ماہر عمرانیا ت علامہ ابن خلدون ؒ

مختصر حالات زندگی :
نام ونسب:
ابو زید ولی الدین عبدالرحمن بن ابی بکر محمد بن ابی عبداﷲ ،بن محمد ،بن الحسن ،بن محمد ،بن ابن جعفر ،بن محمد ،بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن خلدون ہے ۔

﴿ خلدون کہنے کی وجہ تسمیہ ﴾
مولانا حنیف ندوی لکھتے ہیں ’’خلدون دراصل خالد کی بدلی ہوئی صورت ہے ،خالد عربی علم التصریف کی رو سے خلدون کے عجیب وغریب قالب میں کیونکر ڈھلا اس کی اہل علم نے دوتوجیہیں بیان کی ہیں ۔
۱۔جو خاندان اندلس میں آباد ہوگئے تھے ان کی یہ عادت تھی کہ اپنے سلسلہ آباؤ اجداد میں سے نسبتا کم معروف شخص کو چن لیتے اور اس کے نام کے آخرمیں واؤ نون کا لاحقہ بڑھادیتے ،تاکہ ان میں اور یہاں کے اصلی خاندانوں میں ایک طرح کا امتیاز پیدا ہوجائے جیسے حفصون ،بدرون اورعبدون وغیرہ ،اصل میں یہ حفص ،بدر اور عبد تھے ۔

۲۔واؤنون کا یہ اضافہ ہسپانوی زبا ن میں تکبیر کی غرض سے ہوتاہے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ خلدون سے مراد خالد اکبر ہے اور حفص ،بدر ،اور عبد،علی الترتیب حفص اعظم ،بدراعظم ،اور عبداعظم کے متراد ف ہیں ۔(۱)

﴿ابن خلدون کی پیدائش اور ابتدائی تعلیم﴾
ابن خلدون 732؁ ھ بمطابق 1334؁ ء کو تیونس میں پیدا ہوا اور یہیں اس نے تعلیم پائی اس کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اس زمانے کے مجوزہ نصاب پر پورا پورا عبور حاصل کرلیاتھا ،پہلے قرآن حفظ کیا اور اس کو ساتوں قرات کے ساتھ پڑھا ،پھرمروجہ علوم یعنی تفسیر،حدیث ،فقہ ،علم کلام ،نحو ریاضی ،فلسفہ اور منطق کی تحصیل کی ابھی اس کی تعلیم جاری تھی اور اس کی عمر سترہ سال تھی کہ جب تیونس شہر میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی جس میں اس کے والدین اور اکثر اساتذہ کا انتقال ہوگیا ،اس حادثے کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔(۲)

﴿ارباب اقتدا رتک رسائی ﴾
والدین کے انتقال کے بعد اس نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ وہ اپنے خاندان کی روایات کے مطابق جاہ ومنصب کی بلندیوں تک کیسے پہنچ سکتا ہے ،خوش قسمتی سے اس کے مرحوم والد کے دوستوں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور اسے خاندان حفصیہ کے تاجدار سلطان ابو اسحاق ثانی ،والی تیونس کے دربار میں ایک کاتب کی حیثیت سے ملازمت مل گئی ،لیکن اسے یہ ملازمت دل سے کبھی پسند نہ تھی ،ایک تو اس وجہ سے کہ وہ مزید ترقی کا آرزو مند تھا ،دوسرے اسے ہروقت یہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ چونکہ تیونس کی حکومت کمزور ہے اور مراکش کی حکومت زیادہ طاقتور ہے اس لیے مراکش کسی بھی وقت تیونس پر حملہ کردے گا ۔والی تیونس سلطان ابو اسحاق ثانی نے مراکش کے امیر ابو زید کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر بھیجا ،ابن خلدو ن اس نیت سے لشکر میں شامل ہوگیا کہ تیونس سے بھاگ جانے کا سنہری موقعہ ہے اور پھر مراکش جاکر بہتر ملازمت کا بندوبست ہوسکے گا ،بدقسمتی سے تیونس کے لشکر کو شکست ہوئی اورابن خلدون کا ناچار ایک گاؤں میں پناہ لینی پڑی ،اس کے بعد وہ عرصے تک ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک ،چوری چھپے سفر کرتا رہا ،یہاں تک کہ مراکش کے سلطان ابو عنان کے کان میں اس کی آمد کی بھنک پڑ ی ،اور اس نے اسے بلایا ،مراکش کے دارالحکومت فاس پہنچ کر ،شروع شروع میں اسے درباری علماء کے گروہ میں شامل ہونا پڑا ،پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد اسے پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز کردیا گیا ۔

