ڈالر سے بندر تک

میں ہوٹل پر بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا جب کے میرا موبائل فون مسلسل ڈالر کے اتار چڑھاؤ کی داستان سنا رہا تھا اور میں یہ دیکھ کر پاکستان کی بدلتی معیشت اور آنے والے دنوں کی خوشحالی کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا. میں ملک کے بدلتے حالات کو اپنے نظریہ سے دیکھ رہا تھا اور ساتھ میں اس بات پر بھی غور کر رہا تھا کہ آنے والے دنوں میں ان تبدیلیوں کے ہم پر کیا اثرات مرتب ہونگے. کیا یہ مثبت تبدیلی کسی غریب کی دو وقت کی روٹی میں مثبت اضافہ کرنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا مالک مکان کرایہ کم کریںگے؟ کیا اب غریب کی تنخواہ میں بہتر اضافہ ہوسکے گا؟ کیا دنیا و مافیہا سے بےخبر انسان جو شب و روز اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے اپنی ضرورت کے مطابق آٹا خرید پائیگا؟ یہ سب تو انتہائی بنیادی سوال تھے جنکا جواب میرے ذہن میں نہ کی صورت میں ہی آیا. چونکہ ہم نے بچپن سے بڑے ہوتے تک روپے کی قدر میں اضافے کے فوائد پڑھے ہیں تو ذہن کچھ اور دل کچھ اور ہی کہتا تھا.

میں اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ میرے برابر میں موجود کرسی ایک شخص نے باہر کی جانب کھینچی اور اس پر بیٹھ گیا. اس نے کچھ دیر سوچا، اپنی جیب پر ہاتھ مارا اور بیرے کو آواز دی. یہ شخص انتہائی بری حالت میں تھا، اسکی عمر تقریباً 30 سال ہوگی جبکہ کپڑوں کی حالت بھی اسکے حالات کا پتہ بتاتی تھی، بال بکھرے ہوئے تھے اور ہاں اسکے پاس ایک عدد بستہ جس میں شاید اسکا کچھ سامان تھا اور ساتھ میں ایک رسی سے بندھا بندر بھی موجود تھا. میں ابھی اسکا بغور جائزہ لے ہی رہا تھا کہ اسی دوران بیرا سر پر آ کھڑا ہوا اور اس نے آرڈر لینے میں مصروف ہوگیا. اس نے بیرے سے سادہ چاے اور کیک کے نرخ پوچھے، کچھ سوچا اور "آرڈر پلیس" کردیا.

جب وہ جا چکا تو میں نے بندر والے شخص سے دریافت کیا کہ وہ کون ہے اور کیا کرتا ہے. اس نے اپنی داستان کا آغاز کچھ یوں کیا.

" میں اندروں سندھ سے کسی اچھے کام کے سلسلے میں کراچی آیا تھا، پڑھا لکھا نہیں تھا اور گاؤں میں یہ سن رکھا تھا کہ جو بھی کراچی جاتا ہے امیر ہوجاتا ہے گویا پیسے وہاں پیڑ پر اگتے ہیں. میں نے بھی اپنے آباؤ جداد کی طرح اپنا بوریا بستر گول کیا اور پیسہ کمانے کی غرض سے کراچی آگیا. کافی روز کام ڈھونڈھنے پر نہ ملا تو خالی پیٹ اور گھر والوں کی یاد نے عقل ٹھکانے لگا دی. چونکہ پڑھا لکھا نہیں تھا تو کہیں سے کچھ ادھار اکٹھا کر کے ایک بندر خریدا اور اسکا تماشا دکھا کر عزت دار کمائی کا ذریعہ تیار کر لیا. کچھ روز میں ادھار تو اتر گیا مگر اس بندر نے زیادہ دن ساتھ نہ دیا. اسکے چل بسنے کا دکھ ابھی کم نہ ہوا تھا کہ پھر فاقہ کشی نے حالت غیر کردی. میرے پاس پیسے ختم ہوچکے تھے. لہٰذا کچھ اچھے دوستوں سے ادھار لیا اور ایک اور بندر خریدا. اسی اسنا مجھے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی اور کچھ روز بعد ہی ہم نے شادی کرلی. گزارا تقریباً مشکل تھا اس لئے میری بیوی نے بھی گھروں میں کام کرنا شروع کردیا. غربت نے ہمیں تعلیم کے زیور کی اهمیت کا اندازا اچھے سے کرا دیا تھا. ہمارے ہاں تو بیٹوں کی ولادت ہوئی تو میں نے طے کیا کے ان کو کسی بھی قیمت پر پڑھآؤنگا لہٰذا دونوں کو اچھے اسکول میں داخل کروایا اور اب میرا چھوٹا بیٹا کے جی ٹو جبکہ بڑا بیٹا چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے. گزارا تو ہمارا اب بھی کافی مشکل سے ہوتا ہے مگر جب بھی اپنی اولاد کو پڑھتا دیکھتا ہوں تو اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہمارا مستقبل بھی روشن ہوگا. انشا الله!"

یہ کہانی آپکو بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہم اطمینان کی زندگی جینے والے لوگ بھی کبھی کبھار بھول جاتے ہیں کہ جو آسائشیں ہمیں با آسانی میسّر ہیں کسی نے انکو پانے کے لئے کتنی محنت اور کتنا سفر کیا ہوگا. مگر وہ بھی ہماری طرح پر امید ہے کے اسکی مشکلات آسان ہوجائینگی. ڈالر کے ریٹ سے نا آشنا یہ شخص جب پر امید ہو سکتا ہے تو ہمیں بھی یہ سوچ کر محنت کرنی چاہیے کے ہمارا روشن مستقبل بھی انتہائی قریب ہے اور ہمیں اسکے لئے ابھی اور کام کرنا ہے. الله تعالی ملک پاکستان کے لوگوں کو انکے مقاصد میں پورا اترنے کی ہمّت عطا فرماے. آمین!

junaid khawaja
About the Author: junaid khawaja Read More Articles by junaid khawaja: 4 Articles with 4562 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.