میرا قاتل کون؟

امی بابا کہاں ہیں ۔ صبا خوشی سے چلاتی ہوئی گھرآئی ۔امی جلدی بتائیں ناں مجھے انہیں ایک خوشخبری دینی ھے پہلے مجھے تو کچھ بتاؤصبا کی ماں کہنے لگی۔ لیکن صبا بضد تھی کہ سب سے پہلے بابا کو بتاے گی ۔اسی اسی دوران صبا کے بابا ملک بہرام خان بھی گھر میں داخل ہوتے ہیں ۔صبا دوڑ کر بابا سے لپٹ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ بابا آج میرے امتحان کا رزلٹ تھا اور میں نے سکول ٹاپ کیا ہے ۔ ملک بہرام بھی بہت خوش ہو جا تے ہیں اور اپنی بیو ی سے کہتے ہیں کہ دیکھاصبا کی ماں میں نہ کہتا تھاکہ میری بیٹی ضرور سکول ٹاپ کرے گی ۔آج میری بیٹی نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔

صبا کاتعلق سوات سے تھا وہ بہت منتوں اور دعاؤں کے بعد پیدا ہوئ تھی وہ اکلوتی ہونے کی وجہ سے اپنے ماں باپ کی بہت لاڈلی تھی اور خاص طور پر اپنے والد سے بہت اٹیچڈ تھی ۔ اس کے بابا نے اپنے باپ بھائیوں اور پورے خاندان کی ناراضی مول کرصبا کوانگلش میڈیم کو ایجوکیشن پڑھنے بھیجا تھا ۔صبا بہت ذہین تھی اسکے اور اسکے بابا کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے اور اسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے وہ دن رات محنت کرتی تھی اور اسی محنت کا نتیجہ تھا کہ آج اسنے اپنے نویں جماعت میں پورے سکول میں پہلی پوزیشن لی تھی ۔

صبا نے دسویں کلاس میں داخلہ لیا اور آج نئے کلاس میں اس کا پہلا دن ہے ۔وہ بہت خوش تھی ۔

صباکے کلاس میں ایک نئے بواے سٹوڈنٹ نے بھی داخلہ لیا تھا وہ کسی اور سکول سے آیا تھااس نے صبا کو ہیلو کہااور اس کے سامنے والے ڈیسک پر بیٹھ گیا ۔

صبا اپنے کلاس میں بہت خوش تھی اور اپنی سٹڈیز پر بہت توجہ دے رہی تی ۔ آج جب وہ کلاس روم میں داخل ہوئی تو اسکو اپنے ڈیسک پر ایک گلاب پڑا ہوا ملا ۔ گلاب کے ساتھ ایک چھو ٹا کاغذ بھی تھا جس پر لکھا گیا تھا ۔ صبا میں تم سے بہت محبت کر تا ہوں اور نیچے لکھا تھا تمھا را ارسلان ۔ یہ وہی نیا لڑکا تھا جس نے صبا کے کلاس میں ایڈمیشن لیا تھا ۔ صبا کے پیروں سے جیسے زمین نکل گئ ہو ۔ اسکو ایسا لگا جیسے گلاب کے کانٹوں نے اس کے پورے وجود کو زخمی کر دیا ہو ۔ اس نے سکول میں کسی سے اس کا ذکر نہی کیا ۔ جب وہ گھر آئی تو بہت پریشان تھی۔اسکے ماں باپ نے کئی بار اسکی پریشانی کی وجہ پوچھی لیکن وہ خاموش رہی وہ انکو پریشان کر نا نہیں چاہتی تھی۔

کل جب صبا سکول گئی تو ارسلان پھول لیے اسکے ڈیسک کے پاس کھڑا تھا ۔اس نے صبا کو پھول دینے کی کوشش کی لیکن صبا نے اس کےمنہ پرزورکا طمانچہ مارا خیر ارسلان کو کو ئی فرق نہیں پڑا ۔اب یہ اس کا معمول بن گا تھا کبھی صبا کو پھول دینے کی کو شش کر تا کبھی خط ۔لیکن صبا کو اس سے شدید نفرت تھی-

