اشارا ئے سمجھداری

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا رحیم اور کریم ہے اور مجھے ہر وقت دیکھ ریا ہے۔

یقین میں بھی ملاوٹ ہواگر تو ظلمت بھی ٹھیک لگے ۔۔۔۔

پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے ساتھ ساتھ بڑہتی ہوئی بیروزگاری اور تعلیم کے شعبوں میں کمی کے باعِص میں یہ سوچنے پر مجبور ہو چکا ہوں کہ کیا قصور تھا اُن اولادوں کا جو اس مملکت میں پہلی سانس کا لطف اُٹھانے کے لیئے پیدا ہوئے۔جہاں قسمت اور تقدیر کا فیصلے چار ستون کیا کرتے ہیں ۔جی ہاں ،یہ وہ ستون ہیں جِن کو بنیا دی ستون کہا جاتا ہے۔

پہلا جو (عدلیہ ہے) جو کہنے کو قانون کی بالادستی کے لیئے بنایا گیا ہے لیکن عملی طور پر مجرموں اور قانون کی پیٹھ توڑنے والے رویل لوگوں کے حق میں فیصلہ کر دیا کرتی ہے،اس کے بعد آپ دوسرے ستون سے بھی بخوبی واقف ہیں وہ ہے پارلیمنٹ جسکی قوم کا وزیرعظم کے سامنے بھی یہ حیثیت ہے کے منتخب ہونے کے بعد یہاںآنے کی زہمت نہیں کرتا،حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں یہ واک آوٹ بھی کرتے ہیں اور آپس میں اتفاق بھی نہیں کرنا جانتے بس باتیں کرتے ہیں کہ ملک سلامت ہے لوگ جی رہے ہیں۔

اِن دونوں کے بعد ہوتا ہے پروں کو سنوارتے ہوئے اونچی پرواز بھرنے والا بیوروکریسی کا ستون جو عوام کی پیٹھ پر بیٹھ کر لگام کھینچتا چلا جاتا ہے جس کا بس نا چلے تو چھینی ہوئی روٹی بھی آد می کے پیٹ سے نکال لے۔میں یہ نہیں کہتا کے خون چوسنے والے یہ آدم خور سب برابر ہیں بلکہ میرے زہن میں کچھ افسر ایسے بھی ہیں جو اِن سب سے کچھ حد تک مختلف ہیں مگر بات بس اتنی سی ہے کہ بات ہے بہت رسوای کی وہ بھی اِن کے پاؤں تلے دبے ہوئے اُن کے کے کارناموں پر پردہ ڈال دیا کرتے ہیں ۔

اِن میں سے اہم ترین ہے میڈیا جو بلکل شفاف تو کہنے کو نہیں پر اِن سب سے کچھ ہد تک بہتر ہے اور آج کل میڈیا پے بہت سے الزامات اور لانت کے اسٹیکر لگائے جا رہے ہیں کہ ملک کو اندھیرے کی طرف دھکیلنے والا اور بدنام کرنے والا ہے تو وہ ہے میڈیا ،اِن سب کو میں یہ بتاتا چلوں کہ میڈیا ہی ہے جو عوام کو اِس بات کا شعور دیا کرتا ہے کہ ملک میں وقتی حالات کیا چل رہے ہیں،میں اس بات سے بلکل نہیں ہٹونگا کہ اب تو عدلیا بھی میڈیا کی صباح سویرے اخبارات کی سرخیاں پڑھ کر ایکشن لیا کرتا ہے،جیسے کہ شہزیب خان کیس اور اِس کے ساتھ ساتھ بہت مثالیں بھی موجود ہیں کہنے کو۔میڈیا کی جدوجہد کو دیکھ کر منٹو کا وہ قول یاد آجاتا ہے کہ اگر میرے معاشرے میں گندگی ہے تو میں اسے دکھا کے رہونگا ۔

اس وقت کی بھی اگر بات کی جائے تو تعلیم اور دوسرے مسائل کو اگر کوئی ہائیلایٹ کر رہا ہے تو وہ ہے میڈیا، اس کے ساتھ ساتھ مزید میں میڈیا کے اُن لوگوں کی بھی بات کرتا چلوں جو حکومت کے ساتھ اپنے جوتے اور چادریں اُلٹا کیِا کرتے ہیں،جی ہاں میں اُنہی صحافیوں کی بات کر رہا ہوں جو اِک زمانے میں مشرف کے پاؤں دبایا کرتے تھے پھر پاکستان پیپلز پارٹی کا دور آیا تو یہ اِن کے حق میں لکھا کرتے اور موجودہ حکومت میں ان کا نام بیوروکریٹس کے ساتھ کھانے کی میز پر بہت عدب سے لیا جاتا ہے۔

کیوں نہ ہو اِن کانا م بلند جو دشمن کے دشمن کو دوست بنا لیا کرتے ہیں-

بہر ہال اِن چار ستونوں پر مشتمل ملک کا تعارف بھی ہو چکا اور ساتھ میں کچھ سچائیاں بھی منظرعام پر آ چکیں،ملکِ پاکستان کی اٹھارہ کروڑ لوگوں کا ایک شکوہ جو روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ اُن بچوں کے ساتھ جو روزانہ پید ا ہوتے چلے جا رہے جا رہے ہیں کہ کیا میرے پیدا ہونے کا فقط شاید یہ ہی فائدہ ہے کے میں بغیر تعلیم کے میں اپنی کمائی کاذریعہ خود تلاش کروں اور قوم کے حکمرانوں کا سوئز بنک میں بنایا ہوااکاؤنٹ بھرتا رہوں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی خود ماری ہے اور اب شکوہ یہ کیا جا رہا ہے کہ کیوں اِن حکمرانوں کو خود پرُ مسلت کیا گیا ،جس طرح سے قرآن پاک میں ایک جگہ پر فرمان ہے کہ (انسان خود کو خود تکلیف اورپریشانی دیا کرتا ہے) اس پیغام کے بعد اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا انلحق جو سچ ہے سو سچ ہے باقی سمجھدار کے لیئے اشارہ ہی کافی ہے-
Salman Qureshi
About the Author: Salman Qureshi Read More Articles by Salman Qureshi: 2 Articles with 1447 views I think the reward for conformity is that everyone likes you except yourself.
Being Social activist to be More stable at humanitarian ground.
.. View More