آخر کب تک؟

۔"او کی ہویا نی کڑیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔

جیسے ہی اُس نے آنکھیں کھولی، اسٹریچر کے قریب کھڑے پولیس کے سپاہیوں میں سے ایک آگے بڑھ کر اُس پر قدرے جھکتے ہوئے بولا۔ مگر وہ اپنی خالی خالی آنکھوں کے بڑے بڑے ڈیلوں کو اِدھر اُدھر یوں گردش دے رہی تھی جیسے وہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ وہ ہے کہاں اور یہ جو اِس کے گرد گھیرا لگائے کھڑے ہیں، سب کون ہیں؟۔

۔"او کاکی تُوں دسدی کیُوں نئیں، آخر ہویا کی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔

سپاہی نے اپنی بات کا جواب نہ پا کر اس بار قدرے بلند آواز میں سوال کیا۔

اپنی آنکھوں کی گردش کرتی پتلیوں کو یک لخت روک کر وہ خالی خالی آنکھوں اور سپاٹ چہرے کے ساتھ سپاہی کو گھورنے لگی۔ چند لمحات تک یونہی دیکھتی رہی اور پھر لاتعلقی سے نگاہیں پھیر لیں جیسے نہ تو اِسے سوال سمجھ آیا ہو اور نہ ہی وہ خود اپنی یہاں موجودگی کا کوئی جواز ہی ڈھونڈ پائی ہو۔ اُس نے کسی نہ معلوم صدمہ کے سبب سوجھی اپنی بڑی بڑی آنکھیں جن میں تیرتی سُرخی کو باآسانی دیکھا جا سکتا تھا، بند کر کے اُنہیں بھینچ لیا۔ کچھ دیر یونہی بے جس و حرکت پڑی رہی پھر اچانک آنکھیں کھول کر چھت پر نصب ہلکی سی بے ڈھنگی رفتار سے چلتے پرانی وضح کے پنکھے کی طرف ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔ اُس کی آنکھوں کا خالی پن اب بھی یونہی عیاں تھا۔

اچانک اِس کی آنکھیں کسی اندرونی جذبے کے تحت یوں پھیلیں جیسے اُسے کچھ یاد آ رہا ہو اور پھر اُس کی آنکھوں کی پتلیاں سکڑ سی گئیں اور اُن میں زمانے بھر کا خوف جھلکنے لگا۔ اُس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں کے ڈیلوں کو گردش دے دے کر اِردگرد کھڑے لوگوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا جیسے وہ اُن میں سے کسی اپنے کو تلاش کر رہی ہو۔ اِس کوشش میں ناکام ہونے پر اُس کی موٹی موٹی دھشت ذدہ آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں اور وہ یک لخت اسٹریچر سے اٹھ کر بیٹھ گئی اور اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں چلاتی ہوئی زور سے چلائی:۔

۔"پینو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، شیداں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، سکینہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، صغراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔

کوئی جواب نہ پا کر اُس کی آنکھوں سے پُھوٹی وحشت، شدتِ جذبات سے سُرخ ہوتے چہرے پر ٹپکنے لگی۔ آنسو آنکھوں سے گر گر کر رُخسار کو بھگونے لگے۔ ہونٹ پہلے تو کسی مرغِ بسمل کی مانند پھڑکے لیکن اُس نے اُنہیں آپس میں یوں بھینچ لیا جیسے وہ اپنے لبوں سے کسی بھی لمحہ برآمد ہوتی آہ و زاریاں مُقفل کر دینا چاہتی ہو۔ لیکن اِس کوشش نے اُس کے دل و دماغ میں بپاء کشمکش کو اُس کے چہرے پر مذید عیاں کر دیا۔ اپنے ہونٹ اُس نے بھلے ہی بھینچ لئے ہوں لیکن اُس کی آنکھوں سمیت چہرے کا ایک ایک حصہ غم و الم کی شدت سے نوحا کناں تھا۔

