اندھیر نگری چوپٹ راج

صبح سویرے کا وقت تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نماز کے بعد ٹیرس پر بیٹھا موسم سے لطف ا ندوز ہو رہا تھا۔ سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا میرے سامنے کو ٹھیوں کی لمبی قطار تھی۔ ایک دو پلاٹ خالی تھے۔ جس میں گھاس پھونس اورجڑی بوٹیاں بڑی تعداد میں اُگی ہو ئی تھی۔موسم میں ہلکی خنکی تھی۔ دور سڑک سے ایک چھوٹا سا بچہ جس کی ہنوز عمر 10 سے 12 سال ہوئی ہو گی۔ کندھے پر ایک بڑاتھیلہ لٹکائے خراماں خراماں چلا آ رہا تھا۔ میرے سامنے خالی پلاٹ کی اونچی دیوار پر چڑھا۔ اس نے جھانک کر اندر دیکھا اوراثبات میں سر ہلاتا پلک جھپکتے ہی دیوار پھلانگ کر اند کود گیااور اپنے کام میں جُت گیا۔ گھاس اتنی بڑی بڑی تھی بعض دفعہ وہ اس گھاس میں غائب ہو جاتا ۔ میرے لیے یہ منظر دلچسپی کا باعث تھامیں غور سے اُسے کام کرتے دیکھتا رہا۔قریب قریب آدھے گھنٹے بعد وہ دیوار پھلانگ کر باہر کود رہا تھا اور اب اُس کے تھیلے میں بہت کچھ آ چکا تھا۔پلاسٹک کی بوتلیں ،پھٹے پرانے جوتے ، خالی ٹین ڈبے، سوفٹ ڈرنگز کی خالی بوتلیں ، ہر وہ چیز جو اُس کی نظر میں قیمتی تھی وہ اُس نے تھیلے میں ڈال لی تھی اور اب اُس کے چہرے پہ بشاشت دور سے محسوس کی جا سکتی تھی ۔ آج صبح صبح اُس کا کا م بن چکا تھا ۔ وہ اپنی دیہاڑی کا کام پورا کر چکا تھا۔یہ سارے ٹین ڈبے شائد اس کی دیہاڑی کی مزدوری تھی اور اس سے حاصل ہونے والے سرمائے سے اس نے اپنے گھر کا خرچہ چلانا تھا۔وہ بچہ تو تھوڑی دیر میں لمبی سڑک کے آخری موڑ سے غائب ہو چکا تھا۔لیکن میری سوچوں کا ناطہ اُسی سے جڑا تھا۔ قوم کا یہ پھول سا چہرہ جس نے ابھی صحیح طرح سے چلنا بھی نہ سیکھا تھا ۔ ابھی تو اُس کے ناز ونخرے کی عمر تھی رونے اور ضد کر کے مطالبات منوانے کی عمر تھی۔ وہ کیا چیز تھی جس نے اس معصوم کے کندھے سے کتابوں کا بیگ چھین کرکاٹھ کباڑ کا بھاری بھرکم تھیلہ تھما دیا تھا۔ وہ کیا محرکات تھے جنہو ں نے اس کا ہنستا کھیلتا بچپن اور حسین خوابوں کا مستقبل چھین لیا تھا ۔ یہ ننھا بچہ خوشیوں سے بہت دور ، ناز و نعم سے نا اشنا، ہنسی مذاق اور کھیل کود سے بیگانہ کیوں ہوا۔اِس پر تعلیم کے دروازے کیوں بند ہوئے ؟کیا اُس کے دل و دماغ میں خوبصورت کپڑے ،نئی وردی ، چمکتے جوتے ، کتا بوں سے بھرا بستہ لینے کی خواہش انگڑائی نہ لیتی ہو گی ؟کیا کچے گھروندے بنانے اور کھیل کود میں جی لگانے کا من نہ کرتا ہو گا؟ کیوں اُس کی خوشی بس اتنی ساری رہ گئی ہے کہ اُسے کتنے پلاسٹک کے جوتے ،خالی ٹین ڈبے اورکھاٹ کباڑکا سامان ملا ہے۔اس معصوم سے بچے کی خوشیوں کا قا تل کون ہے؟ یقیناً حکومت!لیکن کیا ہم سب حکومت پر ذمہ داری ڈال کر اُس سے بر ی الزمہ ہیں۔کیا ہمیں اس کا جواب نہ دینا ہو گا۔ آخر کب تک یہ ملک بکھا ریوں کی آما جگاہ رہے گا۔آخر کب تک آنے والی نسلیں کاٹھ کباڑ اگٹھا کر کہ اپنا اور اپنے گھر کا پیٹ پالیں گی۔ اور یہ اُس ملک میں ہو رہا ہے جہاں بادشاہ ، وزراء اور امراء روزانہ لاکھوں روپے کھانے کی دعوتوں پر اُڑاتے ہیں۔ کئی کئی خاندانوں کہ مہنیے کا راشن وہ ایک وقت میں کھا جاتے ہیں۔مجھے دو سال قبل بیسٹ ویسٹرن ہوٹل اسلام آباد میں ایلیٹ کلاس کی ایک دعوت میں شرکت کا موقع ملا۔ بیک وقت پینتیس ڈشیں کھانے کے لیے تیار کی گئی تھیں۔لاکھوں روپے چند بندوں کیلئے لگائے گئے۔ وہاں یوں محسوس ہوتا تھا کہ ملک سے غربت ختم ہو گئی ہے۔ہر سو خوشیاں ہی خوشیاں ہیں۔ آخر یہ عوام کے خادم عوام کا خون ہی چوس کر کیوں پلتے ہیں۔اور یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا۔ یہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج آخر کب تک ؟کیا ہم بھی اس کے ذمہ دار نہیں؟

Touseef Afaaqi
About the Author: Touseef Afaaqi Read More Articles by Touseef Afaaqi: 7 Articles with 6752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.