مولانا فضل الرحمن کی کرشماتی شخصیت

 اپنے اردگرد نظریں پڑتیں ہیںتو مایوسی کی گٹھا ٹوپ پرچھائیاں نظر آتیں ہیں، اقدار و اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہوتا ہے۔نظام تعلیم، نصاب تعلیم اور تعلیمی ادارے جہاں سے معاشرے کے تمام اداروں کو مال مہیا کیا جاتا ہے تتربتر کا شکار ہیں اور تعلیم تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہاہے۔دو طبقے قابل ذکر ہیں، ایک طبقہ قدامت پسندی کی طرف مائل ہے اور حوائج زمن سے قطعا چشم پوشی کرکے قدیم علوم اور اکابر کے ترکہ کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھا ہے اور اسی میں ملک و ملت کی فلاح سمجھتا ہے۔ یہ طبقہ یقینا لائق صد تحسین ہے مگر معاشرے کی تمام ریکوائرمنٹ پوری کرنے سے قاصر ہے، دوسرا ایک بڑا طبقہ نام نہاد جدیدیت کا پرستار ہے اور صرف اور صرف تیکنیکی اور مادی تعلیم پر سارا زور صَرَف کررہاہے اور اپنی اس روِش پر مصر بھی ہے۔ روحانیت و مشرقیت سے خالی یہ طبقہ صرف مادیت کا دلدادہ بن کر رہ گیاہے۔

دھرتی عزیز پر نظریں دوڑائیں توخال خال ایسی شخصیات نظر آئیں گی جو دونوں طریقے کے علوم و تجربوں سے آراستہ ہیں۔ان میں ایک قابل ذکر نام مولانافضل الرحمان کا ہے۔ ان کی مکمل تربیت دینی درسگاہوں میں ہوئی ہے ،وہ قدیم علوم سے بہرہ ور ہیں اور جدیدیت میں بھی وہ اپنے ہم عصروں کی طر ح ماہرہیں۔مولانا فضل الرحمان اپنے ہم عصروں کی طرح صرف ایک ہتھیار سے لیس نہیں ہے۔ وہ بیک وقت معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والا سیاست دان بھی ہے اورایک جید عالم دین بھی،قرآن،حدیث،فقہ اسلامی اور منطق و فلسفہ پر ان کی گہری نظر ہونے کے ساتھ عالمی سیاست پر منفرد نگاہ بھی رکھتے ہیں اور پاکستانی سیاست وسیادت تو مولانا فضل الرحمان کے بجز نامکمل ہے۔ ان کا نام حذف کرکے کوئی لاکھ چاہیے کہ پاکستان اور عالم اسلام کی غیر جانبدار ہسڑی لکھیں، ناممکن ہے

مولانافضل الرحمان ایک زبان آور خطیب ہے، سخن فہمی اورسخن سنجی ان کے ہاتھ کی گھڑی ہے اور سخن وری میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ پاکستانی سیاست اور عالمی اونچ نیچ کے حوالے سے ان کی معلومات اور اطلاعات کو باخبر طبقوں میں مستند مانی جاتیں ہیں۔اس پر ان کو جو تبحر حاصل ہے شاید کسی کے حصہ میں آئے۔

دنیائے اسلام کی ہر ساعت فاجعہ اور قیامت آفریں واقعہ پر مولانافضل الرحمان کی صدائیں صدائے صور بن کر بلند ہو جاتیں ہیں۔ اسلام او ر مسلمانوں کی ہر مصیبت کے وقت ان کا دل ڈھرکتا ہے اور کبھی کبھار تودوسروں کے دلوںکو بھی دھڑکنے پر مجبور کرتا ہے۔وہ مشرق کی زمین میں پیدا ہو اہے اور اس پر انہیں فخر بھی ہے لیکن وہ مغرب کی تمام چالبازیوں، دجل ،مکروفریب اورمکاریوں کوخوب جانتا ہے۔سچ یہ ہے کہ ان کا دل مشرقی ہے مگر دماغ مغربی۔ ان کی بیداری مغز اور حاضری جوابی کا طوطی ایک عرصے سے بولتا ہے۔ اس نے عراق کا نوحہ کیا اور افغانستا ن کا غم کیا،مولانا فضل الرحمان ملک و ملت کا عزادار ہے، حق یہ ہے کہ اس کو دل سے قبول کیاجانا چاہیے-

