گدھے کی آپ بیتی اور دورہ امریکہ

میں ایک لدو جانور ہوں۔ میرے آباؤاجداد کا تعلق افریقہ سے ہے۔ وہاں سے ہماری نسل نکل کر ساتوں براعظموں پر پھیل گئی۔ ہمیں انسان 5ہزار سال سے بوجھ لادنے، گاڑی کھینچنے اور سواری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہماری تعداد 4کروڑ ہے۔ چین میں ہماری تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہمارا دوسرا بڑا مسکن پاکستان ہے۔ گویا اس ملک میں کافی تعداد میں گدھے موجود ہیں۔ ہمیں اُردو میں گدھا، انگریزی میں ڈنکی، افریقن میں ایس، عربی میں حمار اور پنجابی میں کھوتا کہتے ہیں۔ یہ تو میرا عمومی تعارف تھا جب کہ میری ذاتی زندگی ایک مسلسل ٹریجڈی ہے۔ جب میں پیدا ہوا تو بہت خوبرو تھا اسی لیے اُردو محاورہ نے جنم لیا ’’گدھی بھی جوانی میں بھلی لگتی ہے‘‘۔ بچپن میں مجھے بڑے ناز و نعم سے پالا گیا۔ جب میں عالم شباب میں پہنچا تو میرا مالک مجھے بازار میں بیچ آیا۔ مجھے ایک سبزی فروش نے خرید کر ریڑھی کے آگے جوت دیا۔ وہ صبح سویرے مجھے گاڑی کے آگے رسیوں سے جکڑ دیتا اور دو ڈنڈے میری پیٹھ پر لگاتا اور میں چلنے لگتا۔ جب میں تھک کر آہستہ ہوجاتا ہوں تو مالک مجھے ڈنڈے مارتا ہے۔ ڈنڈوں کی تکلیف سے بچنے کے لئے میں اپنی رفتار تیز کردیتا ہوں۔ گویا ڈنڈا میرا ایکسلیٹر ہے۔ میرے منہ میں رسی باندھی ہوتی ہے جس سے میرا مالک سٹیئرنگ کا کام لیتا ہے۔ جب وہ داہنی رسی کھینچتا ہے تو میری باچھیں چھدنا شروع کردیتی ہیں۔ جس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور میں فوراً دائیں طرف مڑ جاتا ہوں اور رسی ڈھیلی ہو جانے سے میری تکلیف رفع ہوجاتی ہے۔ میں جب کبھی صنف نازک کی طرف دیکھتا ہوں اور اُس سے رسم و راہ بڑھانے لگتا ہوں تو میرا مالک لگامیں تان لیتا ہے اور میں اپنے ارمان دل میں رکھ کر سیدھا چلنا شروع کردیتا ہوں۔ سارا دن سبزی فروش آلو لو، پالک لو، مولی لو، گاجر لو کے آوازے لگاتا رہتا ہے۔ مگر مجھے کھانے کو باسی گھاس دیتا ہے۔ سرسبز اور تازہ سبزی کا بوجھ اٹھانا میرا مقدر ہے، میرا منہ ان کے ذائقے اور لذت سے محروم ہے۔ جب میں تھک کر احتجاج میں ہنہناتا ہوں تو لوگ لاحول واﷲ پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ گویا میری آزادی رائے کے حقوق بھی سلب ہیں۔ بھلا ہو امام دین گجراتی کا جس نے میری مدعا میں ایک شعر لکھا ہے۔
تعریف اُس خدا کی جس نے گدھا بنایا
کیا خوش نما بنایاء کیا خوش سرا بنایا

وگرنہ دیگر لوگ تو میری صرف عیب جوئی کرتے ہیں اور میرے اُوپر طرح طرح کے محاورے گھڑ رکھے ہیں۔ گدھا کیا جانے زعفران کی قدر، گدھا پیٹنے سے گھوڑا نہیں بنتا، گدھے پر کتابیں لادنا، گدھے کو آدمی بنانا، جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی ،کھوتی تھانیوں پھر آئی اے، If donkey bray at you, don't bray at him. ، Donkey's yearوغیرہ وغیرہ۔

روز مرہ زندگی میں جب کسی سے نفرت کا اظہار کرنا ہو تو اُسے گدھا یا کھوتا کہہ دیتے ہیں۔ نہ پھر کیوں لوگ مجھے ضرورت کے وقت باپ بنا لیتے ہیں۔

اے آدم زادو! ضرورت پڑنے پر مجھ سے بھرپور کام لیتے رہو اور ڈو مور، ڈومور کا ڈنڈوں سے درس دیتے ہو، مجھے اپنی ’’پسند‘‘ سے رسم راہ بڑھانے سے روکتے ہو، بات بات میں میری لگامیں کھینچتے ہو۔ جب میرے معاوضہ کی باری آتی ہے تو قلیل مقدار میں خوراک دیتے ہو۔ اُوپر سے طنز اور نکتہ چینی کے نشتر سے میری روح چھلنی کرتے ہو اور مجھے بے وقوف سمجھتے ہو حالانکہ میرا ذکر بائبل میں بھی موجود ہے۔ قرآن نے تو مجھے زینت کا سامان کہا ہے۔ کبھی اپنے گریبان میں جھانکو تم نے بارہ سالوں میں ایک سپر پاور کے لئے کیا کچھ نہیں کیا، 50ہزار قیمتی جانوں کا ضیا، سو ارب کا مالی نقصان، 4سو ڈرون حملے، اس کے معاوضے میں 1.6ارب ڈالر کی قلیل امداد۔ ایران سے پائپ لائن کے معاملے میں رکاوٹیں اور اوپر سے ممبئی حملوں کے مبینہ افراد کی بھارت کو حوالیگی، ڈاکٹر شکیل افریدی کی رہائی کا مطالبہ۔ غور کرو 25سو الفاظ کے مشترکہ اعلامیے میں مسئلہ کشمیر اورڈرون حملوں کا ذکر تک نہیں۔ مجھے بے وقوف کہنے والو! سوچو سپر پاور تم سے کیسا سلوک کر رہی ہے! کیا یہ و ہی سلوک نہیں جوتم مییرے سا تھ کر تے ہو۔

مجھے ایک دفعہ شیر نے پیغام بھیجا تھا۔
Braveman prefer to die on his feet than to live on his knee.

میں نے بہت زور لگایا کہ رسیوں کے چنگل سے نکل جاؤں تاکہ مالک کی لگام اور ڈنڈوں سے رسائی مل جائے مگر میں ناکام رہا۔ کاش کے میرے دو ہاتھ اور اعلیٰ دماغ ہوتا تو میں ان غلامی کی رسیوں کو کھول دیتا۔ کاش میرے بھی دو ہاتھ اور اعلیٰ دماغ ہوتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں انسان ہوتا ۔۔۔۔کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Prof Waqar Hussain
About the Author: Prof Waqar Hussain Read More Articles by Prof Waqar Hussain: 33 Articles with 48469 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.