خوابوں کی تعبیر کون دے گا

میرے ایک عزیز نے انجینئیرنگ مکمل کی تو اس کی خوشی دیدنی تھی اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بہت فخر تھا اور ہم اپنے دوستوں کو بتایا کرتے تھے کہ ہمارا اس فلاں رشتہ دار نے اعلیٰ تعلیم مکمل کی ہے جس کے اخراجات بھی بہت زیادہ ہیں اور اس کو مکمل کرنے کے لئے ذہنیت کی بہت ضرورت ہوتی ہے عموما لوگ سمجھتے ہیں کے اتنی زیادہ تعلیم حاصل کر کے شاید ان کے وہ تمام خواب پورے ہو جائیں گے جس کو کھبی انھوں نے دیکھا تھا جن کی تعبیر کو وہ اانکھوں میں سجائے اس مشکل سفر کے مسافر بنے تھے اس کا عملی مظاہرہ میں جب کھبی اپنے اس رشتہ دار سے ملتا ہوں تو اس کی آنکھوں میں ضرور دیکھتا ہوں ہاتھ میں اعلیٰ تعلیم کی ڈگری لئے وہ کسی بے بس انسان کی طرح ہی لگتا ہے جس کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود کچھ بھی نہیں ہوتا یقین کیجئے جب ایک طالب علم اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد یونیورسٹی اور ادارے سے فارغ التحصیل ہوتا ہے تو اسکی آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب تیر رہے ہوتے ہیں اس کا دل عملی زندگی میں قدم رکھنے کیلئے بے تاب ہوتا ہے حسین خوابوں کی وادی میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب اسکی ماں دروازے پر اس کا استقبال کرتی ہے، اپنے بیٹے کو سینے سے لگاتی ہے ماتھے پہ بوسہ دیتی ہے اور کہتی ہے کہ ’’ میرا پتر افسر بنے گا‘‘ وہی ماں جس نے اپنے بیٹے کی تعلیم کیلئے اپنے زیور بیچ دئیے تھے۔ اسکے والد اسے تھپکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ شاباش بیٹا تم نے میرا سر فخر سے بلند کردیا‘‘ وہی باپ جس نے شب وروز محنت کرکے اپنے بیٹے کی تعلیم کے اخراجات اٹھانے کیساتھ ساتھ اسکی تمام تر خواہشات کو پورا کیا تھاوہ بھائی اپنے ماں ، باپ ، بہن کے خوابوں کو اپنے خواب بنالیتا ہے وہ اپنی ماں کو کہتا ہے میری جاب لگے گی تو میں اپنی اماں جی کے لئے نئے زیورخریدوں گا اپنے والد گرامی کو بازو سے تھامتا ہے اور فرط جذبات میں کہتا ہے ’’بابا آپکے سارے قرضے اتار دوں گا‘‘ بابا اب آپ نوکری نہیں کریں گے پھر کہانی جیسے وہیں رک جاتی ہے وہ ہر اتوار کواخبارات کے صفحات آسامیوں کے اشتہارات سے کالے تو ضرور دیکھتا ہے ہر اتوار وہ بیسیوں اداروں میں درخواستیں بھیجتا ہے نوکری کی تلاش میں انٹرویوز کے تجربات ایک، دو نہیں بیسیوں بار ہوچکے ہیں ایک ہفتہ، ایک ماہ ، چھ ماہ ، ایک سال ، دو سال گزر جاتے ہیں مگر نوکری ہے جو اس باہمت نوجوان کو نہیں ملتی وجہ صرف یہ ہے کہ اس کے پاس سفارش نہیں ہے اچھی نوکری کے لئے دیے جانے والا نذرانہ نہیں ہے اوپر والے لوگوں سے تعلقات نہیں ہیں اسی نوکری کے چکر میں وہ اوور ایج ہو جاتا ہے اور جہاں کہیں نوکری کی تھوڑی بہت امید ہوتی بھی ہے وہ بھی ختم ہو جاتی ہے انہی اخبارات کے اندرونی صفحات کے کسی کونے کھدرے میں ایک خبر پڑھنے کو ملتی ہے’’ بیرزگار نوجوان نے حالات سے تنگ آکر خود سوزی کرلی‘‘ یہی انجام ہوتا ہے جب خواب ٹوٹ جاتے ہیں یہ کہانی محض کہانی نہیں ، یہ ہر اس طالب علم کی روداد ہے جس نے غریبی میں آنکھ کھولی اور پاکستان کے بدترین تعلیمی نظام کے باوجود اعلی ڈگری تک اپنا سفر کیا ایک ایسا سفر جس کے راستے اتنے کھٹن ہیں کہ اکثر ہمسفر ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور کروڑوں میں سے ہزاروں ہی اعلی تعلیم حاصل کرپاتے ہیں دیہاتوں میں توکم لوگ ہی اعلی تعلیم یافتہ ملتے ہیں زندگی