بعدازاں ایسے حالات ہوئے کہ ابن خلدون کو جیل میں جانا پڑا اور کچھ عرصہ کے بعد رہائی مل گئی ،زمانے نے کروٹیں بدلیں ، ابن خلدون نے ،غرناطہ ،بجایہ ،افریقہ میں کچھ وقت گزار ا (اس عرصہ میں اس نے مختلف حکمرانوں کا قرب حاصل کیا )لیکن اس کی زندگی مسلسل آلام ومصائب میں گزر رہی تھی(۳)،پھر جونہی اس نے ان مصائب سے چھٹکارا پایا اس نے پہلی فرصت میں 1374؁ ء میں اندلس کاسفر کیا اندلس کے سلطان ابن الاحمر نے سے ہاتھوں ہاتھ لیا لیکن پھر کسی وجہ سے ناراض ہوکر مجبور کیاکہ اندلس کی بجائے افریقہ چلاجائے ۔افریقہ میں اسے تلسمان کے سلطان ابو حمو سے سابقہ پڑا ،ابو حمو اگرچہ اس کی سابقہ وفاداری سے مطمئن نہ تھا ،تاہم اس نے معاف کردیا اور پھر اس پہلی خدمت پر لگا دیا کہ سرکش قبائل کو اپنی شخصیت ،اثر رسوخ ،قابلیت ،اور تدبر سے اس کی اطاعت پر مجبور کرے ۔
﴿مقدمہ ابن خلدون کا آغاز ﴾

ابن خلدوں پر سیاسی انقلابات کایہ اثر ہوا کہ اس نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور قلعہ ابن سلامہ چلاگیا اور یہ طے کیا کہ اب وہ اپنے بال بچوں میں ہی رہ کر تعلیم وتدریس کے فرائض سرانجام دے گا یہیں اس نے ’’مقدمہ ‘‘ایسی لافانی کتا ب لکھنی کتاب لکھنا شروع کی اور اپنی مشہور تاریخ کے معتد ابواب کی تکمیل کی اور 1378؁ ء تک وہیں مقیم رہا ۔

اس کی پہلی زندگی اس انداز سے گزری تھی کہ یہ جہاں بھی جاتا ،خواص اس کو شک کی نظر سے دیکھتے اور ڈرتے رہتے کہ ایسا نہ ہوکہ اس کی شخصیت او ر حد سے زیادہ مقبولیت کہیں ان کے اقتدار کو خطر ے میں نہ ڈال دے اس لیے پہلے دن سے حسدورقابت کی جذبے ابھر نے شروع ہوجاتے ،جو بالآخر دشمنی پر منتج ہوتے اور اچھی خاصی لڑائی کی نوبت آتی ۔(۴)

