دنیا کا پہلا تربیت یافتہ معذور فٹ بال کوچ

پروفیشنل اسپورٹس کی دنیا میں داخلے کے لیے کھلاڑی کی اچھی صحت اور فٹنس لازمی شرط ہے۔ لیکن، سہیل رحمان ایک ایسا نوجوان ہے جس نے پیروں کی معذوری کے باوجود خود کو کھیل کی دنیا سے کبھی الگ نہیں رکھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب جسمانی معذوری اس کے شوق کی راہ میں رکاوٹ بننے لگی تو اس نے ہمت، محنت اور سچے جذبے سے اپنی تقدیر کا رخ دوبارہ کھیلوں کی دنیا کی جانب موڑ لیا جو ہمیشہ سے اس کی منزل تھی۔

وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ سے تعلق رکھنے والا سہیل رحمان دنیا کا پہلا تربیت یافتہ معذور فٹ بال کوچ ہے جو وہیل چئیر تک محدود ہونے کے باوجود جسمانی طور پر فٹ نوجوانوں کی فٹ بال ٹیم کے لیے کوچنگ کے فرائض انجام دے رہا ہے۔
 

image


اکیس سالہ سہیل رحمان 'سنڈے لیگ ٹیم' کا کوچ بننا اپنی کامیابی کی پہلی سیڑھی مانتے ہیں، جن کی نظروں نے بہت اونچے خواب سجا رکھے ہیں۔

وہ خود کو 'مانچسٹر یونائٹیڈ' جیسی بڑی اور پروفیشنل ٹیم کا کوچ بنتا دیکھنا چاہتے ہیں اور انھیں اپنا خواب اس وقت حقیقت سے قریب تر نظر آنے لگا، جب مانچسٹر یونائٹیڈ ٹیم کے سابقہ منیجر سر الیکس فرگوسن نے انھیں فٹ بال کا تربیت یافتہ کوچ بننے پر مبارکباد کا خط لکھا اور مستقبل کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی۔ سہیل کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی جس کے بعد اس نے فٹ بال کا فل ٹائم کوچ بنانے کے لیے محنت شروع کر دی۔

یورک شائر کے مقامی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق، سہیل رحمان فٹ بال کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق رکھتا تھا۔

لیکن، پیدائشی طور پر ریڑھ کی ہڈی کے پٹھوں (Atrophy) کی معذوری سے دوچار تھا۔ اس موروثی بیماری میں جسم کے پٹھے ناتواں ہوجاتے ہیں جس سے جسمانی نقل و حرکت بتدریج کم ہوتی جاتی ہے۔

فٹ بال کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے والا سہیل اپنی بیماری کی وجہ سے بچپن سے اپنے پیروں کے پنجوں کی انگلیوں پر چلا کرتا تھا۔

اس کے باوجود، وہ مقامی فٹ بال ٹیم اور اسکول کی ٹیم کی طرف سے فٹ بال کھیلا کرتا تھا۔ لیکن، اس وقت بیماری سہیل کو فٹ بال کھیلنے کے جنون سے دور نہیں لےجا سکی۔

سہیل نے کہا کہ ،''13 سال کی عمر میں مجھے اپنی زندگی کی سب سے بری خبر سنائی گئی۔ڈاکٹر نے بتایا کہ آئندہ دو برسوں میں میری بیماری مجھے مکمل طور پر وہیل چئیر کا محتاج بنا دے گی اور میرا اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔ مجھ سے میری زندگی کا مقصد چھن گیا تھا۔

’لیکن، میں نے اپنی زندگی کو ایک نیا مقصد دیا اور سوچ لیا کہ اگرچہ فٹ بال کھیلنا میرا مقدر نہیں ہے۔ لیکن، میں اپنی معلومات کو اسی شعبے میں آزما سکتا ہوں۔‘'

اور جب میں لیڈز کالج میں آئی ٹی کی تعلیم مکمل کر رہا تھا تو ایک روز فٹ بال کے ٹیچر سے اپنے شوق کا اظہار کیا، جنھوں نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں چاہوں تو ان کے ایک 6 ہفتے کے فٹ بال کلب کے ساتھ رہ سکتا ہوں اور اسی دوران انھوں نے مجھے فٹ بال کوچنگ کورس میں داخلہ لینے کا مشورہ دیا۔

16برس کی عمر میں سہیل نے فٹ بال کوچنگ کا پہلا بیج مکمل کر لیا اور رضاکارانہ طور پر مانچسٹر یونائیٹیڈ اسپورٹرز کی ایک معذوروں کی ٹیم کے لیے کوچنگ شروع کی اور جس کے بعد سہیل نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
 

image

ابتداء میں سہیل نے 10 برس سے کم عمر بچوں کی مقامی فٹ بال ٹیم کو تربیت دینی شروع کی۔ اسی دوران سہیل نے فٹ بال کوچنگ کے مزید بیجز 2 اور 3 بھی مکمل کر لئے۔

آخر کار اسپورٹس ٹیکنالوجی کی تعلیم، اسکول کے زمانے میں فٹ بال گراؤنڈ پر گزارا ہوا وقت اور کوچنگ کے تجربے نے سہیل کو اس مقام تک پہنچا دیا، جب انھیں پہلی بار جسمانی طور پر فٹ نوجوانوں کی سنڈے لیگ ٹیم کے لیے کوچنگ کا موقع حاصل ہو گیا۔

سہیل نے بتایا کہ، 'ایک روز، ایک بچے نے مجھ سے سوال کیا کہ جب آپ فٹ بال کو کک نہیں مار سکتے، تو آپ کو کیسا لگتا ہے؟ میں نے اسے پوری خوشدلی سے جواب میں کہا کہ اگر میں فٹ بال کو کک نہیں مار سکتا ہوں تو کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی ہوں گے جو شاید فٹ بال کو دیکھنے کی حسرت رکھتے ہوں گے، اس لحاظ سے، میں بہت خوش قسمت ہوں ۔'

گزشتہ برس، سہیل نے ایک تنظیم ’کلاس آن گراس‘ کے نام سے بنائی ہے جس کے تحت بچوں کو دوستانہ ماحول میں فٹ بال کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم، انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی تنظیم وہیل چئیر پر بیٹھ کر کھیلنے والوں کے لیے بھی ایک ٹیم بنا سکے۔

گزشتہ اتوار سہیل نے پہلی بار دنیا کے سامنے ویل چئیر پر بیٹھ کر جسمانی طور پر فٹ نوجوانوں کے ایک ٹورنامنٹ کی کوچنگ کے فرائض انجام دئیے،جہاں انھیں دیکھنے کے لیے لیڈز فٹ بال ٹیم کے بڑے بڑے کھلاڑی جمع ہوئے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

A wheelchair-bound football fan has become the world’s first disabled coach in the able-bodied game after receiving a letter of praise from Sir Alex Ferguson. Sohail Rehman, 21, was born with spinal muscular atrophy which left him struggled to walk a few steps, and by 13 he was in a wheelchair.