ابھی بھی وقت ہے !

چوہدری اسلم بعد مدت کے اپنے دوست بھولے سے ملا تو خوشی سے دیوانہ ہو گیا۔ حال احوال ہوا۔ماضی کی کچھ خوشگوار یادیں تازہ ہوئیں اور بات حال تک آپہنچی۔بچے کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔چوہدری نے بتایا۔بڑابیٹا امریکہ سے پڑھ کے آیا ہے۔آجکل اسلام آباد کی ایک بڑی کمپنی کا انچارج ہے۔ اس سے چھوٹے نے بھی امریکہ سے ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے اور اب ریلوے ہسپتال کا انچارج ہے اور پرائیویٹ پریکٹس بھی کرتا ہے۔اور تیسرا جو سب سے چھوٹا تھا؟ بھولے نے سوال کیا۔چوہدری نے اس کے جواب میں ایک لمبی آہ بھری اور کہنے لگا بس اسی کی وجہ سے پریشان ہوں۔کیوں کیا ہوا۔ بھولے نے بھی اس کی پریشانی پہ پریشان ہو کے سوال کیا۔خدا نخواستہ کہیں کوئی بیماری وغیرہ۔ نہیں نہیں ایسی بات نہیں۔اس نے شہر میں نائیوں کی دکان کھول لی ہے اور خاندان کا نام ڈبو رہا ہے۔بھولا جو پہلے ہی نسلی اور نسبی تحفظ کا مارا ہوا ہے فوراََ بولا تو تم اسے عاق کیوں نہیں کر دیتے۔چوہدری نے جواب میں ایک ٹھنڈی ٹھار قسم کی آپ بھری اور کہنے لگا یہی تو میں کر نہیں سکتا۔آخر کیوں؟ بھولے کا استفسار کیا۔اس لئے کہ گھر کا خرچہ وہی چلاتا ہے۔ڈاکٹر اور انجئینر کی وجہ سے عزت تو بہت ہے لیکن وہ نالائق تو اپنا گھر نہیں چلا سکتے مجھے کیسے سنبھالیں گے۔

اس قصے کا تعلق موجودہ حکومت اور اس کے دو وزیروں اور فوج سے ہرگز نہیں۔ میں ہمیشہ سے لکھتا آیا ہوں کہ ملک کی بہتری کے لئے فوج کو جمہوری حکومت کے اس کی اصل روح کے ساتھ ماتحت ہونا چاہئیے۔ایک ایسی جمہوری حکومت کو عوام کی منتخب کردہ ہو۔ جس کی ٹیوب میں کہیں کوئی پنگچر نہ ہو۔ جس کا سربراہ نہ تو پاگل ہو اور نہ ہی بنکوں کا نادہندہ۔ جس کے غیر قانونی اثاثے ملک سے باہر نہ ہوں۔ جس کا وزیر خزانہ اور سپیکر اپنے اپنے بیٹوں کو جو خود ارب پتی ہوں انہیں قرض حسنہ نہ دیتے ہوں۔جس کے ایم پی اے اور ایم این اے غریبوں کی زمینوں پہ قبضے نہ کرتے ہوں۔ جو بھتہ خوروں اور منشیات فروشوں کے سر پرست نہ ہوں۔جنہیں واقعی عوام نے چنا ہو۔فوج کی مجال ہے جو ایسی جائز عوامی حکومت کے زیر اثر اور اس کے کنٹرول میں نہ ہو۔ فوج بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے۔آٹھ نو لاکھ فوج بیس کروڑ کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی۔عوام لیکن جانتی ہے کہ اقتدار کے یہ بھوکے انتہاء کے جھوٹے ہیں۔انہیں ملک سے نہیں اپنی دولت اپنے مفادات اور اپنے اقتدار سے پیار ہے اور ان کا بس چلے تو یہ ملک کو بھی اونے پونے بیچ دیں۔فوج سے بھی عوام کو تحفظات ہیں کہ وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہیں کرتی اور اس قبیل کے لٹیروں کو ملک کی زمام تھما دیتی ہے جو پنگچر لگا کے حکومتوں کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔

