مادری زبان اور ہماری ذمہ داری

پوری دنیا میں ۲۱ فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منایا جاتا ہے اسی تاریخ کو ہر سال ہم پشتو لکھنے والے بھی رسماً یہ فریضہ کسی نہ کسی طور انجام دے کر تاریخ کے اوراق میں اپنے نام ثبت کرجاتے ہیں ۔دو چار بینرز دو چار پلے کارڈز کے ساتھ گنتی کے چند شعراء حضرات شہر کے کسی بھی چوک سے واک شروع کرکے پریس کلب پہنچ جاتے ہیں پر جوش تقاریر کا سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہتا ہے وہاں صحافی حضرات اُن کی تصاویر لے کر کل کے اخبار کے لئے دو سطری تحریر کے ساتھ بھیج دیتے ہیں ۔اب ان کی قسمت کے ان کی تصویر شائع ہوتی ہے یا صرف خبر۔پھر بھی وہ مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ہمارے ذمے جو کام تھا وہ ہم کرچکے اب حکومت اگر ہماری مادری زبان پشتو کو عملی طورپربطورِ لازمی مضمون نصاب میں شامل نہیں کرتی ، ہمارے وہ نام نہاد پشتون لیڈر جو پشتو اور پشتونوں کے لئے جان کے نذرانے پیش کرنے کے دعوؤں سے تکتے نہیں مگرپشتو کے حوالے سے کسی بھی منعقدہ تقریب میں شامل نہیں ہوتے اور ان شعرا و ادباء کی اواز ایوانوں تک نہیں پہنچاتے توہم کیا کر سکتے ہیں۔

سچی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے کبھی کوئی سنجیدہ اقدامات ہوئے ہی نہیں نہ عوامی سطح پر اور نہ سیاسی سطح پر۔کچھ سیاسی پارٹیاں سالوں سے اسی نعرے سے عوام کو بے وقوف بناتی آرہی ہیں کہ ہم پشتون ہیں اور ہم ہی پشتو کو سکولوں اور کالجوں میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کرینگے۔لیکن ابھی تک عملی طور پر اس حوالے سے کوئی بھی حوصلہ افزاء پیشرفت نہیں ہوئی ۔اب پریشان کن جوصورتحال ہے وہ یہ ہے کہ پشتوزبان کے بولنے والے تو کافی تعداد میں موجود ہیں مگر پشتو لکھنے اور پشتو تحریر کو سمجھنے والے اگر کوئی ہیں تو وہ صرف اور صرف شعراء اور ادباء حضرات ہیں ۔ان کے سوا آپ کسی بھی پشتو بولنے والے کو پشتومیں کوئی تحریر لکھنے یا پڑھنے کے لئے کہیں تو وہ فخریہ انداز میں کہے گا کہ مجھے پشتو میں لکھنا یا پشتو زبان کو پڑھنا نہیں آتا۔اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہمارے سکولوں میں پشتو زبان پڑھائی اور سکھائی نہیں جاتی۔آپ خود سوچیں کہ اگر ایک بچہ انگریزی بول،لکھ اور پڑھ سکتا ہے اسی طرح اپنی قومی زبان اردو پر بھی اسے مکمل عبور حاصل ہے تو وہ اپنی مادری زبان کیوں نہیں پڑھ سکتا۔کیونکہ ہم صرف انہیں پشتو بولنا سکھاتے ہیں لکھنا اور پڑھنا نہیں سکھاتے۔

اب تو حالات اس قدر مایوس کن ہوتے جارہے ہیں کہ پشتو کے شاعر اور ادیب پشتو میں کوئی کتاب تحریر کرنے سے ڈرنے لگا ہے اگر کسی کے پاس کتاب چھاپنے کا مواد موجود بھی ہو تو وہ اس کشمکش میں ہوتا ہے کہ کتاب شائع کروں یا نہ کروں ۔کیونکہ وہ پیسے بچا بچا کر جو کتاب شائع کرتا ہے پھر اس کتاب کو خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا۔پشتو کتاب خریدنے والا ہوگا بھی کیوں جب کسی کو پڑھنا آتا نہیں تو کتاب خرید کر کرے گا کیا۔ ہمارا پشتو کا شاعر بیچارا پہلے تو کئی سال تک اپنے جگر خون سے اشعار لکھتا ہے اور پھرمحنت مزدوری کرکے اپنا پسینہ بہا کراور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر جب کچھ پیسے جوڑ کر اپنی کتاب صرف اس لئے شائع کرتا ہے تاکہ لوگ ان کے افکار سے واقف ہوں ان کا نام کچھ عرصے تک لوگوں کو یاد رہے ۔ان کو ایک پہچان ملے مگر ایسا ہوتا نہیں۔وہ صرف اپنا قیمتی وقت ،پیسہ اور شاعری ان لوگوں کے سامنے اپنی کتاب کی صورت میں رکھ دیتا ہے جنہیں نہ تو اس کتاب کو پڑھنے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ضرورت ۔

آپ نوجوان نسل سے اگر پشتو کے شعراء کے بارے میں پوچھیں تو بمشکل وہ صرف دو نام ہی لے پایئنگے وہ بھی ہمارے کلاسیک رحمن بابا اور خوشحال خان خٹک کے انہوں نے صرف نام سنیں ہونگے ان کے کلام کے بارے میں انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی۔وہ بھی دوسروں سے صرف زبانی سنتے آرہے ہوتے ہیں کہ رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک پشتو کے عظیم شاعر ہیں ۔اس کے مقابلے میں وہ اردو کے بے شمار شعراء کے ناموں کے ساتھ ساتھ ان کے کلام سے بھی واقف ہوتے ہیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ سکولوں ،کالجوں میں انہیں جس طرح اردو بطورِلازمی مضمون پڑھائی جاتی ہے ۔پشتو نہیں پڑھائی جاتی۔ جو کہ نہ صرف ان بچوں کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ پشتو ادب،پشتو زبان،اور پشتون ادیب کے ساتھ بھی نا انصافی ہے۔میرے کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ بچوں کو اردو ادب سے یا دوسری زبانوں سے دور کیا جائے مگر انہیں جس طرح سکولوں ،کالجوں میں اردو اورانگریزی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اسی طرح پشتو بھی بطورِ لازمی مضمون پڑھائی جائے تاکہ وہ پشتو زبان اور پشتو شعر و ادب سے بھی واقفیت حاصل کر سکے۔پشتو زبان کے زندہ رہنے کا یہی ایک حل ہے ۔ورنہ آنے والے دور میں پشتو کے شاعر و ادیب بھی اگر حالات سے مایوس ہوگئے اور انہوں نے بھی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ بند یا کم کر دیا تو یہ پشتو زبان کے لئے ناقابلِ تلافی نقصان کے مترادف ہوگا۔اس لئے اہلِ قلم حضرات کے ساتھ ساتھ اسمبلیوں اور ایوانوں میں بیٹھے ہمارے سیاسی رہنماؤں کو بھی اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے ہونگے۔صرف ایک دن کی رسمی واک اور تقاریر سے ہم اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوجاتے۔

shahid
About the Author: shahid Read More Articles by shahid: 4 Articles with 5024 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.