ابن آدم کا چراغ

الہ دین کے چراغ سے کون واقف نہیں ہے آپ سب نے الہ دین کے چراغ کا قصہ تو سن رکھا ہو گا۔الہ دین کے پاس ایک چراغ تھاجب بھی الہ دین کوکوئی کام ہوتا یاکوئی ضرورت ہوتی توالہ دین چراغ کو رگڑتا اور ایک جن حاضر ہو جاتا،اور جن حاضر ہو کر کہتا کہ( ـــکیا حکم ہے میرے آقا؟)الہ دین اسے حکم دیتا تو جن فورا وہ حکم کی تکمیل کردیتا۔یہ توتھا الہ دین کا چراغ جو صرف قصوں کہانیوں میں پایا جاتا ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ـ

لیکن اکیسویں صدی میں یہ چراغ انٹر نیٹ کی شکل میں حقیقی دنیا میں آچکا ہے،جب ہم انٹر نیٹ استعمال کرتے ہوئے کوئی سرچ انجن اوپن کرتے ہیں توسامنے ایک سرچ با ر نمودار ہوتی ہے ۔یہ سرچ بار دراصل ہم سے وہی سوال کر ہی ہوتی ہے جوسوال الہ دین کے چراغ سے نکلنے ولہ جن کیاکرتا تھا(کیا حکم ہے میرے آقا؟)جونہی ہم اسے کوئی حکم دیتے ہیں تویہ پلک جپکنے میں حکم کی تکمیل کرتا ہے۔ہم حکم لکھ کر بول کر اور کسی بھی طریقے سے کرسکتے ہیں،اس چراغ یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے ہم دینا جہاں سے کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں،یہ چراغ ہمیں دنیا بھر کی ہر وہ چیز دے سکتا ہے جوہم چاہیں۔دنیا کی کسی بھی جگہ چیز یاشے کی معلومات ،تصویر،خبریں،نقشے،موسم کا حال،حالات حاضرہ ، معلومات عامہ،کھیل،تفریحی پروگرام،معلوماتی پروگرام،تجزیے،اور وہ سب کچھ جو انسان کو چاہیے۔اس سب کے علاوہ اس چراغ کے ذریعے خریدوفرحت ،لین دین،سفر کی معلومات،سوشل رابطے، بل پے کرنے،مصنوعات کی تشہیر ،کسی بھی چیز کی تاریخ ،یونیورسٹی کی معلومات،آن لائن کورس،بیماریوں کاعلاج ،آن لائن لائبریری جس میں تقریبادنیا کی ہر کتاب دستیاب ہے، اور بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے ،یہ سب کچھ پلک جپکنے سے بھی پہلے ہوسکتاہے۔

خوشی کی بات تو یہ ہے کہ اس چراغ تک رسائی الہ دین کے چراغ کی طرح کسی خاص شخص تک محدود نہیں،بلکہ اسے ہر کوئی باآسانی استعمال کرسکتا ہے۔بچے،بوڑھے اورجوان ہر کوئی اس سے مستفید ہوسکتا ہے۔آپ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں یہ آپ کی رہنمائی کرتا ہے۔آپ ڈاکٹر ہو،انجیئر ہو،سائنس دان ہو،سیاست دان ہو،سرکاری آفیسر ہو،استاد ہو،طالب علم ہو،بزنس مین ہو،رسرچ سکالر ہو،مذہبی سکالر ہو،کرکٹر ہو،اداکار ہو،الغرض آپ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ ہوتو یہ آپ کا بہت بڑا مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔بس اس کو رگڑنا آپ کا کام ہے ۔انٹرنیٹ تک ہر کسی کی اتنی اسانی سے رسائی کی حصو صیت کی بنا پرا سے ابن آدم کا چراغ پکارا جاسکتا ہے۔
Malik Moazam Ali
About the Author: Malik Moazam Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.