آگے کیا ہوگا ؟

جیسے جیسے وقت گز رہا ہے پاکستان کی سیاست میں سے اصول ،قاعدے، آدمی اور عوام نکلتے جارہے ہیں ۔عورتیں بچے تو پہلے ہی باہر تھے،چند بوڑھے اور شریف لوگ تھے انہیں بھی لیڈر ماننے میں لوگ ہچکچانے لگے ہیں ۔کچھ ابھی بچے ہیں نادان ،سیاست کم کرتے ہیں کھیلتے زیادہ ہی رہتے ہیں ۔سیاست کی کھیتی تو سوکھتی ہی جارہی ہے نہ کوئی زمین تیار کرتا ہے ،نہ بیج، پانی کا انتظار ہے ۔سارے ملک میں گھاس ہی گھاس اگتی ہے ۔گھاس کے کھلے میدان ،جہاں گھوڑے مزے سے چرتے پھرتے ہیں ۔گھوڑا بڑے کام کا جانور ہے کبھی شاہی سواری کے کام بھی آتا تھا آجکل حکومت کے کاروبار میں زیادہ بکنے والا سودا ہے جس کے پاس جتنے گھوڑے وہ اتنا ہی بڑا بادشاہ یا ولی عہد ۔کہنے کو تو جمہوریت کا دور ہے،الیکشن وغیرہ بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن اصل طاقت تو گھوڑوں کی ہے یا کسی اور کی۔۔۔۔آج سے ایک زمانہ آگے جا کر مورخ یا ریسرچ سکالر گذشتہ دور کے اخباروں کی فائلیں کھولے گا تو اس کو دو چیزیں ایسی خاص ملیں گی جو جمہوریت اور سیاست کے میدان میں اپنا گہرا نقش قدم چھوڑیں گئیں ۔بوٹ اور گھوڑے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام یتیم ہوچکے ہیں بلکہ یتیم ،مسکین و غریب ،لاوارث اوربے بس ہوچکے ہیں ۔سیاست اس وقت صرف جوڑتوڑ ،گالی گلوچ اور اگلے الیکشن کے لئے ساز باز کرنے کا نام بن چکی ہے اسکے علاوہ ہماری کوئی ترجیح قومی سطع کی نہیں ہے ۔کیا یہ سیاست ہے ؟ ایسی سیاست جس میں حکمران تو اربوں روپے کے محلات میں رہیں مگر غریب ووٹر کو سر چھپانے کے لئے جھونپڑی بھی میسر نہ ہو ،تن ڈھانپنے کے لئے لباس اور کھانے کے لئے لقمہ نہ ملے ۔غریب بیمارہوجائے تو دوائی نہ ملے ،غریبوں کے بچے علاج کی سہولیات نہ ملنے سے مر جائیں جبکہ حکمران اپنا علاج بیرون ممالک سے سرکاری خزانے سے کروائیں اور اربوں روپیہ غریب عوام کے ٹیکسوں کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہاہو ۔قوم کی بیٹیاں انصاف نہ ملنے پر خودسوزیاں کر رہی ہیں ۔ جب جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ اقتدار ،دولت ،انصا ف ہر شعبہ زندگی پر قابض ہو ۔ ایسے حالات میں فری اینڈ فئیر الیکشن ہو سکتا ہے۔ کسی کو یہ سوچنے کی فرصت ہی نہیں ہے ہر سیاستدان اپنے ذاتی مفادات اور خاندانی مفادات کو ہی پہلی ترجیح بناتا ہے ۔ایک ہاری اپنے جاگیردار کے خلاف کیسے ووٹ دے سکتا ہے ؟ ایک مرید مخدوم کے مقابل کیسے کھڑا ہو سکتا ہے ؟اس آدمی کی کمزور حیشیت کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ جو مزارع بھی ہے ،مرید بھی ہے،روٹی کمانے کے لئے ٹکرا،زمین سے لے کر جھگی کی جگہ، اور آخرت کی نجات یعنی جسم سے لے کر روح تک گروی پڑی ہوئی ہے ۔ علاقے میں مل لگائے تو وہی وڈیرہ یا پیر ،الیکشن لڑے تو وہی وڈیرہ یا پیر ،کاشت کاری ،مزدوری ،مذہب اور ووٹ سبھی کچھ تو ان کے قبضہ میں ہے جن کی زمینیں ملیں ،گدیاں اور ممبریاں ہیں ۔

