تعلیم کے مقاصد

تعلیم کی لغوی تحقیق:
لفظ تعلیم عربی لفظ’’علم‘‘سے مشتق ہے۔علم کے معنی ہے جاننا،آگاہی حاصل کرنا،واقفیت،شعور یاباطنی روشنی۔EDUCATIONلاطینی زبان کالفظ ہے جس کے معنی نشوونما کرنا،تربیت اورپرورش کرنا ہے۔

تعلیم کی اصطلاحی تعریف:

تعلیم سے مراد نئی نسلوں تک معاشرتی اقدار،ادب اورثقافت کی منتقلی ہے۔

شریعت میں تعلیم کی تعریف:
اصطلاحِ شرع میں حق تعالیٰ کی ذات وصفات کو جاننا،اوریہ کہ الٰہ ارض وسماء انسان سے کیسی زندگی چاہتاہے،کوتعلیم کہتے ہیں۔

عرف میں تعلیم کی تعریف:
تعلیم سے مراد ایسا نظام وضع کرنا ہے جس کے ذریعے آنے والی نسلوں کی تربیت اس طورپرکرناکہ وہ ملک کی تمام ضروریات کوخواہ وہ معاشی ہوں یاسیاسی،علمی ہوں یادفاعی،پوری کرسکیں۔(۳)

مسلم مفکرینِ تعلیم کی آراء:
۱:امام غزالی ؒکے ہاں تعلیم،انسانی معاشرے کے بالغ ارکان کی وہ جدوجہدہے جو آنے والی نسلوں کی نشونمااورتشکیل زندگی کے نصب العین کے مطابق ہو۔
۲:علامہ اقبال ؒکے ہاں تعلیم ایک ایساعمل ہے جودین کی روشنی میں انسان کی طبعی قوتوں کی نشوونماہے۔
۳:ابنِ خلدون ؒکہتے ہیں کہ تعلیم غوروفکرکے ذریعہ انسان کوحقائق سے روشناس کراناہے۔

قدیم مفکرین ِ تعلیم کی آراء:
۱:سقراط کے ہاں تعلیم سچائی کے تلاش میں مدددینے کانام ہے۔
۲:ارسطو کے ہاں تعلیم بچے کی یاداشت ،عادات اورخیالات کے ساتھ ساتھ اس کی عقلی اوراخلاقی نشوونما کاعمل ہے۔
۳:افلاطون تعلیم کومعاشرے کے متوازن تنظیم کاعمل قراردیتاہے۔

جدید مفکرینِ تعلیم کی آراء:
۱:لوزی کے نزدیک تعلیم ،انسان کوپوشیدہ قوتوں کی قدرتی مربوط اور تدریجی نشوونماکانام ہے۔
۲:روسو کے نزدیک تعلیم، فطری ماحول میں فردکی انفرادیت کی نشوونما کامنبع ہے۔
۳:جان ڈیوی نے تعلیم کی تعریف یوں کی ہے،کہ تعلیم تجربہ کی اس تعمیرِنو کانام ہے،جس سے اس کے معنیٰ میں اضافہ ہوجاتاہے اورجس کی بدولت بعدمیں یقین آنے والے تجربہ کارخ متعین کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

اسلام میں تعلیم کی اہمیت:
قرآن حکیم نے علم کی بہت اہمیت بیان کی ہے چنانچہ وحی کی ابتداء اقرأباسم ربک الذی خلق سے ہوئی۔اس سے اسلا م میں علم کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے،اہل علم کی فضیلت میں فرمایا قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون۔

دوسری جگہ فرمایا،’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوامنکم والذین اوتواالعلم درجٰت‘‘۔
یہاں تک کہ علم میں اضافہ کے لئے آپﷺ کودعا بھی تلقین فرمایا،’’قل رب زدنی علماً‘‘۔
رسول اﷲ ﷺ نے احادیث کے ذریعے علم کی اہمیت بیان فرمائی،’’ طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘۔
آپﷺنے یہ بھی فرمایا،’’ انمابعثت معلما‘‘۔ً

