کشکول توڑ دیں- لامحدود سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے ۔

قدرتی وسائل ، جغرافیائی محلِ وقوع اور بیرونی کرنسیوں کے ذرائع آمدنی کے لحاظ سے پاکستان دائمی طور پر علاقے کا امیر ترین ملک ہے، اسلئے ملک کو کسی بیرونی ملک یا ادارے کے آگے سرمائے کے لئے ہاتھ پھیلانے یا عوام سے ٹیکس اور دیگر ہتھکنڈوں سے رقم وصول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حکومت کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ ملک کے لا محدود اثاثوں کی ضمانت پر جتنی ضرورت ہے اتنی کرنسی چھاپ کر اس سے ملک کو ترقی یافتہ فلاحی مملکت بنانا ہو گا۔ اس میں سب سے بڑا کردار حکومت کا ہوگا کہ تمام ترقیاتی اور فلاحی کام حکومت کے محکمے کرینگے (اسکے لیے اچھے طریقہ کار سے اچھی حکومت لانی ہوگی) ان کاموں میں پیداوار میں مشغول عوام کو پیداوار بڑھانے میں ہر طرح کی بلا سود مالی امداد دینا بھی شامل ھوگا تاکہ حکومت اور عوام مل کر ہر طرح کی خام اور Value Added پیداوار میں اتنا اضافہ کریں کہ بیرونی ممالک کے ساتھ تجارت میں ہمیشہ ہمارا ہاتھ اوپر رہے اور درآمدات کی کم سے کم ضرورت ہو۔ نیز سیاست سے اور شمالی ممالک کو گرم سمندر تک رسائی کی سہولت دینے سے، جس سے ان کے طویل راستے بھی مختصر ہونگے، حکومت کو بیرونی کرنسیوں کی اتنی آمدنی ہوگی جس سے ہمارےعوام کی حالت بہترین فلاحی مملکتوں کے عوام سے بھی بہتر ہو جائیگی، کیونکہ یہ بہترین فلاحی ممالک گردن گردن تک بین الاقوامی سودخوروں کے سودی قرضوں کی دلدل میں غرق ہیں(انہیں مسلسل جنگوں میں مبتلا رکھ کر مقروض بنایا جاتا ہے) جبکہ پاکستان میں سودی کاروبار حرام ہوگا (جلد یا بدیر) اور ہمارے سارے سودی قرضے مجوّزہ مالی اصلاحات کے بعد ادا کئے جاچکے ہونگے۔

اب رہا اسٹیٹ بینک کی سربراہی میں قائم انگریزوں کے زمانے کا سودی نظام، تو نئے انتظام کے تحت اسٹیٹ بینک ، بینکوں کے بینک کے بجائے پاکستان کا “مرکزی قومی خزانہ“ ہوگا۔ جسمیں نئی چھپنے والی کرنسی رکھی جائے گی اور حکومت کےچیک سے نکالی جائے گی اور حکومت کو ترقّیاتی کاموں سے ہونے والی آمدنی اسمیں داخل کی جائیگی۔ جیسے جیسے ترقیاتی کاموں سے ہونے والی آمدنی بڑھتی جائےگی، ویسے ویسے نئے کرنسی نوٹوں کی چھپائی کم ہوتی جائیگی۔ بوسیدہ کرنسی نوٹ جلا کر ان کی جگہ نئے کرنسی نوٹ دینے کا کام بہر حال جاری رہیگا۔

اب رہے غیر مسلموں کے پرائیویٹ بینک، تو اُن سے کہ دیا جائیگا کہ اگر وہ اپنے سرمائے اور غیرمسلموں کے ڈپازٹس (Deposits) سے سودی کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو بیشک کریں ، مسلمانوں کو سودی کاروبار کرنے والے بینکوں میں ڈپازٹ رکھنے یا اُن سے سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وہ اپنی بچت اور مالی ترسیلات کے لئے ڈاکخانوں سے کام لے سکتے ہیں۔ بچت بلاسود/بلا چارج رکھی جائیگی۔ ترسیلات کے لئے معمولی چارج کیا جائے گا۔

بیرونی تجارت کے لئے یہ کیا جاسکتا ہے کہ بڑے بڑے تاجر انگریزوں کی ‘ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی طرح بیرونی ملکوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں(مراکز) کھولیں اور اپنا مال وہاں لے جا کر فروخت کریں اور حاصل شدہ رقم سے درآمدات اپنے ملک میں بھیجیں۔ اسکے لئے پاکستان کو ‘ تجارتی بحری بیڑا‘ بنانا ہوگا۔ جو ایک اچھا ترقیاتی کام ہوگا، جس سے لوگوں کو روزگار بھی فراہم ہوگا۔ 
ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی : 38 Articles with 39096 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.