وہ امت محمدیہ مرحومہ کاسوگوار ہے، ستم زدہ کشمیر کا ماتم دار،بکھرے طالبان کے لیے مضطر،جلتا بغداد کے لیے غم زدہ،ڈوبتا لیبا کے لیے اشکبار اور یہو دیوں کے پنجہ ستم میں مقید بیت المقدس کے لیے سوختہ غم، مشرقی پاکستا ن کے لیے مرثیہ خواں اور عالمی نرغے میں پھنسا پاکستا ن کے لیے مضطرب ہے۔ مناسب یہی ہے کہ ان کی اس داستان غم کو بلاتفریق لائق صد تحریم کیا جائے۔

مولانافضل الرحمان صاحب سے لاکھ اختلاف سہی اور ہونی بھی چاہیے کیونکہ اختلاف میں حسن ہے،مگر ان کی نیت پر شک کرنے کی قطعا گنجائش نہیں۔تحفظ دینی مدارس اور ائین پاکستان سے اسلامی شقات اور ناموس رسالتۖ کے قانون کے خاتمہ کی سازشوں کے خلاف وہ جیتا جاگتا ''ننگا پربت'' اور اسلام بیزار اور ملک دشمن عناصر کے لیے سیسہ پلائی دیوار بنے۔حق یہ ہے کہ حق ادا کیا۔

ملک کی ممتاز یو نیورسٹی جامعہ کرا چی کے آڈیٹوریم حال میںکشمیر آفیئر پر ایک تقریب سے صدارتی خطاب میں انہوں نے قضیہ کشمیر پراقوام متحدہ کا کردار،عالمی برادری کا رویہ، انڈیا کا مخاصاصمانہ انداز، پاکستان کی تلخ و شریں کوششیںاور گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کی آئینی، قانونی،سیاسی، جغرافیائی،عسکری،سیاحتی اور تجارتی اہمیت اور عالم کفر کی للچائی ہوئی غاصبانہ نظروں کو اس خوبصورت پیرائے میں بیان کیا کہ پینٹ شاٹ پہن کر داڑھی اور ملا کا مضحکہ اُرانے والے بھی ششدرہ رہ گئے اور میرے وہ قوم پرست و ملک پرست دوست بھی جنہوں نے کشمیر،گلگت بلتستان اور پاکستان کا ٹھیکہ لیے ہوئے ہیں کہ ایک ''ملا'' بھی اتنی درست اور وسیع معلومات رکھتا ہے اور خوبصورت پیرائے میں بیان کرتا ہے جونئی دنیا کی مانگ ہے۔

مولانا فضل الرحمان صاحب اپنوںکے لیے ابریشم اور غیروںکے لیے برہنہ تلوار ہیں، کسی دانا نے سچ کہا ہے کہ ملکی سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں کو الفاظ کے زیر وبم کے گُر اور زبان کے استعمال کا قرینہ اور سلیقہ ان سے سیکھنا چاہیے کہ وہ اپنا مدعا نہایت سلیقے سے مکمل دلائل و براہین کے ساتھ اور عظیم حقیقتیںنہایت سادگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں-

مولانا فضل الرحمان نے ایک ٹاک شو میں کیا خوبصورت بات کہی کہ '' ہم اس ملک میں تھے ،ہیں اور رہیں گے''۔ صرف اس ایک جملے میں پاکستان کی سیادت و سیاست پر کئی پی ایچ ڈی مقالے لکھے جاسکتے ہیں۔ اسی ایک جملے میں انہوں نے اپنی پوری تاریخ دہرائی، آئندہ کا نصب العین بتایا،علماء و فضلاء اور دین دار طبقہ کی مکمل وکالت کی اور ان کے خلاف زبانیں دراز کرنے والوں کو ان کا چہرہ ان کے اپنے آئینہ میں دکھایا۔ لاریب کہ ان کے اکابر نے کوئی غیر شرعی اورغیر قانونی اور غیر اخلاقی کام نہیں کیا کہ وہ اپنی ماضی پر شرمندہ ہو، اور نہ مولانا فضل الرحمان نے ملک کو لوٹا ہے اور انسانی جانوں کا خون بہا یا ہے کہ دیار غیر میں پناہ لیں اور نہ ہی آئندہ ملک لوٹنے اور توڑنے کا ارادہ رکھتے ہیںکہ یہاں سے بھاگے۔