﴿سفر حج ﴾
دسمبر 1382؁ ء میں وہ حج کے لیے روانہ ہوا لیکن راستے میں اسکندرہ اور قاہرہ میں رک گیا ،چونکہ یہاں اس کی شہرت پہلے ہی پہنچ چکی تھی اس لیے جامعہ ازہر کے طلبہ نے اصرار کیا کہ یہ انہیں اپنے علمی معارف سے بہرہ مند کرے اس نے خدمت کو قبول کرلیا اور ایک عرصے تک ان کو فقہ مالکی پڑھائی ،سلطان ملک الظاہر برقوق کو جب اس کی فقہی صلاحیت کا علم ہوا تواس نے فقہ مالکی کی قضا کا منصب اس کے سپرد کیا جس کو اس نے بڑی لیاقت سے نبھایا ۔ اس اثناء میں ابن خلدون کو بہت بڑ ے صدمے سے دوچار ہونا پڑا اسے خبر ملی کہ اس کے بیوی بچے جو تیونس سے اس کے پاس آرہے تھے ،اچانک سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئے ہیں اس پر اس کے منہ سے یہ تاریخی جملہ نکلا:۔فقدت بذالک المال والسعادۃ والبنین’’اس حادثے سے میں مال ،خوش بختی اور اولاد سب سے محروم ہوگیا ہوں‘‘

اس سے اس کے بے اندازہ صبر اور بے نظیرتحمل کا انداز ہ ہوتاہے ،لیکن مورخ ڈاکٹر طہ حسین کا کہناہے کہ اس جملے سے ایک طرح کی خشکی اور یبوست ظاہر ہوتی ہے اور یہ گمان ہوتاہے کہ شاید مصیبت اور ابتلانے اس کا دل سخت کردیا تھا ۔اس کے برعکس مولانا محمد حنیف ندوی لکھتے ہیں ’’لیکن ڈاکٹر طہ حسین کا یہ اجتہاد انسانی فطرت سے ناآشنائی پر مبنی ہے ،ابن خلدون ایسا زیرک اور حکیم ودانا انسان جب اپنے غم واندوہ کا اظہار کرے تو ظاہر ہے کہ اس میں وہ عامیانہ پن نہیں ہوسکتا جو دوسروں میں پایا جاتاہے اس کے سماجی رتبے ،ذہنی افق او رپندار انفرادیت کو ذہن میں رکھیے ،اور پھر یہ دیکھیے کہ اس جملے میں کتنا غم اور اور کتنا اثر اور گداز پنہاں ہے‘‘(۵)

اس واقعے سے فی الحقیقت ابن خلدون پر گہرا اثر ہوا ،اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ اس کے فورا بعد اس نے 1387؁ ء میں فریضہ حج ادا کیا ،اور مکہ معظمہ ومدینہ منورہ میں تسکین قلب کا سامان بہم پہنچایا ،مناسک حج سے فارغ ہونے کے بعد مئی 1388؁ ء میں وہ قاہرہ واپس آگیا ،1389؁ ء سے وہ پھر مالکی قاضی القضاۃ بنایا گیا ۔

﴿وفات ﴾
ابن خلدون نے1406؁ ء میں 74سال کی عمر میں وفات پائی اور اسے قاہر ہ کے قبرستان میں دفن کیاگیا لیکن زمانے کی دست برد سے اس کی قبر کا نشان تک مٹ گیا ۔

﴿ابن خلدون کی تصانیف ﴾
ابن خلدون نے بہت سے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور مختلف علوم وفنون کے متعلق اس کی چھوٹی چھوٹی کتابیں کچھ مدت تک مقبول رہیں ،لیکن ایک عرصہ دراز سے فراموش ہوچکی ہیں ،اس کی شہرت کی بڑی وجہ اس کی تاریخ ’’العبر‘‘ ہے اور خصوصا اس کے پہلے حصہ پر مبنی ہے جو عام طور پر ’’مقدمہ ‘‘ کے نام سے مشہور ہے ۔

اس کی تاریخ کا پورا نام ’’کتا ب العبر ودیوان المبتدا والخبر فی ایام العرب والعجم والبربر ومن عاصرھم من ذوی السلطان الاکبر ‘‘ ہے اور بتفصیل ذیل ایک دیباچہ ،ایک مقدمہ اورتین کتب یعنی تین حصوں پر مشتمل ہے ۔
دیباچہ میں مصنف علام نے اپنی تصنیف کا مقصد بیان کیا ہے اور بتلایا ہے کہ تاریخ ایک نہایت دلچسپ اور ہردلعزیز مضمون ہے وہ ایک مستقل علم ہے اور حکمت و فلسفہ کی ایک شاخ ہے ۔

