر حملے بند ہونے چاہئیں۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.