جال

انسان کی موجودہ حالت بالکل ویسے ہی ہے جیسے بند گلی میں اندھیرا ہے اور آگے پیچھے نظر آنے والا کوئی راستہ نہیں، بے چینی اور بے سکونی کی حالت عروج پر ہے۔غریب ہو یا امیر، پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ۔ ہر طبقہ لا مقصدیت اور ناسمجھ آنے والی بے چینی کا شکار ہے۔ ہر طرف شیطان اپنی منحوس شکل کے ساتھ ناچتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس سب کوسمجھنے کے لئے ہمیں اپنے اردگرد موجود نظام(System) کو سمجھنا ہوگا۔ جس کے ذریعے شیطان نے اپنا مکمل جال پھیلایا ہے۔کچھ مثالیں ذیل میں سرسری طور پر بیان کی گئی ہیں۔

شیطان نے جو سب سے پہلا ہتھیار استعمال کیا وہ تقسیم کا تھا۔ یعنی جسے عرف عام میں"Divide and rule"بھی کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ صدیاں پہلے چلے جائیں تو سرحدودں کا کوئی نظریہ نہیں تھا۔ اﷲ کی بنائی ہوئی تمام زمین سب انسانوں کے لئے یکتا تھی۔ لیکن اب ہم سرحدودں اور ان کی بنیاد پر مختلف رنگوں کے پاسپورٹس میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ امیر ملکوں کے پاسپورٹ رکھنے والے غیرب ملک پاسپورٹس والوں کی تحقیر کرنا فرض سمجھتے ہیں۔

اسی طرح پوری دنیا کی تجارت سونے اور چاندی سے بدل کر کاغذ کے ٹکڑوں پر تقسیم کر دی گئی۔ان کاغذ کی ٹکڑوں سے بینکنگ کے نظام نے جنم لیا اور آج سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے امیر امیر تر اور غیرب غریب تر ہو رہے ہیں، دولت صرف چند ہاتھوں میں سمٹ چکی ہے۔ ہر ملک اور دنیا میں امیر ترین لوگوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک فیکٹری کا مالک تو کچھ عرصہ میں دوسری فیکٹری کا مالک بن جاتا ہے اور غریب مزدور اپنے ہاتھ سے بناجی ہوئی چیز بھی نہیں خرید پاتا۔امریکہ جیسے ملک جو عراق اور افغانستان کی جنگوں پر 6ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کر چکے ہیں۔ اور پوری دنیا کی غربت ختم کرنے کے لئے شائد کچھ بلین کی ضرورت تھی۔ ہم سے ہمارا لوٹا ہوا پیسہ ہمیں ہی قرض دیا جاتا ہے۔ اور پھر اسی قرض پہ سود دے کر ہم پہ ڈرون حملے بھی کیے جاتے ہیں۔

جمہوریت کی ہر مثال لیں۔ جس میں سب سے پہلے تو عوام کا مقام دے دیا جاتا ہے حالانکہ اگر غور کریں ایک دوٹ کی طاقت ہوتی ہے وہ بھی اس وقت تک جب تک ووٹ ڈال نہیں دیا جاتا۔

اس کے بعد جمہوریت کا ایک اور حسن کہ پہلے لوگ پارٹیوں میں تقسیم ہوتے ہیں پھر کارکنوں میں اور پھر ہر بندہ اپنے فرقے ،قومیت اور ذاتوں کی بنیاد پر ووٹروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔

جہاں شیطان کے اتنے ہتھیاروں کا ذکر ہو وہاں میڈیا کو کیسے بھالا جاسکتاہے۔ اﷲ نے فرمایا کہ ــ"اور دنیا کی زندگی متاع و فریب ہے"
(سورۃ الحدید۔ آیت 20)۔

اس فریب کے جال میں پھنسانے میں سب سے بڑا کردار میڈیا کا ہے۔ آج کی جوان نسل پر غور کریں جو کہ میڈیا کےـ"life is Entertainment"جیسے پروپیگنڈہ کا نہایت بری طرح شکارہے۔ عبادت کے مستقل سکون کو چھوڑکرــ"Entertainment"کے عارضی سکون کو زندگی کا حصہ بنا نے کی ناکام کوشش میں مصروف ہیں۔ آج ہم پہنتے وہ ہیں جو ہمیں ٹیلیویژن بتاتا ہے۔ ہمیں کھاتے وہ ہیں جو ہمیں ٹیلیویژن بتاتا ہے۔ ہم نظر ویسا آنا چاہتے ہیں جیسے ٹیلیویژن بتا تاہے ۔ یہانتکہ ہم سوچتے بھی وہی ہیں جو ہمیں ٹیلیویژن بتاتا ہے۔ہمیں غلامی کے علاوہ کچھ نہیں مل رہا اور جس کو ہم آزادی سمجھ رہے ہیں وہ صرف ہماری بے چینی (frustration) میں اضافہ کر رہی ہے۔

ہمیں اس حال سے اس غلامی سے نکلنا ہے اور رستہ صرف اﷲ اور اﷲ کے رسول ﷺ کی اطاعت میں ہے۔ اﷲ پاک فرماتے ہیں۔

ــ"کوئی مصیبت بغیر اﷲ کے حکم سے نہیں آتی اور (مصیبت کے وقت) جو شخص اﷲ پر ایمان رکھتا ہے اﷲ اس کے دل کو (صبر و رضا) کی راہ دکھا دیتا ہے اور اﷲ کو ہر چیز کا علم ہے ۔ تم اﷲ کی اطاعت کرواور رسول ﷺ کی اطاعت کرو۔ لیکن اگر تم نے اطاعت سے منہ موڑا تو ہمارے رسول ﷺ کے ذمہ تو صرف صاف صاف(حق) پہنچا دینا ہے۔ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ایمان لانے والوں کو صرف اﷲ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔
(سورۃ التغابن، آیت11-13)"

کام صرف اشارہ کرنا اور ایک سوچ اجاگر کرنا تھا۔ باقی راستہ بہت آسان اور صاف ہے-
Naveed Anjum
About the Author: Naveed AnjumCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.