ان کی ایک عظیم خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے اکابر اور اصاغر کا پور اقدر کرتے ہیں اور ان کے بارے محتاط رہتے ہیں ۔ اگر کوئی ان کے خلاف برملا کچھ کہے بھی تو وہ برا نہیں مناتے ہیں اور نازیبا الفاظ کے استعمال پر بھی مسکت رہتے ہیں۔ ہمارے بعض احباب کی تقریر و تحریر اور نجی مجلسیں اس وقت تک مکمل نہیں ہوتیں ہیں جب تک ان کے خلاف ہرزہ سرائی نہ کی جائے مگر مولانا باخبر ہونے کے باوجود اپنی روایتی مسکراہٹ سے ٹال دیتے ہیں۔ مولانا کے دوسرے جماعتی ذمہ داروں اور کار پردازوں کو ان کی اس ادا سے سیکھنا چاہیے۔ وہ دنیا بھر کے لیے وسعت ظرفی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں مگراپنے ہی ہم عقاید و ہم پیالہ و مکتب لوگوں کے لیے سخت جاں بن جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو اکابر پر بھی زبا نیں دراز کرتے ہیںجو یقینا سیاسی اکٹیویٹیز رکھنے والوں کو زیبا نہیں۔

بہر صورت مولانا فضل الرحمان ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ بے خطا خدا کی ذات ہے، ان میں غیرمتوسط اور غیر معتدل رویوں میں اعتدال اور توازن پید اکرنے کی صلاحتیں بدرجہ اتم پائی جاتیں ہیں۔ ابن خلدون اور شاہ ولی اللہ کی رہنمایان قوم وملت کے حوالے سے بیان کردہ اکثر اوصاف پر و ہ پورا اترتے ہیں ۔ ان کے پاس پورے ملک میں عوام کا ایک جم غفیر ہے مگر افسوس کہ منظم نہیں، ان کی میڈیا پاور اور شعبہ ابلاغیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ جمیعت علمائے اسلام، علمائے دیوبند کی سب سے بڑی نمائندہ سیاسی جماعت سمجھی جاتی ہے۔ اس کے کا ر پردازوں کو اپنی بکھری ہوئی افرادی قوت اور شعبہ ابلاغیات پر مستقل بنیادوں پر از سر نو ورک کرنے کی ضرورت ہے، کاش! ہماری یہ امیدیں بھر آئیں۔

علم سیاسیات وپاکستانی سیاست اورمذہبی مکتبہ فکر کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ عرض کرنے میں حق بجانب ہوں کہ علماء کرام کو سیاست کے غلیظ ڈھیر سے پہلو تہی کرنے کے بجائے خذ ما صفا ودع ما کدر کے طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہیے اور ممکن حد تک اس گندگی کو پاک وصاف کرنا چاہیے، کیونکہ تعلیمات خداوندی میں معاشرتی میل ملاپ کی تلقین ہے اورر ہبانیت سے گریز۔ معترض احباب سے گزارش ہے کہ وہ بات کی تہ تک پہنچنے کے لیے ڈاکٹرمحمد حمیداللہ کی کتاب رسول اکرم کی سیاسی زندگی اور سید مناظر احسن گیلانی کی کتاب امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی کا عمیق مطالعہ کریں، ہاں آئین پاکستان کا ٹیکسٹ کو بھی بغور پڑھناہوگا۔اپنی کم علمی اور علمی بے مائیگی کا برملا اعتراف کے ساتھ یہ کہنے کا بھر پور حق رکھتا ہوں کہ اسلامی دنیا میں آئین پاکستان جیسامضبوط دوسرا کوئی آئین نہیں ہے، اس میں واضح طور پر لکھا ہواہے کہ کوئی قانون قرآن کے متصادم نہیں بنایا جائے گا۔ اسی آئین کو عملی شکل دینے کے لیے اوکسفرڈ اور ہاروڈ یونیورسٹی کے خوشہ چینوں کو نہیںمدارس اسلامیہ کے تربیت یافتوں اور مشرقی اقدار اور اسلامی علوم کے ماہرین کو کردار اداکرناہوگا، سو اس کے لیے علماء حق کے صفوں کومضبوط کیاجائے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Amir jan haqqani
About the Author: Amir jan haqqani Read More Articles by Amir jan haqqani: 443 Articles with 383484 views Amir jan Haqqani, Lecturer Degree College Gilgit, columnist Daily k,2 and pamirtime, Daily Salam, Daily bang-sahar, Daily Mahasib.

EDITOR: Monthly
.. View More