اسرائیل پریشان کیوں؟

ایران امریکہ اور عالمی طاقتوں کے باہمی معاہدے کے بارے میں اسرائیل نے بہت شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور اسرائیل سے اس قسم کے ردعمل کی توقع بھی کی جارہی تھی لیکن سوال یہ ہے کہ شدید ردعمل کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے بے چینی اور پریشانی کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے؟ اس وقت اسرائیل کی اسٹریٹیجیک صورتحال بہت اچھی ہے چنانچہ مصر میں دوسال سے جاری سیاسی عدم استحکام کے باوجود اسرائیل مصر معاہدے اپنی جگہ موجود ہیں، شام میں خانہ جنگی جاری ہے اور امید کی جارہی ہے کہ شام دہشت گردی کی کاروائیوں کے ایک مرکز میں تبدیل ہوجائے جس کی وجہ سے پھر اسرائیل کے لیے اسٹریٹیجیک تھریٹ نہیں رہے گا، لبنان میں حزب اللہ اسرائیل تنازعہ میں بھی کوئی تناؤ دیکھنے میں نہیں آرہا، رہ گیا اردن تو وہ شروع ہی سے اسرائیل کے حلیف ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اسرائیل کے حالات کیمپ دیوڈ معاہدے کے بعد کے حالات سے مشابہت رکھتے ہیں یعنی اسرائیل کو اپنی کسی بھی سرحد کی طرف سے خطرہ نہیں ہے حتی کہ فلسطینی گروہوں کی طرف سے بھی راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے کیونکہ وہ اسرائیل کے خلاف کسی انتفاضہ کو شروع کرنے کے بجائے آپس ہی میں دست و گریبان ہیں۔ ان تمام خطرات میں صرف ایک خطرہ باقی رہ جاتاہے اور وہ ہے ایٹمی پاور کی صورت میں ایران !

اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل کی پریشانی کی وجہ صرف ایران کا ایٹمی پروگرام نہیں ہے کیونکہ عالمی پابندیوں اور کڑی نظارت کی موجودگی میں ایران کا ایٹم بم بنانا تقریبا ناممکن ہے یہی وجہ ہے کہ امریکیوں کے نزدیک ایران کا سب سے بڑا مسئلہ اس کا ایٹمی پروگرام نہیں بلکہ خطے اور خاص طور پر مشرق وسطی میں بڑھتا ہوا اثر ورسوخ ہے۔ امریکہ خطے میں اپنے اپنے اتحادی ممالک کے کردار کو بڑھانے کے علاوہ تمام ممالک کے ساتھ ارتباط برقرار کرنا چاہتاہے تاکہ اس کا اثر رسوخ صرف سعودی عرب اور اسرائیل تک محدود نہ رہے۔

ایران کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے اسرائیل کی بے چینی اور پریشانی کی اصلی وجہ یہ ہے کہ اب وہ خطے میں امریکہ کے اکلوتے اسٹریٹیجیک پارٹنر کا رول ادا نہیں کرسکے گا بلکہ بہت سے ممالک خاص طور پر ایران کے ساتھ تعلقات بحال ہونے کی وجہ سے شاید اسرائیل کے ساتھ اس نوعیت کے تعلقات کی ضرورت ہی نہ رہے۔ اسرائیل کی دوسری پریشانی یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے دوران امریکہ میں یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی لابی کے اثرات امریکی سیاست پر کم ہوتے جارہے ہیں اور اب یہودی لابی امریکی سیاست پر اس طرح اثرانداز نہیں ہوپارہے ہے جس طرح ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ ہماری نظر میں یہی وہ دو بنیادی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایران امریکہ مذاکرات کے خلاف اسرائیل کی طرف سے صرف شدید ردعمل ہی نہیں بلکہ بے چینی اور پریشانی کا اظہار بھی کیا جارہاہے۔
A.B. Salman
About the Author: A.B. Salman Read More Articles by A.B. Salman: 16 Articles with 12101 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.