اچانک وہ اٹھی اور تیزی سے اپنے اسٹریچر کے دائیں جانب ایک دوسرے سے لگ کر کھڑے تین چار سپاہیوں، جن کے عین عقب میں مذید کچھ اور اسٹریچروں کی جھلک نظر آ رہی تھی، کو دھکا دیتے ہوئے اُن کے درمیان سے گزر گئی۔ پہلے چار اسٹریچروں پر سر سے پاؤں تک سفید چادریں اوڑھے کوئی لیٹا ہوا تھا۔ اُس نے دوڑ کر تیزی سے ایک ایک چارد کو نوچ ڈالا۔ وہ چار نوجوان لڑکیوں کی نعشیں تھی۔ اُن کی گردن سے سر تک حائل سفید پٹیاں اور ناک کے دھانوں میں دھنسی روئی کے سفید پھاہے اِن کے مردہ ہونے کی تصدیق کر رہے تھے۔

اُن کے سفید کورے لٹھے جیسے چہرے دیکھ کر یک لحظہ جیسے اُس پر سکتہ سا طاری ہو گیا ہو۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ اپنے تن من کا ہوش گنوا کر اسٹریچروں کے درمیان دوڑتی ہوئی اُن چاروں نعشوں کو جنھجوڑ جنھجوڑ کر جگانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن مجال ہے کہ اُن چاروں اسٹریچروں پر پڑی نعشوں میں سے کسی ایک پر بھی اُس کی آہ و بکا اور جنھجوڑے جانے کا کوئی اثر پڑا ہو یا اُن کی حالتوں میں چنداں کوئی فرق آیا ہو۔

اُن نعشوں کو یونہی بےحس وحرکت پڑا دیکھ کر اُس کی چیخ و پکار اور آہ و زاریاں زور پکڑنے لگیں۔ اُس نے اپنے سر، چہرے اور سینے پر ہٹتھر مار مار کر زور زور سے روتے ہوئے بین کرنا شروع کر دیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھارئیں اور لبوں سے غم و الم میں ڈوبی چیخیں برآمد ہو رہی تھیں۔ وہ اپنے سامنے اسٹریچروں پر پڑی ایک ایک نعش کے پاس جا جا کر اُس کا نام لے لے کر پکار رہی تھی:۔

۔" پینو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، نی پنیو۔ ۔ ۔ ۔، مینوں وی اپنڑے نال لے چل نی"۔

۔"مینوں کلّم کلّی چھڈ کے کتھے ٹُر چلیں ایں توں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیداں"۔

۔"سکینہ توں تے کِیّہا سی کہ ابّا ساڈی ڈولیاں نیئں ٹور سکدا۔ ۔ ۔ ۔ ، تے اِسی آپے ای دریا وچ ٹُور جانٹرا سی"۔

۔"نی صغراں، تو تے ابّے دی سب توں لاڈلی دھی سی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ابا آکھے گا کہ ہائے او ربّا کتھے گئی جے، میری صغراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، وے دس نی تے میں اونُوں کی کیہواں گی

ہچکیوں کی شدت سے اُس سے بولا نہ جارہا تھا۔ ہر ہر لفظ کے بعد وہ کئی کئی طویل ہچکیاں لیتی۔

۔"ہن مینوں تے دسدی جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، میں کی کراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ابّا کیویں میرا ویاہ کراے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، اودھے کول تے ککھ وی نئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، تُسی ساریاں نے میرے نال دغا کیتا جے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، میں کیہنی آں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، مینوں وی اپنڑے نال لے چل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ساڈا غریب پیؤ کتّھوں میرے ویاہ لئی داج لیہاوے گا"

۔مسلسل رونے، آہ و زاری اور سینہ کوبی کرنے کے سبب اُس پر غش پر غش پڑنے لگے اور پھر یک لخت لہرائی اور فرش پر گر کر بے ہوش ہوگئی۔