جب ارسلان نے صبا کوبہت ذیادہ تنگ کر نا شروع کر دیا اور بات پورے سکول میں پھیل گئی تو اس نے اپنی ماں کو ساری بات بتادی ۔صبا اپنے باپ کو بھی بتا نا چاھتی تھی لیکن اس کی ماں نے اس کو منع کردیا انہیں ڈر تھا کہ وہ غصے میں آ کر اس لڑکے کو کو ئی نقصان نہ پہنچا دے ۔ اتفاق سے انہی دنوں صبا کے لئے اس کے کزن کا رشتہ آیا ہوا تھا ۔صبا کے والد ابھی اس کا رشتہ نہیں کرانا چاھتے تھے کیونکہ ان کی خواہش تھی کہ صبا پہلے اپنی تعلیم پوری کرے لیکن صبا کی امی نے ان کو اس بات پر قا ئل کر دیا کہ ابھی صرف منگنی کرا دیتے ہیں جب وہ اپنی پڑھائی مکمل کر لے گی تو ان کی شادی کروا دینگے ۔ اس طرح صبا اور اس کے ماموں ذاد کزن کی منگنی بہت دھوم دھام سے ہو گئی ۔

صبا اور اس کی ماں کا خیال تھا کہ منگنی کے بعد ا رسلان اس کا پیچھا چھوڑدیگا لیکن اگلے دن جب وہ سکول پہنچی تو ارسلان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ تم نے منگنی کیسے کر لی ۔تم صرف میری ہو ۔ تم کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔ صبا اس سے اپنا ہات چھڑا کر کلاس روم چلی گئی ارسلان بھی اس کے پیچھے آیا اس نے اپنے بیگ سے پستول نکا لی اورسب کلاس فیلوز کے سامنے خو د کو گولی مار دی ۔وہ اسی موقع پر ہی مرگیا ۔

یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل گئی ۔ جب وہ گھر پھنچی تو سارا خاندان اس کے گھر میں موجود تھا ۔ اگرچہ اس کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن پھر بھی سب لوگ اس پر غصہ ہو رہے تھے اس کو لعن
ملامت کر رہے تھے ۔ وہ روتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔

صبا کےبابا اس کے پاس گئے اور اس سے اس واقعے کےمتعلق پوچھ رہے تھے ۔لیکن صبا زاروقطار رو رہی تھی اور صرف یہی جملہ اس کے لبوں پر تھا کہ بابا میں نے کچھ نہیں کیا میں بے قصور ہوں-

بیٹا مجھے یقین ہے تم پر کچھ نہیں ہوگا گھبرا ؤ مت میں ہوں ناں تمہارے ساتھ وہ صبا کو تسلی دے رہے تھے جب صبا کی حالت تھوڑی سی سنبھلی تو اس نے اپنے بابا کو سب کچھ بتا دیا-

اگلے دن صبا کے دادا ان کے گھر آئے اوراس کے بابا سے کہا کہ تمہاری بیٹی نے ہمارے خاندان کا نام مٹی میں ملا دیا ہے اس نے ہمارے ماتھے پر کالک مل دی ہےتمہاری بیٹی کا انجام بھی اس لڑکے کی طرح ہو نا چاہئے صبا کےوالد نہایت کرب سے یہ ساری باتیں سن رہے تھے ۔انہیں اس بات کااندازہ پہلے سے تھا ۔لیکن وہ اپنی بیٹی کو نام نہاد غیرت کے نام پر قربان نہیں کر نا چاہتے تھے ۔انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ میری بیٹی بے قصور ہے ۔ میں اس جرم کی سزا اسے کیسے دے سکتا ہوں جو اس نے کیا ہی نہیں ۔میری بیٹی میرا غرور ہے اس کے بغیر میں بھی زندہ نہیں رہ سکوں گا۔

تین چار دنوں کے بعد جرگے نے فیصلہ سنایا کہ چونکہ اس لڑکے نے صبا کی و جہ سے خودکشی کی۔صبا اس کے ساتھ بد نام ہو ئی اس لیےصبا کا بھی وہی انجام ہونا چاہئےملک بہرام روایات کے مطابق جرگے کے فیصلے ماننے کے پابند ہو گئے ۔

جب بہرام خان گھر آئے تو صبا ان کے لئے پانی لینے چلی گئی ۔جب وپانی لے کر آئی تواسکے بابا نے اس سے صر ف یہی کہا کہ بیٹا مجھے معاف کرنا میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکا۔ کبھی کبھی ہمیں اس جرم کی سزا بھی ملتی جو ہم نے نہیں کیا ہوتا ۔انہوں نے اپنے جیب سے پستول نکالی اور اپنے ہاتھوں سے اپنے لخت جگر کومار دیااور خود کو بھی گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔

riffat malik
About the Author: riffat malik Read More Articles by riffat malik: 3 Articles with 3604 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.