برصغیر پاک وہند کے نظام ِ تعلیم پرایک طائرانہ نظر:
انگریزوں کے آنے سے پہلے برصغیر میں اعلیٰ نظام تعلیم تھا۔1857؁ء کی جنگ آزادی کے بعد جس طرح انگریزوں نے مسلمانوں کوسیاسی،مذہبی اورمعاشی طور پردیوالیہ بنایا۔اسی طرح نظام تعلیم کو بھی جام کردیا۔مسلمان زعماء کافی سوچ وبچارکے بعد اس نتیجہ پرپہنچے کہ تعلیمی ترقی کے علاوہ مسلمانوں کے لئے بچاؤکاکوئی راستہ نہیں۔بعض نے دینی مدارس کی توجہ دلائی کہ آپﷺنے فرمایاہے کہ قرآن اورمیری سنت کومیں تم میں چھوڑے جارہاہوں،ان کوتھامو۔لہٰذادارالعلوم دیوبندکاقیام کیاگیا۔بعض نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دی کہ لوہا لوہے کوکاٹتاہے،جس کے نتیجے میں علی گڑھ معرض وجودمیں آیا۔العرض مسلمانوں میں قسم کے علم رائج ہوئے۔ایک خالص دینی اوردوسری خالص دنیاوی۔جس کے نتیجے میں بُعدالمشرقین کااختلاف ہوا۔ 1920؁ء میں تحریکِ خلافت نے دونوں فریقین کوایک پلیٹ فارم پرجمع کیااوراس طرح دونوں کے مابین کچھ نہ کچھ رابطہ قائم رہا۔اسی ربط کی برکت سے چار تعلیمی ادارے وجود میں آئے ۔جو اس وقت مسلمانوں کے تعلیمی مراکزسمجھے جاتے تھے۔
۱۔دارالعلوم دیوبند ۲۔ندوۃ العلماء لکھنؤ ۳۔مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ۴۔جامعہ ملیہ

ایک بڑی غلط فہمی:
انگریزوں کے رائج کردہ تعلیم سے مقصود یہ تھاکہ کلرک پیداہوں اوروہی ہوا۔لیکن انگریزوں کی ذلت آمیز واپسی کے بعدیہاں کے طلباء کاذہن یہ بناکہ معاش کوسنوارنے کے لئے تعلیم حاصل کرو۔اس غلط فہمی سے ساراتعلیمی ڈھانچہ کھوکھلاہوا۔ہمارے ملک اوردیگرممالک کے طلباء کے نظریہ میں فرق یہ ہے کہ وہاں ایک بچہ اس ذہن سے پڑھتاہے کہ میں مستقبل میں ایک بڑی شخصیت بنوں گااورہمارے ہاں بدقسمتی سے ذہن یہ بن جاتاہے کہ پیسہ کیسے کماؤں گا؟سو اس نظام تعلیم نے ملک کے نظریاتی ،قلبی اورعملی خیرخواہ کم اوروطن وقوم کولوٹنے والے افرادزیادہ پیداکئے۔

پاکستان میں تعلیمی مقاصد پرایک طائرانہ نظر:
پاکستان جس طرح معاشرتی اورمعاشی مسائل سے دوچارہے،اسی طرح تعلیمی میدان میں بھی گھٹنے کے بل جارہاہے ،جبکہ سری لنکا،بنگلہ دیش،بھارت اب اس میدان میں خرگوش کی رفتارچل رہے ہیں ،جس کااندازہ شرح خواندگی سے لگایاجاسکتاہے اورکسی ملک کی ترقی کامعیار بھی یہی شرح خواندگی ہے۔1998؁ءمیں شرح خواندگی 45فیصد اور2004؁ءمیں 54فیصد تھی ۔سکولوں کی موجودہ تعداددولاکھ ہے،جبکہ ماہرین کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے آئندہ سال تقریباًچارلاکھ کرنی ہوگی۔واضح رہے کہ وطن عزیز پاکستان میں دس فیصد بچے سکول میں داخل ہی نہیں ہوتے ،جبکہ چالیس فیصد بچے پرائمری اورمڈل کی تعلیم مکمل کرکے ثانوی سطح تک تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔جہاں تک سکولوں میں شرح شمولیت کاتعلق ہے،تو ذیل کے جدول اس صورت حال کوواضح کرتی ہے؛
سطح --- مجموعی شرح میں شمولیت فی صد --- لڑکوں کی شرحِ شمولیت فی صد ---- لڑکیوں کی شرحِ شمولیت فی صد
پرائمری         85                                                98                                                76
مڈل               59                                                60                                                49
ثانوی            40                                                47                                                34

