شیطانی نرغہ

ٹوٹی پھوٹی سڑک پر بگھی آگے بڑھ رہی تھی کارپیتھیا کا یہ علاقہ اپنے گھنے جنگلوں اورسبزہ زاروں کی وجہ سے سیاحوں کے لیے دلچسپی اور توجہ کا مرکزبنا ہوا تھالیکن اس علاقے میں ذرائع آمدروفت محدود تھے اسی لیے بہت کم لوگ یہاں کا رخ کرتے تھے گاڑی پتھریلی اور ناہموار سڑک پر بری طرح ہل رہی تھی ۔
باہر شام کےسائے گہرے ہورہےتھے ا گر ان لوگوں کو راستے کی خرابی اور اپنی تھکن کا علم ہوتا اس علاقے میں آنے کی بجائے اپنی چھٹیاں ویانا میں ہی گزار لیتے لیکن اب اوکھلی میں سردیا تھا تو موسلوں سے گھبرا نالا حاصل تھا ۔بہرحال یہ سب کیا دھر ا چارلس کاتھا جس کے اصرار پران لوگوں کو یہا ں آناپڑتا تھا ۔

ان کی ہڈیاں بری طرح دکھ رہی تھی ان کے جوڑجوڑ میں دردکی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہےتھےکہ خدایایہ سفر جلدی ختم ہوتا کہ وہ کچھ دیر آرام کرسکیں اور تازہ دم ہوجائیں تاریکی بڑھ رہی تھی اور یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی تھی کہ اس تاریکی میں کو چبان کو راستہ صاف نظر آرہا ہوگا۔ چندلمحوں بعد بھگی کے رکنے کی آواز آئی اور اندر بیٹھے ہوئے مسافرانجانے خوف اور وسوسوں میں گھرگئے،وہ سوچ رہے تھے کہ کہیں وہ راستہ تو نہيں کھوبیٹھے تھے،ان جنگلوں ميں گم تو نہیں ہوگئے تھے، کوچبان کودکرنیچےاتر ا اوردروازہ کھول دیا دن بھر کی صبر آزمامسا‌فت تھکن کےبلاآخر انہیں آرام وطعام کی سہولت میسر آگئ مہمانوں کا کمرہ اجنبی مسافروں کا منتظر تھا یہ سرائے چھوٹی تھی لیکن سرائے کا مالک اپنے برطانوں کو خوش کرنے کے لیے پوری تندہی سے مصروف کار نظرآنے لگا گرم بانی تیار کیا ہے اور جتنی دیر برطانوں سیاح نہادھو کر تازہ دم ہوےکھانالگایاجاچکاتھا ۔

کھانےسے فارغ ہو کر یہ لوگ آتش دان کے گرد اکٹھےہو گئے اورقہوے کا دور چلنے لگا سب لوگ گل مل کر باتیں کرنے میں مصروف تھے -

تمباکو کی مہک اور قہوے کی تیز خوشبو نے مل جل کر سرائے پر ایک خوابناک ماحول طاری کردیاتھا۔یورپ کے اس تفریحی دورے کا پروگرام چارلیس کینٹ نےبنایاتھا۔وہ ہمیشہ سے ایڈونچر اور سیر وتفریح کا دلد ادہ تھااور نت نئے تفریحی پروگرام بنانا اس کا دلچسپ اور محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اس نے سرائے کے مالک کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی جرمن میں گفتگو شروع کردی اور دوستی کرلی ۔ سرائے میں موجود چند اور لوگوں کو انپے برطانوی مہمان سے بات چیت کر نا گوار نہیں تھا ۔پھر بھی جب چارلس نے انہیں قہوہ پینے کی دعوت دی تووہ زیرلب مسکرائے اورپھر گٹکنے لگے۔کچھ لوگ پائپ پی رہے تھے اور اس گہماگہمی میں بظاہر بڑی بے نیازی سے شامل نظر آتےتھے وہ لوگ جواکھینے میں مصروف ہوگئے چارلس نے سکہ دوبارہ اچھا لا اور دونوں بار جیت گیا۔ دوسرے لوگوں میں بھنھنا ہٹ سی ہونے لگی لیکن چارلس نے ماحول کی کشیدگی کے پیش نظر تقربیا ہر شخص کو شراب پلانے کی پیش کش کی اور ماحول پر سے پر سکون ہوگیا ۔

اہیلن کو یہ سب اچھا نہیں لگا ۔یہی نہیں بلکہ چارلس کے بڑے بھائی ایلن نے بھی اپنی رائے محفوظ رکھی اور کسی قسم کا کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔ بہر حال ایلن مسکراتے ہوئے یہ سب کھیل دیکھ رہا تھا۔چارلس نے بمشکل تمام ایلن اور اس کی بیوی ہیلن کو اس مہم پر آنے کے لیے رضا مند کیا تھا ۔ان دونوں بھائیوں کو ورثے میں تھوڑی سی جائیدادملی تھی ۔چارلس بابر بعیش کوش والے مقوے پر عمل پیراتھا اور زندگی میں اچھی اچھی چیزوں تفریحات اور عیاشیوں کا قائل تھا اس کے بر عکس ایلن کو اپنی بیوی ہیلن کا ساتھ دینا پڑتا تھا جو کنجوس تو نہیں تھی لیکن کفایت شعار ضرورتھی اسی لیے ایلن نے اپنی جائیداد کا کچھ حصہ ایک کاروبار میں لگا رکھاتھااور اپنی سیاسی اور معاشی حالت خاصی مستحکم کرلی تھی۔وہ چارلس کی طرح نئی نئی دلچسپیوں اور ایڈونچرز کی تلاش میں کو شاں نہیں رہتا تھا ۔ایلن کی شادی کو سات آٹھ برس گزرچکے تھے لیکن اس کی بیوی ہیلن اب بھی پہلے کی طرح شاداب اور شگفتہ شگفتہ نظر آتی تھی ۔ہیلن تیس برس کی ہو چکی تھی اس کی جلد شفاف اوربے داغ تھی وہ اپنے بال بہت کس کے باندھا کرتی تھی اس کے باوجوداس چہرے کی معصومیت میں کمی نہیں آتی تھی وہ اپنے پتلےپتلے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا کر چوستی رہتی تھی چارلس اور ایلن نے کئی باراسےایسا کرنے سے منع بھی کیاتھا لیکن اب یہ چیز ہیلن کی عادت بن چکی تھی ۔
جاری ہے )
Amin Siddiq
About the Author: Amin Siddiq Read More Articles by Amin Siddiq: 3 Articles with 3364 views there is nothing spacial about me except i love those people who show mercy & kindness to the suffering humanity... View More