مقدمہ میں علم تاریخ کے موضوع ،اس کی فضیلت ،اور فوائد پر بحث کی ہے اور تاریخ نگاری اور تاریخی تحقیق وتنقید کے اصول قائم کرکے قدیم مورخین کے اغلاط کی پردہ دری کی گئی ہے ۔

کتاب اول میں عمران عالم یعنی انسانی معاشرہ کے سبھی گوشوں یعنی اجتماعی ،تمدنی ،جغرافی ،اقتصادی ،علمی ،ادبی اور مذہبی پہلوؤں پر بڑی دقیق اور بصیرت افز ا بحث کی ہے ،یہی حصہ ہے جسے مذکورہ بالادو اجز ء یعنی دیباچہ اور مقدمہ کے ساتھ شامل کر کے عام طور پر ’’مقدمہ ابن خلدون ‘‘کہا جاتاہے اور جس کے فلسفیانہ اور پرحکمت مضامین نے ہرخاص وعا م سے خراج تحسین حاصل کرکے ابن خلدون کو بجاطور پر بانی فلسفہ تاریخ کالقب دلایاہے ۔

کتاب ثانی میں قبائل عرب کے اخبار وروایات مذکور ہیں اورعربوں نے زمانہ قدیم سے لے کر مصنف کے عہد تک جو سلطنتیں قائم کیں ،ان کا بیان ہے اس کے علاوہ دیگر نامور تاریخی قوموں مثلا ،اہل ایران ،بنواسرائیل ،یونانیوں ،رومیوں ،ترکو ں اورفرنگیوں کی تاریخ مرقوم ہے ۔

کتا ب ثالث اقوام بربر اور ان کے موالی اور ہمسایہ قبائل مثلا وناتہ وغیرہ کی تاریخ کے لیے مخصوص ہے نیز اس حصہ میں ان خاندانوں اور حکومتوں کی تاریخ بھی شامل ہے جو شمالی افریقہ میں قائم ہوئیں اس کی تاریخ کا یہ نہایت قابل قدر اور قیمتی حصہ ہے کیونکہ یہ ان ملکوں اور قومون سے متعلق ہے جن کے درمیان مصنف نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا تھا اور جن کے متعلق اس کے پاس کافی ذخیرہ معلومات موجود تھا اس حصہ میں اس نے جو کچھ لکھاہے بیشتر اپنی ذاتی واقفیت اور تحیقق کی بنا پر لکھاہے اسی لیے یہ حصہ شمالی افریقہ کی تاریخ کے نہایت اہم اور مستند مآخذ ومصادر میں شمار ہوتا ہے ۔(۶)

حوالہ جات:
(۱)دیکھیے افکار ابن خلدون ، محمد حنیف ندوی، مولانا
(۲)دیکھیے ،مقدمہ درمقدمہ ،الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور،طبع ستمبر ۲۰۰۸؁ ، صفحہ۳۴از،سید قاسم محمو د
(۳)مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ،مقدمہ در مقدمہ ،از سید قاسم محمود صفحہ ۴۴،۴۵
(۴)حیات ابن خلدون ،از عنایت اﷲ ،ڈاکٹر
(۵)دیکھیے مزید تفصیل ، مقدمہ درمقدمہ ،صفحہ ،۴۷از سید قاسم محمود،
افکار ابن خلدون ،ازحنیف ندوی،مولانا،،ابن خلدون امام عمرانیات ،از محمد لطفی جمعہ
(۶)مقدمہ درمقدمہ صفحہ۵۱،ابن خلدون امام عمرانیات ،از بشارت علی قریشی ،ڈاکٹر،تاریخ اور عمرانیات کاامام اول ،از ابو الخیرکشفی ،سید ،ڈاکٹر
Ghazi A.R.Qasmi
About the Author: Ghazi A.R.Qasmi Read More Articles by Ghazi A.R.Qasmi: 5 Articles with 21368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.