عافیہ صدیقی کو انصاف چاہیے

پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ، پاکستان کے قیام میں آنے سے شروع ہوجاتی ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا دوسرا مرحلہ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور سے شروع ہوا۔ہمارے لیے بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جہاں کہی بھی دہشت گردی کی بات ہو رہی ہو تو پاکستان کا نام سب سے پہلے آجاتا ہے حالانکہ دُنیا میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کی لیے مُخلص ہے اور سب سے ذیادہ نقصان بھی پاکستان ہی نے اُٹھایا ہے۔جب سے پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کی لیے امریکہ کو ہاتھ دیا ہے تب سے پاکستان کو بہت ذیادہ نقصان ہوا ہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن ہم نے امریکہ کو دوستی کا ہاتھ نہیں بلکہ غلامی کا ہاتھ دیا ہے کیونکہ دوستی میں دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجتی ہے۔جب امریکہ میں یا کسی اور مُلک میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو سب سے پہلے امریکہ، پاکستان پر الزام لگاتاہے۔ہمارے پیارے ملک پاکستان میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ امریکہ ہی کی مہربانی سے ہورہی ہے اور پتہ نہیں کب تک جاری رہیگی۔

امریکہ کی پاکستان میں ڈرون حملے اور افغانستان کے جنگ میں زبردستی دھکیلنا اپنی جگہ لیکن جس طرح اُنہوں نے پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغوا کیا اور اُسے قیدی نمبر 650 بنایا، پاکستان کے سیاستدانوں اور عوام کے منہ پر طمانچہ ہے۔2 مارچ 1972 کو کراچی میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003 میں امریکہ نے 3 بچوں سمیت کراچی کے گلشن اقبا ل علاقے سے اغواکیا اور اُسے افغانستان لے گیا۔امریکہ کا دعوی تھا کہ انہوں نے عافیہ صدیقی کو 27 جولائی2008 کو افغانستان سے گرفتار کر دیا اور اُن پر مقدمہ چلانے کے لئے نیویارک بھیجا گیا۔اُن کا کہنا ہے کہ عافیہ صدیقی نے امریکی فوجی کی بندوق چھین کر اُن پر گولیاں چلائی اُن کی القاعدہ سے تعلق ہے اور وہ القاعدہ کے لئے ایک متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔عافیہ صدیقی کے وکیل نے عدالت میں یہ ثابت کر دیا تھا کہ نہ توکمرے میں رائفل سے چلی ہوئی گولیاں ملی اور نہ ہی کمرے میں ٹنگے پردے پر بارود کے ذرات ملے ہیں۔لیکن پھر بھی 23 ستمبر2010 میں نیو یارک امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا سنائی اور شاید پہلی بار کسی پاکستانی کو، امریکہ کے کسی عدالت میں دہشت گرد ی کے الزام میں سزا سنائی گئی ہو۔
2004 میں عافیہ صدیقی کا نام امریکہ نے القاعدہ کے ان سات ارکان کے فہرست میں جاری کیا تھا جس کے بارے میں شک تھا کہ وہ نیو یارک پر حملے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔اسلام آباد عدالت میں ایک درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کو مشرف کے دور میں ڈالروں کے عوص امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا گیا۔

سزا سنانے سے پہلے فوزیہ صدیقی اپنی بہن کو انصاف دلانے کے لئے ہر وقت کوشش میں لگی رہتی۔پاکستان کی سیاستدانوں نے فوزیہ صدیقی سے عافیہ صدیقی کیس کے سلسلے میں ملاقاتیں کیں۔ یوسف رضا گیلانی نے فوزیہ صدیقی سے پانچ بار ملاقات کی، اُن سے ہمدردی کا اظہار کیا اور اپنی طرف سے کوشش کرنے کا وعدہ کیا۔ان کے علاوہ نواز شریف، رحمان ملک، مشاہد حُسین، شہباز شریف اور فاروق ستار نے بھی فقد تسلی دینے کے کئے صرف ایک ایک بار ملاقات کی۔پرویز اشرف صاحب نے بھی عافیہ کیس کے جائزہ لینے کے لئے وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی سر براہی میں چار رُکنی کمیٹی قائم کر دی تھی لیکن ان کے باوجود عافیہ صدیقی کو سزا سے بچا نہ سکی۔

اب تو یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ تین مہینے پہلے پاکستانی حکومت نے عافیہ صدیقی کی رہائی کیس واپس لے لیا ہے۔اگر کسی سیاستدان کی اپنی بیٹی اسطرح کی سلوک سے گزرتی تو شاید اُن کا رد عمل مختلیف ہوتا لیکن عافیہ کس کی بیٹی ہے ؟؟؟کیا وہ پاکستان کی بیٹی نہیں ہے ؟؟؟؟ کوئی بھی اُسے واپس لانے کے لئے کوشش نہیں کرتااور نہ ہی اُن کا ذکر ہو رہا ہے ہمارے پیارے ملک کے سیاستدانوں کے منہ سے۔کاش عافیہ صدیقی ، سابق چیف جسٹس ہوتا جسکی بحالی کے لئے سارے وکلاء اور عوام سڑکوں پر نکل آتے ، کاش عافیہ صدیقی ، ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایشو ہوتا جسکی وجہ سے اسلام آباد کے سڑکیں بند پڑے ہو۔حکمران تو ویسے ہی کچھ نہیں کر رہے ہیں لیکن ہم عوام نے بھی اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔عافیہ کا گنہگار ہم سب ہے کیونکہ ہم میں سے بھی کوئی ایسا نہیں جو کم از کم اپنی حیثیت سے اُسے واپس لانے کے لئے کوشش کرے ۔عوام کو چاہیے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے قید سے چھڑانے کے لئے ہر ممکن اور جائز کوشش کرے تاکہ حکمران مجبور ہو کر عافیہ کیس دوبارہ شروع کرائیں اور اُسے انصاف دلائیں۔۔۔