۔"ناظرین۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، اِس وقت ہم یہاں لاہور سے 346 میل دُور صوبہِ پنجاب کے ضلح وہاڑی کی تحصیل میلسی کے گورنمینٹ ہسپتال کے ایمرجسی وارڈ میں موجود ہیں ۔ ابھی آپ سب نے اپنے ٹی وی اسکرینوں پر ہماری خصوصی بریکنگ نیوز میں جو دردناک مناظر براہ راست ملاحظہ کیئے ہیں وہ میلسی کے نواحی علاقے کی رہائشی بیس سالہ معصوم بچی کے تھے جس نے اپنی دیگر چار بہنوں کے ہمراہ مقامی نہر میں اِس لیے خودکشی کی نیت سے چھلانگ لگائی تھی کہ اِس کے غریب و مفلس باپ کے پاس اِن کی شادی کے لیے طلب کئے جانے والے جہیز کے پیسے نہ تھے۔ وہ لڑکے والوں کی طرف سے طلب کئے جانے والے بیش بہا جہیز کا بندوبست کرنے سے قاصر تھا۔ لہٰذا اِن کی شادیاں نہیں ہو پا رہی تھیں۔ اِس وجہ سے اِن کا بوڑھا باپ بے حد پریشان رہتا تھا۔ اپنے بوڑھے باپ کو اِس روز روز کی پریشانی میں گھلتا دیکھ کر اِن پانچوں بہنوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خودکشی کر کے اپنے باپ کو اِس پریشانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلوا دیں گی۔ گذشتہ رات یہ پانچوں بہنیں خود کو سیاہ چادروں میں لپیٹ کر رات کی تاریکی میں گھر سے نکل کر مقامی نہر پر اجتماعی خودکشی کی نیت سے پہنچیں اور نہر میں کود کر جان دیتے کی کوشش کی۔ نہر کا تیز بہاؤ اِن سب کو اپنے ساتھ کافی دور تک بہا کر لے گیا۔ وہاں موجود چند مقامی لوگوں نے اپنی جان پر کھیل کر اِنہیں بچانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن نہر میں پانی کے غیرمعمولی بہاؤ نے اُنہیں کامیاب نہ ہونے دیا۔ جب ان پانچوں کو نہر سے نکالا گیا تو اُس وقت تک چار بہنیں اپنی زندگی کی بازی ہار چکی تھیں جبکہ ایک بہن بشیراں کو اکھڑی اکھڑی سانسیں لیتا دیکھ کر فوری طور پر یہاں ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اُس کے پیٹ میں داخل ہونے والی پانی کو نکال کر اِس کی جان بچا لی"۔

اِن چاروں بہنوں کی لاشیں اور بچ جانے والی بہن کی آہ و بکا ہم سب اور ہمارے معاشرے سے یہ سوال کر رہی ہیں کہ آخر کب تک ہمارے معاشرے میں جہیز کا عفریت غریب والدین کے دن رات کا چین اور اُن کی معصوم و بےگناہ بیٹوں کی قربانی لیتا رہے گا۔

رپورٹر جلیل حسن، کمیرہ مین رفیق اختر کے ساتھ، آخر کب تک نیوز، میلسی"۔

۔"او کاکا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ او ے آخر کب تک نیوز۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلو جلدی سے وارڈ خالی کرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ویکھدے نیئں اے کاکی بےہوش ہوگئی اے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یہ ہسپتال ہے کوئی تمھارا ٹی وی سٹوڈیو نیئں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!" وہی سپاہی جس نے نذیراں کے ہوش میں آنے پر اُس سے سوال کیا تھا، رپورٹر کی جانب آتے ہوئے بولا۔