'مقاصد کی درجہ بندی:
تعلیم کاکوئی بھی مقصد تعین کیاجائے ،اس کے تین نمایاں درجے یاپہلو(DOMAINS)ہوتے ہیں،جن کومجموعی طورپرBLOOMSنام سے یادرکھاجاتاہے۔
٭وقوفی درجہ(Cognitive Domains) ٭استحسانی درجہ(Affective Domains) ٭مہارتی درجہ(Pyschomolor Domains)
پہلے درجہ کے مقاصد کاتعلق طلباء کے سوچ ،سمجھ،ذہانت اورمعلومات سے ہے،یعنی وہ اپنے سوچنے سمجھنے کے قوتوں کواستعمال کرکے اس درجہ کے مقاصد کوحاصل کرلیتے ہیں۔ہمارے ہاں رائج نصابی کتب اس قسم کے مواد سے بھری پڑی ہیں ۔دوسرے درجہ کے مقاصد کاتعلق طلباء کے حسی اورجمالی قوتوں سے ہے ۔ان کی مددسے وہ کسی چیز کی خوبی یاخامی اورخوبصورتی وبدصورتی کاادراک حاصل ہوتاہے۔تیسرے درجہ کے مقاصدکاتعلق طلباء کے طبعی افعال سے ہے،یعنی کسی چیزکی تصویربنانا،ماڈل بنانا اوررازوں کااستعمال وغیرہ جن میں ان کی طبعی قوتوں مثلاًہاتھوں اوران کے انگلیوں وغیرہ کی حرکت کاتعلق ہوتاہے۔

مقاصدعامہ کی درجہ بندی:
ایسے مقاصدکوبھی تین درجوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے؛

معلوماتی:
(۱)ماضی اورحال کے اہم واقعات کے مطابق معلومات حاصل کرنااورپھراس کے اسباب ونتائج معلوم کرکے معاشرہ میں حسب ضرورت اپنے معاملات میں اس سے کام لینا۔(۲)معاشرتی ،اقتصادی اورجغرافیائی عوامل کاشعورپیداکرنااورانسانی زندگی پراس کے مرتب ہونے والے اثرات کوسمجھنااورانہیں اپنی ذات اورمعاشرے کی بہبود میں لانااوراس کے قابل بنانا۔(۳)مذہبی اورمعاشرتی اقدارکی معلومات مہیاکرنااوران کے اثرات کوسمجھنااورپھران کے اقدارکواپناکرایک اچھامسلمان اورشہری بننے کی کوشش کرنا۔

مہارتی:
(۱)طالب علم اپنے ماحول اورمعاشرے کوسمجھے ۔اس سے واقفیت پیداکرے۔اس واقفیت کواپنی روزمرہ زندگی میں بوقت ضرورت استعمال کرنے کی اہلیت پیداکرے۔(۲)خاندان،معاشرہ،مدرسہ،ملک اوردنیاکارکن ہونے کی حیثیت سے حقوق وفرائض پہچاننااورانہیں اداکرنے کے قابل بنانا۔

تحسینی:
(۱)اپنے والدین ،بزرگوں ،اساتذہ اورمعاشرے کی جملہ لوگوں کی عزت کرنااوران کے ساتھ شائستگی سے پیش آنا۔(۲)ماضی کے تجربات اورتاریخی حقائق کے روشنی میں فہم وادراک اورعقل مندی سے کرنا۔(۳)اپنے شاندارماضی پرنظررکھنا۔اپنے قومی اورثقافتی ورثہ سے محبت کرنااوراس پرفخرمحسوس کرنا۔