جب جنرل اشفاق پرویز کیانی ریٹائر ہوئے اور جنرل راحیل شریف نے فوج کی کمان سنبھالی تو میں نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ جنرل انتہاء کے صابر شخص ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھنے والے۔انہیں غصہ بہت کم آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو پھر کچھ وقت کے لئے مقابل کے ساتھ جو ہوتی ہے ،وہی جانتا ہے۔جنرل کی تعیناتی کے وقت یار لوگ نے یہاں تک کہا کہ جنرل بھی شریف ہیں اور نون غنے بھی شریف۔یہ ایک طرح سے شریف فیملی ہی کی ایکسٹینشن ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تو کل ہی یہ بات کہی ہے کہ آرمی چیف کے بیان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ تو شریفوں کا اپنا بندہ ہے۔اس تائثر اور اس ماحول میں اگر جنرل کو اس حکومت سے شکایت پیدا ہوئی اور اتنی کہ وہ میڈیا کی زینت بنی تو میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ انہوں نے فوج کو کس حد تک زچ کیا ہوگا۔ خواجہ آصف تو خیر سوائے میں میں کے ابھی تک کوئی خاص تیر نیں مار سکے لیکن خواجہ سعد رفیق کی جذباتیت بھی کچھ حد سے سوا ہے۔

فوج سے آپ کیا نہیں کرواتے۔ قدرتی آفات سے لے کے بھل صفائی اور میٹر ریڈنگ تک آپ اس سے کروا چکے۔ اسے آپ پولیس کی جگہ بھی استعمال کرتے ہیں۔حزب اختلاف کو ڈرانے کے لئے بھی آپ فوج کا کندھا استعمال کرتے ہیں اور اس کے بعد بجائے اس کے کہ آپ شخصیات اور اداروں کے درمیان تفریق کریں آپ روندی یاراں نوں لے لے ناں بھراواں دا کے مصداق فوج کے خلاف تبرہ بازی بھی کرینگے تو صبر کا جام ہے چھلکے گا ضرور۔جام چھلکے گا تو پنگچر بھی کھلیں گے اور ایک آدھ پنگچر بھی کھل کیا تو لمحوں میں ساری ہوا نکل جائے گی۔پھر خواجے گواہی کے لئے ڈڈو ڈھونڈتے پھریں گے اور رہے گا نام اﷲ کا۔اپنی اوقات ے بڑھ کے جمہوریت کے چمپئین نہ بنیں اور اتنا ہی زبان کو دراز کریں جتنا اس کا مینڈیٹ ہے۔اس ملک میں جمہوریت کا نوزائیدہ پودا بڑی مشکل سے جڑ پکڑ رہا ہے۔شوق تقریر کہیں اس کی جڑوں ہی کو نہ خشک کر دے۔ اپنی اخلاقی اساس بہتر بنائیں۔عوام کی خدمت کریں اور ان کے دل میں جگہ بنائیں فوج مجبور ہو گی کہ آپ کے احکامات بجا لائے۔میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس کے باوجود کہ مشرف کو سزا ملنی چاہئیے لیکن موجودہ حالات میں یہ بے وقت کی راگنی ہے جو کسی بھی وقت گلے میں پھنس سکتی ہے۔فوج اس ملک کا دارہ ہے اور ایسا جو اپنے دفاع میں بھی بولے تو اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتا ہے ۔ ابھی بھی وقت ہے اس ادارے کو دشمن سمجھنے کی بجائے اسے اپنا سمجھ کے اس کا دفاع کریں تا کہ اسے بولنے کی ضرورت نہ رہے۔

ملک میں نظام بدل رہا ہے۔فوج کا امیج بہت مشکل سے بہتر ہوا ہے۔عوام میں اس کی پذیرائی بڑھی ہے ۔اسے قائم رہنا چاہئیے۔فوج بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ کرے کہ اس وقت کسی بھی طرح کا فوج حکومت تنازعہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کر دے گا۔بہتر ہو گا کہ کسی بھی طور مشرف کے بھوت سے جان چھڑا کے اس قوم کو آگے کی طرف گامزن کیا جائے۔ہم طالبان کو معاف کر سکتے ہیں۔ان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو باقی لوگوں سے کیوں نہیں؟ حکومت ایک دفعہ سب کے لئے عام معافی کا اعلان کرے۔ اس کے بعد جو ریاست کے خلاف کھڑا ہو اس سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آہنی ہاتھ کو تو خود ہم اپنے ہاتھ سے توڑ رہے ہیں ۔ہم خود اسے توڑ دیں لیکن پھر گھر کا خرچہ کون چلائے گا؟

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 267990 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More