ایسے میں جمہوریت کا ڈھونگ ،سیاست کی بات ،ترقی اور جدت کے قصے کیا ہیں؟ فقط جنگ ،زرگری اور زمینداری کرنے والوں کا ایک تفریح شعبہ ناــ ! اور یہ حکمران و سیاست کے وڈیرے ،وڈیریاں جو اب اپنے آپ کو سورج چاند بھی کہنے لگے ہیں ۔یعنی اندھیروں نے اپنے نام اجالے رکھ لیا ہے ۔ان کی کل سیاست اقتدار کی جنگ ہے جو یہ آپس میں لڑ رہے ہیں ۔اپنی اپنی باریاں لیتے ہیں لیکن باری کا انتظار بھی صبر سے نہیں کرتے کر بھی نہیں سکتے کیونکہ اربوں روپے کے فنڈز ،کمیشن یہ سب کچھ تو ان کی سیاست کا جزو لا ینفق ہے ۔پارلیمنٹ مچھلی منڈی ہے یہاں پارلیمنٹری زبان و ادب کی ضرورت بھی نہیں رہی ۔،فری سٹائل کشتی ہے اور نورا کشتی ۔ہر کوئی اپنے آپ کا بہتر والا نہیں ،بدتر والا انداز دکھا رہا ہے ۔منشور نہ حقوق ،بس آپس کا میچ ہے ۔فاؤل کھیل کا مقابلہ ہے جو جتنا لوٹے گا اتنا ہی کامیاب ہوگامگر ایک آپسی سمجھوتہ بھی ہے ۔اندر ہی اندر اور اس کا وہ لحاظ بھی ضرور کرتے ہیں ۔ٍٍٍٍٍٍٍ

پاکستان میں جمہوریت کے دعوے کرنے والے جمہوریت کی تعریف سے بھی نا آشنا ہیں کہ جمہوریت تو ہوتی ہی عوام کی اکثریت کی حکومت عوام کے حقوق کے لئے ۔مگر یہاں تو الٹی ہی گنگا بہتی ہے صرف دو فیصد اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کا نا م جمہوریت رکھاہوا ہے جو ایک مذاق ہی لگتا ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت کا ایک برا تضاد یہ بھی ہے کہ جمہوریت کی بات کرنے والی سیاسی پارٹیوں میں آمریت اور خاندانی بادشاہت جیسا نظام ہے ۔جو اپنی پارٹیوں میں جمہوریت برداشت نہیں کر سکتے وہ عوام کو جمہوریت کیا دیں گے ۔ آ ج پاکستان ایک ایسی ریاست بن چکا ہے جس کو پتہ ہی نہیں اس کی ڈائریکشن کیا ہے ،نوجوان بے مقصدیت کا شکار ہیں ،کرپشن اور لوٹ مار عام ہے ،دہشت گرد پورے ملک میں سر عام اپنی کاروائیاں کر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان کا مستقبل کیا ہوگا ؟ کیا یہ جمہوریت ہے ؟ کیا یہ نظام ہے تو بد نظامی پھر کیا ہوتی ہے ؟ اگرملک میں گڈ گورننس ہے تو بیڈ گورننس کیا ہوتی ہے ؟ آگے کیا ہوگا ؟ْ؟؟ْیہ ایک سوال ہے جو ہر محب وطن شہری کے ذہن میں آتا ہے ۔ آگے کیا ہوگا ؟
Huma Waheed
About the Author: Huma Waheed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.