۔"شاہ جی، آپ کا بہت بہت شکریہ"۔ رپورٹر سپاہی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اُسے ایک کونے میں لے جاتے ہوئے سرگوشیانہ لہجے بولا: "شاہ جی آپ کی وجہ سے تو آج ہمارے ٹی وی چینل پر یہ نیوز سب سے پہلے بریک ہوئی ہے۔ اگر جو آپ مجھے فون کر کے وقوعے کی اطلاع دے کر وارڈ میں آنے کی اجازت نہ دیتے تو یہ بھلا یہ سب کچھ ممکن تھا؟۔ اتنا کہہ کر رپورٹر نے اپنی بند مٹھی سے سپاہی کے ہاتھ میں کچھ منتقل کردیا جیسے اِس نے فوراً اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے اپنی پتلون کی آگے والی جیب میں ڈال دیا۔

۔"اچھا اب تم سب لوگوں اپنا بوریا بستر یہاں سے سمیٹو۔ ہمیں ابھی اِس کاکی کے ابے کا بیان شیان وی لینا ہے۔ معلوم تو ہو کہ آخر اندر کی بات کیا تھی۔ ویسے یہ معاملہ اتنا سیدھا معلوم نہیں ہوتا جتنا نظر آ رہا ہے۔ ابھی تو اِس کے ابے سے ہمیں ان کے آشناؤں کے نام بھی تو اگلوانے ہیں"۔ سپاہی نے دھیرے سے اپنی آنکھ کو دبایا اور بڑے ہی مکروہ انداز میں اپنے دانت نکلتا ہوا بولا۔

۔"ہاں ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، کیوں نہیں کیوں نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر جو کچھ اندر کی بات ہاتھ لگ جائے تو آپ نے پہلے کی طرح ہمارے چینل کو نہیں بھُولنا۔ مجھے ہی فون کرنا ہے آپ نے۔ ویسے آپ کے پاس میرا موبائل نمبر تو ہیں نا؟ قسم اللہ کی ایسی رپورٹ چلاؤں گا اگر کاندھے پر افسرانِ بالا دو ایک پھُول لگانے پر مجبور نہ ہو جائیں تو بےشک میرا نام خلیل سے زلیل رکھ دینا"۔ رپورٹر نے بھی سپاہی کو آنکھ مار کر اپنے دانت نکلتے ہوئے کہا۔

اِسی وقت وارڈ میں نرس کی آواز گوبجی:۔ "ڈاکٹر صاحب، نذیراں کو ہوش آ رہا ہے"۔

نذیراں جسے بےہوش ہونے کے بعد پیرا میڈیک اسٹاف نے فرش سے اٹھا کر اِسٹریچر پر لیٹا دیا تھا۔ اپنی آنکھوں کو بیھنچ کر کسمسا رہی تھی۔ اِس کی یہ حالت دیکھ کر رپورٹر نے اپنی کمیرہ ٹیم تو اشارہ کیا۔ اِشارہ پاتے ہی کمیرہ اور لائٹ میں مستعد ہو گئے۔ لائٹ آن ہوتے ہی کمیرہ میں نے رپورٹر کو اشارہ کیا۔ اشارہ پاتے ہی رپورٹر ایک بار بڑے ہی غمناک انداز میں بولنے لگا:۔

۔"ناظرین! ایک بار پھر ہم آپ سے اُسی ہسپتال کے ایمرجنسی روم سے مخاطب ہیں جہاں کل رات کو وقوع پزیر ہونے والے دردناک واقعے جس نے سارے قصبے کی فضاء کو سوگوار بنا دیا ہے اور ہر صاحبِ اولاد اور صاحبِ دل کی آنکھیں اِشکبار ہیں۔ وہ پانچ بدنصیب بہنیں جن میں سے چار جان بحق ہوچکی ہیں اور واحد بچ جانے والی بہن نذیراں کو اب دھیرے دھیرے ہوش آ رہا ہے۔ آپ یہ درناک مناظر اپنی ٹی وی اسکرین پر براہ راست دیکھ رہیں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!"۔

یراں اپنی آنکھیں کھولے حسرت و یاس بھری نگاہوں سے چھت پر لگے پنکھے کو گھور رہی تھی۔
 

Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 50825 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.