بھولی قوم اور مذاکرات

عمران خان کا کہنا ہے کہ طالبان سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور پاکستان میں طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت دینی چاہئیے۔ جہاں تک مذاکرات کی بات وہاں تک تو ٹھیک ہے اور اے پی سی میں باقی پارٹیوں نے بھی حامی بھری مگر جہاں تک طالبان کا دفتر کھلوانے کی بات ہے اس پر کسی بھی سیاسی جماعت کے عہدیدار یا نمائندے نے خان صاحب کے اس مشورے کی تائید کی اور نا ہی تردید سوائے اے این پی کے جو خان صاحب کے اس مشورے یا فرمائش کی بھرپور مذمت کر رہی ہے جبکہ باقی سیاسی جماعتیں چپ رہ کر تماشہ دیکھنے پر اکتفا کر رہی ہیں اور یہ چپ ان سیاستدانوں کی مجبوری بن چکی ہے کیونکہ انہیں پتا ہے کہ اگر انہوں نے مخالفت کی تو آئے دن ہوتے دھماکوں سے بدحال عوام جو اپنےعزیزوں کی خون سے لتھڑی لاشوں کو کندھا دیتے دیتے تھک چکے ہیں وہ امن کی ہر کوشش کو آزمانہ چاہیں گے کیونکہ عوام فرسودہ اور مفادات پر چلنی والی سیاست سے تنگ آچکی ہے اور وہ عمران خان پہ بھروسہ کرنہ چاہتی ہے اسلئیے ساری امیدیں خان صاحب سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ گو کہ خان صاحب انتخابات کے آغاز سے ہی طالبان سے مزاکرات کی بات کرتے آئے ہیں اور اپنی اسی بات پہ قائم بھی ہیں جو کہ ایک خوش آئند بات ہے مگر انکا یہ کہنا کہ طالبان کا دفتر مزاکرات کے لئے پاکستان میں کھلنا چاہئیے جیسے امریکہ نے طالبان کو قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے کی اجازت دی۔ بحیثیت پاکستانی ہم بڑی بھولی قوم ہیں جو ہمیں جس راستے پر چلانا چاہے ہم چل پڑتے ہیں یہ جانے بغیر کہ اس راہ کی منزل کیا ہے ہم ہمیشہ اپنی تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے دوسروں کو رول ماڈل بناتے آئے ہیں یہ جانے بغیر کہ دوسروں کا فارمولہ ھم پر سیٹ ہوگا یا نہیں ۔ ھم نے یہ تو دیکھا اور سنا کہ امریکہ کی جانب سے قطر میں طالبان سے مزاکرات کے لئیے دفتر کھلا امگر اسکا نتیجہ کیا نکلا اس پر کسی کی نظر نہ پہنچ پائی اور ھم نے بھی طالبان کا دفتر کھولنے کی ضد شروع کردی ۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ایٹمی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منظم اور شاطر ریاست ہے جو اپنی قوم کے لئے پانچ سالہ نہیں بلکہ چالیس سالہ منصوبے بناتی ہے اگر صرف اس ایک نکتے پہ ہی غور کیا جائے کہ امریکہ نے طالبان کو دفتر کھولنے کی اجازت تو دی مگر اپنی زمین پر نہیں بلکہ طالبان کہ دفتر کا انتخاب قطر میں کیا گیا کیونکہ امریکی عوام ہو یا حکمران وہ کبھی اپنے دشمن کو اپنی زمین پر برداشت نہیں کرینگے جبکہ دوسری طرف ہم بھولی قوم جو دشمن کو اسکا گھر اپنی ہی سر زمین پہ بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں جنکی مہربانی سے آج ہمارے ملک کا ہر کونہ خون سے نہا گیا ہے،آج ہر پاکستانی اور ہر مسلمان دہشتگرد سمجھا جاتا ہے ۔ یہ سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر ہم امن کی کونسی فاختہ بننے جا رہے ہیں کہ ایک طرف تو آئے روز ھم سے خون کی ہولی کھیلی جائے اور دوسری طرف ہم سفید جھنڈا ہی لہرائے جا رہے ہیں سفید جھنڈے سے یاد آیا کہ گزشتہ روز ہمارے جھنڈے کے سفید حصے پہ بھی خون کے چھینٹے ڈالے گئے اور یہ سب اس وقت ہوا جب طالبان سے مزاکرات کے لئے پیشرفت ہو رہی تھی یہ حملہ طالبان کہ کس گروہ نے کیا یہ تو ایک الگ کہانی ہے مگر غور طلب اور امن پسند بات پر توجہ دیں جو کہ القائدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے کی کہ اقلیتوں یعنی شیعہ اور عیسائیوں پر حملے کوئی نہ کرے اس سے ایک بات تو صاف واضح ہے کہ اگر پاکستان میں خدانخواستہ طالبان کا دفتر کھلا تو اس کے جھنڈے پہ بھی ہمیں سفید رنگ تو ضرور دیکھنے کو ملیگا مطلب یہ کہ خون کی ہولی کا کھیل چاہے جس خطے میں بھی کھیلا جائے اور کوئی بھی کھیلے اسکا نشانہ صرف مسلمان بنے گااسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اقلیتوں کو بھی نشانہ بنایا جائے پرسوال یہ ہے کہ آخر مسلمان ہی اس ظلمت اور بربریت کا شکار کیوں ۔

کہتے ہیں کہ مومن ایک سوراخ سے صرف دو بار ڈسا جا سکتا ہے لیکن ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جو اپنے آپکو نئے سانپ سے ڈسوانے کی بجائے آزمائے ہوئے سانپ سے ہی ڈسوانے پر اکتفا کرتی ہے شاید یہ سوچ کر کہ اب کی بار سانپ کے ڈنگ میں زہر ختم ہوگیا ہو مگر سانپ کا زہر پچھلی بار سے زیادہ ہی زہریلا ملتا ہے خیر بہتر ہے کہ اس بات کو یہیں رہنے دیا جائے کیونکہ لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ورنہ ہم بحث کرنے میں ماہر قوم ہیں چاہے اس بحث کا کوئی حل نکلے یا نہ نکلے پر ہم بحث ضرور کرتے ہیں۔ اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد صرف اس طرف روشنی ڈالنا تھا کہ ہماری قوم میں اب سکت نہیں لاشوں کا بوجھ کندھوں پہ اٹھانے کی، اپنے ملک کو جلتا دیکھنے کی، ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے لڑتا دیکھنے کی، اپنے ہی وطن کے صوبوں کے لوگوں کو انجان نظروں سے دیکھنے کی، اب ان آنکھوں کے آنسوں بھی سوکھ چکے ہیں اب صرف ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔ مختصرآ یہ کہ میں اورمجھ جیسے شاید مٹھی بھر ہم خیال جو کہ طالبان سے مزاکرات کے خلاف نہیں پر خلاف ہیں مزاکرات کے لئے اپنی سرزمین استعمال کرنے کے ہم چاہتے ہیں کے کسی نہ کسی طرح ہمارے ملک میں امن قائم ہو مگر اس کے لئے امن کے دشمنوں کو اپنے ہی وطن میں مزاکرات کے لئے دفتر کھول کر دینا ہر گز نہیں۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ جذباتی ہو کر فیصلے تو کر لیتے ہیں مگر ان فیصلوں کے نتائج کے بارے میں نہیں سوچتے انہی کچھ فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم طالبان کو بھگت رہے ہیں اور ان سے مزاکرات کی منتیں کر ر ہے ہیں۔ اس بار حکومت کو کوئی بھی اقدام کرنے سے پہلے ذاتی مفاد سے بالا تر ہو کر پاکستان میں مستقل امن قائم کرنے کے بارے میں سوچنا ہوگا اور ہمارے یعنی عوام کے ان سارے شکوک و شبہات کو ختم کرنا ہوگا جنکی وجہ سے ہم طالبان کا دفتر پاکستان میں کھولنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اول تو یہ کہ حکومت کو یہ واضح کرنا ہوگا کہ یہ دفتر عارضی ہوگا یا مستقل بنیاد پرکھولا جائیگا اگر یہ دفتر مستقل بنیاد پر کھولا جائیگا تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اس دفتر کو ایک قانونی حیثیت مل جائیگی جسکی وجہ سے طالبان پاکستان میں آزادی سے گھوم سکیں گے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں گے کیونکہ پاکستان ہی ایک ایسا ملک ہے جہاں سوائے طالبان کے ہر شخص غیر محفوظ ہے۔ دوم یہ کہ کیا طالبان سے مزاکرات کا مطلب انکے ساتھیوں کو رہا کرنا ہے جنکے ہاتھ معصوم جانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جن سے لڑتے ہوئے ہمارے فوجی جوانوں نے اپنی جانیں قربان کردیں کیا ان مزکرات کا مطلب صرف ان شیطان صفت لوگوں کو رہا کرنا یعنی معاف کرنا ہے جنہوں نے ہمارے فوجی اور عام شہریوں کو اغواء کر کے ان کو سروں کو تن سے جدا کرتے ہوئے ویڈیو بنا کر ہمیں دہشت بھرے پیغام بھیج کرخوف ذدہ کر نے کی کوشش کی۔ جب مزاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی طالبان نے اپنے ایک اہم ساتھی کو رہا کروالیا تو اس بات کی کیا ضمانت کے طالبان مزاکرات کے ہر مرحلے پہ اپنے ساتھی رہا کروانے کی مانگ نہیں کرینگے۔ اور ان سب سے بالاتر یہ بات کہ امریکہ نے اب تک طالبان سے مزاکرات کے خلاف پاکستان سے اس طرز کی مخالفت نہیں کی جو اسکی خاصیت ہے مانا کہ امریکہ بھی اب امن قائم کرنے کےلئے طالبان سے مزاکرات کا خواہاں ہے مگر کیا امریکہ پاکستان میں امن قائم کروانا چاہتا ہے اگر صرف بحیثیت ایک پاکستانی ہم سوچے تو اسکا جواب “نا“ ہے اور یہ جواب نا کیوں ہے اسکے لئے ہمیں تاریخ کھنگالنے کی ضرورت نہیں ہم سب جانتے ہیں کہ اگر طالبان امریکہ سے مزاکرات کے لئے اپنے کسی ساتھی کی رہائی کا مطالبہ کرتے تو امریکہ اس بات پر کبھی راضی نا ہوتا مگر پاکستان میں طالبان کے ساتھی کی رہائی پر امریکہ خاموش رہا، امریکہ،انڈیا،روس اور کئی ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں پاکستان میں پاکستان کے خلاف جاسوسی پر مامور ہیں اور سب سے ذیادہ امریکہ اور بھارت کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں متحرک ہیں جنکا اصل حدف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچنا ہے جو اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان میں بد امنی اور سیکیورٹی کا خطرہ حد سے زیادہ بڑھ جائے اور پاکستان میں امریکہ کے لئے طالبان سے بہتر اور کوئی مہرا نہیں جو پاکستان میں سیکیورٹی خدشات کو بڑھا سکتا ہے۔

مزاکرات کا مفہوم کسی فریق کی ایک بات ماننا اور بدلے میں اپنی بات منوانا پاکستان تو صرف ملک میں امن چاہتا ہے تو کیا بدلے میں حکومت پاکستان طالبان کی بقیہ شرائط پر راضی ہوگی جن میں سے ایک ہے طالبان کی مرضی کے مطابق شریعت کا نفاذ یعنی کیا پاکستانی حکومت اپنی باگ ڈور طالبان کے ہاتھ میں دینے کو تیار ہے۔اگر صرف انہی چند باتوں پر غور کر لیا جائے تو یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ طالبان سے مزاکرات کے لئے پاکستان میں طالبان کا دفتر کھولنا ایک بار پھر اپنے آپکو سانپ سے ڈسوانے کے مترادف ہے۔
S.Zehra Urooj Gillani
About the Author: S.Zehra Urooj Gillani Read More Articles by S.Zehra Urooj Gillani: 2 Articles with 1404 views Exploring myself.. View More