قریش پور :زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

غلام شبیر
قریش پور نے 5۔اگست 2013کی صبح عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔قریش پور (ذوالقرنین قریشی )کا شمار عالمی شہرت کے حامل ان ممتاز پاکستانی دانش وروں میں ہوتا تھاجنھوں نے وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان سے ٹوٹ کر محبت کی اور زندگی بھر انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے کوشاں رہے ۔انھوں نے اپنی ذاتی محنت ،لگن اور ابلاغیات سے والہانہ محبت کی بدولت جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔وہ پاکستان کے ممتاز دانش ور ،ناول نگار،مصنف ،کالم نگار اور میڈیا ایکسپرٹ تھے ایک ایسے یگانہ ء روزگار فاضل کا ہماری محفل سے اٹھ جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔وہ اپنے عہد کے نابغہ تھے ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن نے ستر کی دہائی میں اپنی نشریات کوبا م عروج پر پہنچا دیا۔اس تمام تر کامیابی اور نیک نامی کا سہرا اس عہد کے ممتاز براڈ کاسٹرز کے سر ہے جنھوں نے اپنے خون جگر سے ان نشریاتی اداروں کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرے نہ صرف قومی تشخص کو اجاگر کیا بل کہ ان قومی اداروں کو پوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ان نشریاتی اداروں کے اس عہد زریں میں جن مایہء ناز ہستیوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں مصطفیٰ علی ہمدانی ،انور بہزاد ،شکیل احمد ،انیتا غلام علی ،شائستہ زید ،مہ پارہ صفدر ،نیلو فر عباسی ،یاسمین طاہر ،عبیداﷲ بیگ ،قریش پور ،اشفاق احمد اور سید جعفر طاہر کے نام قابل ذکر ہیں ۔پاکستانی ذرائع ابلاغ کا وہ دور تشریات کی تاریخ کا یادگار دور سمجھا جاتا ہے ۔اس قدر معیاری پروگرام پیش کیے جاتے تھے کہ گھر کے تمام افراد مل کر انھیں دیکھتے اور اور نہ صرف تفریح کے مواقع سے فیض یاب ہوتے بل کہ ان کی معلومات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا۔مثال کے طور پر ففٹی ففٹی اور الف نون کو کلاسیک کی حیثیت حاصل تھی۔اسی زمانے میں پاکستان ٹیلی ویژن سے ایک ایسا پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا جاتا تھا جسے ہر عمر کے ناظرین میں بے پنا مقبولیت حاصل تھی ۔سوال و جواب (quiz)پر مشتمل یہ پروگرام ’’کسوٹی ‘‘کے نام سے پیش کیا جاتا تھا۔کسوٹی نے اس عہد میں مقبولیت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ۔اس رجحان ساز پروگرام میں جن نامور ہستیوں نے حصہ لیا ان میں عبیداﷲ بیگ (جو گزشتہ برس خالق حقیق سے جاملے )اور قریش پور کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان دو میڈیا ایکسپرٹس نے کسوٹی کو معلومارت عامہ ،علوم و فنون ،تاریخ وا دب ،سائنس و ٹیکنالوجی ،جغرافیائی حالات ،عالمی سیاسیات ،مذاہب عالم اور علم بشریات کا ایک اہم ترین اور معتبر مخزن معلومات بنا دیا۔قریش پور کی ژخصیت کسوٹی میں اہم ترین کردار ادا کر رہی تھی ۔سوال و جواب پر مشتمل ایک خشک سے پروگرام کو انھوں نے اپنی باغ و بہار شخصیت اور گل افشانیء گفتار سے سدا بہار بنادیا۔وہ بولتے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے جس سوال کا جواب دیتے سب کو لاجواب کر دیتے ۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ عبید اﷲ بیگ اور قریش پور ہی کی معجز نما شخصیات کی بدولت کسوٹی کوفقید المثال کامیابی نصیب ہوئی ۔قریش پور یک وسیع المطالعہ دانش ور تھے ۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف تھے ۔ان کے تبحر علمی کا ایک عالم معترف تھا۔علوم کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ان سے مخفی ہوتا ۔جو بھی موضوع ہوتا وہ اس پر پورے اعتماد سے گفتگو کرتے ان سے جو بھی سوال پوچھا جاتا وہ اس کا فی الفور جواب دینے کی صلاحیت سے متمتع تھے ۔اس عہد کے سب چاند چہرے دائمی مفارقت دے گئے ۔کیسے کیسے آفتاب و ماہتاب زیر زمین چلے گئے ۔کتنے بلندو بالا آسمان زمین نے نگل لیے ۔

قریش پور کی وفات سے نشریات کے عہد زریں کی حسین یادیں تاریخ کے طوماروں میں دب گئیں ۔اﷲ کریم انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ایام گزشتہ کی یادوں میں کھویا میں اپنی محفل کے ان مشاہیر کو نشیب زینہ ء ایام میں اترتے دیکھ کر اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا ۔ان مشاہیر کا نوحہ لکھ کر تزکیہ نفس کی ایک صور ت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہوں ۔رفعت سروش نے یاد رفتگاں کے حوالے سے بڑی دردمندی سے لکھا ہے :
نوحہ ان کا نہیں گزر گئے جو زندگی کی اداس راہوں سے
پھینک کر بوجھ اپنے کاندھوں کا نوحہ ان کا جو اب بھی جیتے ہیں
مرنے والوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے

قریش پور کی حسین یادیں اب تو زندگی بھر ان کی دائمی مفارقت کا احساس دلاتی رہیں گی ۔اپنی محفل سے رخصت ہونے والوں کو یاد کر کے در اصل ہم اپنے قلب اور روح کو ان کی حسین یادوں اور دائمی مفارقت کے غم و اندوہ سے منور رکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔ قریش پور نے زندگی بھر حریت فکر کا علم بلند رکھا ۔وہ حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر ؓپر عمل پیر ا رہے ۔جبر کے سامنے سپر انداز ہونا ان کے مسلک کے خلاف تھا۔وہ ایک گوشہ نشین درویش تھے ۔وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیا ز تعمیر وطن کے کاموں میں مصروف رہتے ۔انھوں نے کبھی در کسریٰ پر صدا نہ کی وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کھنڈرات میں موجود جامد و ساکت بت زندہ اور جان دار انسانوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے قاصر ہیں ۔انھوں نے پوری دنیا میں جو عزت و تکریم اور بلند مقام حاصل کیا وہ ہر عہد میں لائق تقلید سمجھا جائے گا۔تاریخ ہر دور میں ان کے فقید المثال کام اورعظیم نام کی تعظیم کرے گی ۔انھیں شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں بلند مقام حاصل رہے گا ۔ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔بہ قول فراق گورکھ پوری :
بھولیں اگر تمھیں تو کدھر جائیں کیا کریں
ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے
Ghulam Ibn-e-Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e-Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e-Sultan: 277 Articles with 610471 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.