تعلیم کے مقاصد(Objectives of Education):
سب سے پہلے انسان جہالت کے اندھیرں سے نکل کرعلم وعرفان کے روشن اورسیدھے راہ پرگامزن ہو۔یہ علم وعرفان سب سے پہلے انسان کی اپنی ذات کی تکمیل کرے۔اس میں بلند اخلاق واوصاف پیداکرے اوراس کو ایسے بلند کردارکاحامل انسان بنائے،جودوسروں کے لئے خضرراہ ہو۔یہ علم صرف علم نہ رہے بلکہ عمل بن کراس کے اعضاء وجوارح سے ظاہر ہو۔یہ علم انسان کو خدا اور اور رسولﷺ کا عاشق، شیدائی، دین اورملک وقوم کامخلص بنائے۔وہ خداکی صفت وہو یطعم ولایطعم کامظہراورانسانوں کاضمیرخواہ ہو۔اس سے کسی کی پریشانی ورسوائی نہ دیکھی جاتی ہو۔قوم کے پیسہ کوامانت سمجھ کراس کی حفاظت کرتاہو۔لہوولعب اوراسراف وتبذیرسے مجتنب ہو۔

غایاتِ تعلیم(Goals of Education):
یہ کسی قومی تعلمی پالیسی کے راہنمااصول ہوتے ہیں۔یہ غایات نوعی یامخصوص نہیں ہیں بلکہ ان کااطلاق تعلیم کے کسی ایک سیکٹرپرنہیں ہوتابلکہ ان کااطلاق پورے تعلیمی نظام پرہوتاہے جوکہ دوقسم پرہے؛

مروجہ رسمی تعلیم(Formal Education):
وہ ہے جوآج کل تعلیمی اداروں میں رائج ہے جیسے جدیدسائنسی علوم وفنون،ٹیکنالوجی وغیرہا۔

غیررسمی تعلیم(Non-formal Education):
وہ ہے جوپہلے شامل نصاب رہالیکن اب ضرورت نہ ہونے کی وجہ سے خارج ازنصاب کردیاجائے جیسے فلسفہ یونان،طب وغیرہ۔

یہ نظام تعلیم کے لئے عمومی رہنمائی مہیاکرتاہو۔یہ معاشرتی اورنظریاتی خصوصیات کے حامل ہیں اورپورے نظام تعلیم کے لئے مجموعی طورپرراہ متعین کرتے ہیں۔

حرفِ آخر:
افسوس صدافسوس کہ آج تک ہم ان مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوئے۔تعلیمی مقاصد کومدنظررکھتے ہوئے ان میں کامیابی توکیااب توہم اپنی بقاکاسوچ رہے ہیں ۔بدقسمتی سے ہم سے بعد میں آزادہونے والے ممالک نے ایک مثالی نظام تعلیم وضع کیااوران میں کامیاب بھی ہوئے۔مثلاًچین اورسری لنکاکوہی دیکھئے،جبکہ ہمارانظام ِ تعلیم۱۹۴۷؁ءسے اب تک وہی ہے۔

میراخیال یہ ہے کہ ایک ایسی مثالی نظام تعلیم وضع کیاجاوے۔جس میں دینی ودنیوی دونوں علوم کاامتزاج ہو،جدیدسائنسی علوم وفنون بھی داخل نصاب ہوں۔جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں ایسے رجال کاربیداہوں۔جودنیا کے تمام تعلیمی،سیاسی اورمعاشی میدانوں میں چیلنچز کاڈٹ مقابلہ کرسکیں۔
نہ ہونومید،نومیدی زوالِ علم وعرفان ہے امیدمردمومن ہے خدارازدانوں میں
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریاپرمقیم پہلے ویساکوئی پیداتوکرے قلبِ سلیم
Muhammad Younus
About the Author: Muhammad Younus Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.