کم عمری کی شادیاں

شادی ایک ایسا بندھن ہے جس سے آپ اپنی بے ترتیب زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے بھی کہا جاتا ہے جن کے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی مگر یہاں اس بات کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے کہ کیا کسی گاڑی میں ایک کار اور دوسرا سائیکل کا پہیا چل سکتا ہے کسی بھی ذمہ داری کو نبھانے سے پہلے اور کسی کام کو انجام دینے کے لئے تیاری اور مہارت حاصل کرنا بنیادی شرط مانی جاتی ہے اور معلومات نہ ہونے کے باعث کوئی بھی کام بخوبی سرانجام نہیں دیا جاسکتا شادی اور مشترک زندگی کی بنیاد قائم کرنے کے لئے پہلے کافی معلومات ، تیاری اور مہارت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ کم عمری کی شادیوں کے سبب پہلے سے ا ٓمادہ اور تیارنہ ہونے کے باعث نہ صرف پاکستان مگر پوری دنیا میں کم عمر بچیاں زچگی کے دوران موت کا شکار بن رہی ہیںکم عمری کی شادی کسی بھی طرح کوئی نئی چیز نہیں ہے یہ سماجی طور پر قبول شدہ ایک رواج ہے جس پر نسلوں سے عمل ہورہا ہے ، یونیسیف کے رپورٹ کے مطابق دنیا میں سالانہ ایک کروڑ سے زائد لڑکیوں کی شادی 18 برس سے قبل کر دی جاتی ہے کم عمری میں شادی نہ صرف شرح اموات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے مگر وہ لڑکیاں دیگر مسائل سے بھی دوچار ہیں جن میں تعلیم مکمل نہ کرنا اور صحت کے مسائل بھی شامل ہیں اس بارے پلان انٹرنیشنل نامی ایک تنظیم نے اپنے رپورٹ میں بتایا ہے کہ دنیا میں 11 سے 15 سال کی چار کروڑ سے زائد لڑکیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیںان کی ایک وجہ ان کی کم عمری میں شادی بھی ہے دنیا میں اب بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج عام ہے کم عمری کی شادی جس نے لاکھوں بچوں کی معصومیت کو چھین لیا ہے انہیں غربت ، جہالت اور خراب صحت کے ساتھ زندگی گذارنے پر مجبورہونا پڑتا ہے کم عمری کی شادیاں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں دنیا میں ہر تین سیکنڈ بعد 18 سال سے کم عمر لڑکی کی شادی کی جاتی ہے اور ایک سال ایک کروڑ سے زائد کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی ہیں ایسی شادیوں میں لڑکیوں سے ان کی رضا مندی بھی نہیں پوچھی جاتی یونائٹڈ نیشن پاپولیشن فنڈکے رپورٹ کے مطابق نائجر میں 75فیصد ۔چاڈ 72 فیصد ۔بنگلادیش 66 فیصد۔گنی 63 فیصد بچیوں کی کم عمری میں ہی شادی کروا دی جاتی ہے۔ مالی 55فیصد یہ رپورٹ 2010 کی ہے جبکہ 2006 کی رپورٹ میں مالی میں 71 فیصد بچیاں 18 سال سے قبل بیاہ دی جاتی تھیں جبکہ موزمبیق ۔ملاوائی میں پچاس فیصد بچیاں 18 سال سے قبل ہی شادی کے بندہن میں بندہ جاتی ہیں اورانڈیا ۔زیمبیا ۔ایتھوپیا۔یوگینڈا۔نیپال۔سرالیون۔کیمرون۔نکاراگوا۔تنزانیہ ودیگر ممالک میں 18 سال سے کم عمر بچیوں میں شادی کا تناسب چالیس فیصد سے زائد ہے جبکہ پاکستان میں 2007 میں رپورٹ کئے کے اعداد شمار کے مطابق پاکستان میں 24 فیصد بچیاں 18 سال سے قبل ہی ناچاہتے ہوئے بھی شادی کے بندہن میں بندہ جاتی ہیں ایک اور رپورٹ کے مطابق انڈیا میں بہار وہ صوبا ہے جہاں 67 فیصد بچیوں کی شادیاں اٹھارہ سال سے کم عمر میں کی جاتی ہیں رٹگرزورلڈپاپولیشن فاﺅنڈیشن نے مختلف تنظیموں کی رپورٹ کے حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان کے صوبہ سندہ میں 72 فیصد بچیاں کم عمری میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں50 فیصد خواتین 19 سال کے عمر تک بیاہی گئیں اور 13 فیصد بچیوں کی شادی اس وقت ہوئی جب ان کی عمر 15 برس تھی کم عمری کی شادیدنیا کے اکثر ممالک میں ہوتی ہیں حالیہ دنوں میں سعودی عرب میں ایک نوے سالا بوڑھے شخص نے پندرہ سالا بچی سے شادی کی جوکہ کافی موضوع بحث رہا سعودی عرب میں ہزاروں بچیاںکم عمری میں عمر رسیدہ مردوں سے بیاہی جاتی ہیں اور رپورٹ بھی ہوتی رہتی ہیں ان میں کچھ تو پئسوں کے عیوض بھی بیاہی جاتی ہیں -