کے بیشمار تلخ تجربات سے گزر جانے کے بعد A+گریڈ میں پاس ہونے والا طالب علم اپنی زندگی سے یا تو ہاتھ دھو بیٹھتا ہے یا جرائم کی جانب گامزن ہوجاتا ہے، یا پھر غلامی کا کڑوا گھونٹ بھر کے چھوٹے چھوٹے دفاتر میں کلرکی کرتا ہے، یا کسی چوراہے پر ریڑھی لگا کر کرب و غم کی داستان بن جاتا ہے، یا کہیں ہمارے حکمرانوں کی دی ہوئی سکیموں کے مطابق ٹیکسی چلاتا ہوا نظر آتا ہے آپ آج بھی جا کر دیکھ لیں بہت سے حکومتی اداروں میں اتنی تعلیم افسران کے پاس نہیں ہوتی جتنی ان کے ماتحت کام کرنے والے لوگوں کے پاس ہوتی ہے نسبتا کم پڑھے لکھے لوگ اوپر اور پڑھے لکھے نیچے کام کر رہے ہوتے ہیں وجہ صرف سفارش اقربا پروری ،رشوت،میرٹ کی پامالی ،حکومت کی ناقص پالیسی اور نہ جانے کیا ،کیا خرابیاں ہیں جو ان نوجوانوں کے دلوں پر :مونگ دل رہی ہیں :اور آج کا نوجوان چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہا کیونکہ ہمارے ہاں حکمران تو ضرور بدل رہے ہیں مگر نظام وہی ہے جس میں ہر طرف غلامی جیسے حالات کا دور دورہ ہے پاکستان کے آج کل کے حالات میں ایک طالب علم کا مستقبل کیسے محفوظ ہوگا جب ان کے حکمرانوں کے پاس ان کیلئے ماسوائے سودی قرض دار بنانے کے کوئی پالیسی ہی نہیں ہے وہ بھی ایسا سودی قرض جس کے لئے گارنٹی دینے کو کوئی تیار ہی نہیں ،انھیں نوکریاں دینے کے بجائے ٹیکسی ڈرائیور بنانا اچھا خیال کیا جاتا ہے ۔ سفارش اقربا پروری ،رشوت،میرٹ کی پامالی کا کلچر جہاں نظام بن گیا ہو وہاں ایک پڑھا لکھا ایماندار شخص کیا کرے گا۔ سفارش اقربا پروری ،رشوت،میرٹ کی پامالی میں لپٹے نظام کی وجہ سے پورے معاشرے میں بدبو پھیلی ہوئی ہے جب خواب ٹوٹ جاتے ہیں تو جرائم جنم لیتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ کراچی میں چوری اور ڈکیتیوں میں پکڑے جانے والے نوجوانوں کی تعلیمی قابلیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جن کو مختلف نجی چینلز نے بھی رپورٹ کیا تھا مگر یہاں کسی کے سر میں جوں تک نہیں رینگی کے آخر اتنے پڑھے لکھے نوجوان ان جرائم میں کیونکر ملوث ہوئے ہیں اس کی وجوہات کیا ہیں۔بعض بین القوامی سروئے کرنے والی فرموں کے مطابق حالیہ چند سالوں سے پاکستان سے ذہین دماغ بہت تیزی سے بیرون ممالک میں منتقل ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ بے روزگاری اور ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کا استحصال بھی ہے اور ایسے زہین لوگ جن کی پاکستان کو بہت سخت ضرورت ہے اگر اس نازک مرحلے پر جب ملک کئی خطرناک قسم کے بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے یہ بہترین ذہن باہر کی دنیا منتقل ہو رہے ہیں تو یہ موجودہ حکومت کے لئے اَلٹی میٹم ہے پاکستان کے کروڑوں غیور طلبہ آج یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ یہ پیارا وطن ان کے آباؤ اجداد نے اس لئے حاصل کیا تھا کہ یہاں ان کو جائز مقام ملے گا باعزت روزگار اور ترقی کے مساوی موقع ملیں گے مگر ملا کیا؟؟؟؟ یہی سوال بیداری طلبہ کا سبب بن رہا ہے اور یہی صدا لاکھوں دلوں میں چنگاری بن کے اٹھ رہی ہے امن ، فلاح،ملکی ترقی و کامرانی اسی میں ہے کہ ان نوجوانوں کو درست سمت دی جائے ان کے لئے مناسب اور جنگی بنیا دوں پر اقدامات کیے جائیں اور ان کے خوابوں کو تعبیر دی جائے وگرنہ یہ چنگاریاں کب شعلوں میں تبدیل ہو جائیں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 207815 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More