پاکستان میں 18 سے کم عمر بچیوں کی شادی کے اسباب جب جاننے کی کوشش کریں گے تو اس میں بہت سی وجوہات سامنے آئیں گی جن میں قانون پر عمل درآمد نہ ہونا ۔تعلیم کی کمی ۔غربت۔قبائلی اور سماجی رسم و رواج شامل ہیں جن میں (وٹہ سٹہ ) جائداد کے تنازعات شامل ہیں جبکہ سندہ میں ہندو بچیوں کا گھر سے نکل کر یا دیگر وجوہات کی بنا پر مذہب تبدیل کرکے شادی کے واقعات کے بعد ہندو خاندانوں میں اپنی بچیوں کے گھر ے نکل جانے کے خوف سکے باعث کم عمری میں شادی کا رجہان بڑہ رہا ہے ، پاکستان میں مسلم فیملی لاءآرڈیننس کے تحت شادی کے لئے لڑکی کی عمر کم از کم سولہ سال اور لڑکے کی عمر اٹھارہ سال ہونی چاہئے جبکہ لڑکے اور لڑکی کی رضامندی حاصل کرنا ضروری قرار دیا گیا تھا پاکستان نے بچوں کے حقوق کے اقوام متحدہ کے کنوینشن پر 1990 میں دستخط کئے تھے جس کے تحت بچپن کی شادیوں پر پابندی ہے عام طور پر پاکستان میں بچیوں کو اکثر اوقات تعلیم کے حصول میں رکاوٹ، صحت کے ناپید سہولیات اور قانونی حقوق کی عدم فراہمی ، کم عمری میں شادی جیسے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، کم عمری میں شادی سے بچی بنا کسی تربیت کے اچانک بالغ فرد کے حیثیت سے ذمے داریاں نبھانہ پڑتی ہیںجس کے لئے وہ تیار ہی نہیں ہوتی ہے جس کے باعث اُسے ذہنی صدمہ اٹھانہ پڑتا ہے مگرصرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ کئی ملکوں میں اب بھی کم عمر میں بچیوں کی شادی کا رواج موجود ہے کم عمری میں شادی سے جہاں بچیوں کو دیگر مسائل کا سامنا ہے ہیں ان کو کئی خطرات بھی لاحق ہیں جن میں سب سے بڑا خطرا ان کی زندگی کو ہے کم عمری کے باعث لڑکیان نہ صرف اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتیں بلکہ ان کے ہان کم وزن والے بچے جنم لیتے ہیں جوکہ ایک سال کی عمر کو پہچنے سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جب ایک نوعمر لڑکی حاملہ ہوتی ہے تو وہ خطرناک زچگی سمجھی جاتی ہے وہ لڑکی اور اس کا ہونے والا بچا اپنی غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک دوسرے سے مقابلہ کر سکتے ہیں جس کے باعث زچگی کے دوران یا اس سے قبل کمزوری کی وجہ سے ماں کی موت ہوجاتی ہے اور بچہ بھی موت کے منہ میں جاسکتا ہے کم عمری میں شادی وہ عمل ہے جس میں بچیوں کو خاموشی سے فروخت کردیا جاتا ہے اور وہ اپنے کم عمری میں شادی کے بعد جب حمل سے ہوتی ہیں تو ان کو کافی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کو زچگی کے دوران خوفناک زخم اور بیماریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں فسٹیولا بھی شامل ہے اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ پانچ ہزارشادی شدہ خواتین پیشاب کی نالی کی بیماری فسٹیولا کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں کم عمری میں شادی دی جانے والی بچیوں میں اس بیماری کی شرح بہت ذیادہ ہے کم عمری میں شادی کئے جانے والی لڑکیوں کا جسم اور ہڈیاں کمزور ہوتی ہیں جسم اور ہڈیوں کی مکمل نشونما سے پہلے اگر ان کے ہاں بچے پیدا ہوں تو ان کو فسٹولا کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے کم عمری میں شادی شدہ لڑکیاں جہاں دیگر مسائل یں گھرے ہوتے ہیں وہاں یہ بیماری ان کے لئے شدید پریشانی کا سبب بنتی ہے اکثر وبیشتر اس کے باعث لڑکی کو گھر سے بھی نکال دیا جاتا ہے ایک غیر سرکارتنظیم نے جائزوں میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان 2015 تک اقوام متحدہ کے زچگی کے شرع اموات میں کمی لانے کے احداف تک نہیں پہچ پائے گی اس ہدف کے تحت پاکستان کو زچگی کے دوران ہونے والی اموات میں ایک تہائی کمی لانا تھی پاکستان کے قانون کے مطابق شادی کے وقت لڑکی کی عمر 16 سال اور لڑکے کی عمر 18 سال ہونے چاہئے مگر اب یہ بات زور پکڑ رہا ہے اور قانون بناے پر زور دیا جارہا ہے کہ لڑکی کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال کی جائے اور اس قانون پر سختی سے عمل کرایا جائے قانون شکنی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کئے جائیں اور سزائیں لگائی جائیں تاکہ ان کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔
Sarwar Baloch
About the Author: Sarwar Baloch Read More Articles by Sarwar Baloch: 5 Articles with 3937 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.