چند مشترکہ معاشرتی مشاغل

وطنِ عزیز میں معاشرتی مصروفیات کا ملاحظہ کیا جائے تو شاید جُملہ معاملات میں مثبت کی بجائے منفی پہلوؤں پر تبصرہ و تنقید پسندیدہ ترین قرار پائیں گے۔خاندانی سیاست سے لیکر حکومتی ایوانوں تک ایک دُوسرے کی خامیاں تلاش و بیان کرنا ہمارا محبوب ترین مشغلہ بن چُکا ہے (متذکرہ مشغلہ کے ساتھ اپنی مدح سرائی کرنے کو بھی شیوہء عام قرار دیا جا سکتا ہے) اور اگر جنابِ مشغلہ، علو م وفنون سے منسلک ہوں تو بے دریغ اِسے تنقید نگاری کا ’ معزز خطاب‘ دے دیا جاتا ہے(حا لانکہ تنقید نگاری منفیت پسندی سے یکسر مختلف اصطلاح ہے)۔منفیت پسندی اور بلا ضرورت تنقید نگاری ایک ایسی خود ساختہ صلاحیت ہے جسکا تخمینہ ہمارے ملک میں کسی غریب حجام سے لیکر امیر دانشور تک کی باتوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ منفیت پسندی اور بِلا جواز تنقید نگاری کی ترقی کا ہمارے معاشرے میں یہ عالم ہے کہ اِنکی وجہ سے پیارے پاکستان میں رونما ہونیوالے(چیدہ چیدہ) مثبت اُمور کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔ شاذونادر ہی اِس بات پر فخر محسوس کیا جاتا ہیکہ پاکستان دُنیا کی چھٹی بڑی فوج کا مالک ہے اور جدید میزائل ٹیکنالوجی کا حامل ہے، اسکے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں میں عوام الناس میں نہ صرف حصولِ علم کا شعور بیدار ہوا ہے بلکہ شرح تعلیم میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جسکی اُوپری و نچلی سطح پر مناسب حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے، مگر کیا کیا جائے ہماری اِس ہمہ صفت منفی تنقید نگاری کا جو کسی بھی مثبت پیشرفت کو پنپنے سے قبل ہی دبا دیتی ہے۔

معاملہ چاہے ملالہ یوسف زئی پر حملہ کے بعد اسکو عالمی ایوارڈ ملنے کا ہو یا شاہ زیب قتل کیس پر متعلقہ اداروں کے فوری ایکشن کا نجانے کہاں کہاں سے ایسے منفی و شرپسند نظریات منظرِعام پر آ جاتے ہیں اور ذرائع ابلاغ بالخصوص سوشل میڈیا پر اِنکی ترویج و اشاعت اِس پیرائے میں کی جاتی ہے کہ اصل مقصد کہیں دور محض حساس و پُرخلوص دِلوں پر ناکامی و مایوسی کے کچوکے لگانے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

ہم ایک ایسے خبط میں مبتلا نظر آتے ہیں جو ہر چیزمیں عادتاََ نقائص تلاش کرتے ہیں، ہر معاملہ میں منفی پہلوؤں کو تلاشنا نہ صِرف عام معاشرتی حلقوں میں عام ہے بلکہ ’رجسٹرڈ‘ اہلِ دانش بھی تنقید برائے تنقید کا پرچار کرتے اپنی بصیر ت و دور اندیشی کی دھاک بٹھاتے نظر آتے ہیں۔ نتیجتاََ تنقید نگاری ملک کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی معاملات میں اپنا اثَر کھوتی جا رہی ہے۔

ایک دفعہ کا ذِکر ہے کہ ایک مصور نے بعد از کٹھن محنت ایک تصویر بنائی اور شہر کے مصروف ترین چوراہے پر آویزاں کر کے نیچے لکھ دیا کہ ’’تصویر میں کوئی غلطی پائی جانے کیصورت میں غلطی والی جگہ پر نشان لگا دیں‘‘اگلے دِن تمام تصویر پر نشانات ہی نشانات نظر آ رہے تھے، بیچارہ تصویر اُٹھا کر گھر لے آیا اور دوبارہ وہی تصویر بنا کر پھِر چوراہے پر آویزاں کی اور نیچے والی تحریر میں کچھ تبدیلی کر کے یوں لکھ دیا’’تصویر میں کوئی غلطی پائی جانے کیصورت میں غلطی والی جگہ درست کر دیں‘‘اگلے دِن تصویر پر کوئی نشان تھا نہ ہی اس میں کوئی درستگی یا تبدیلی ہوئی۔یعنی غلطی کی نشاندہی آسان ہے اور اصلاح مشکل ہے ۔

تاریخ گواہ ہے کہ منفی و بے جا تنقید اور بِلا جواز نقائص تلاشنے کی عادی اقوام خودساختہ معاشرتی و اخلاقی اقدار کے ایسے تخیلاتی دائرہ کا طواف کرتی رہتی ہیں جسکی منزل کبھی نہیں ملتی۔بنی اسرائیل کو بھی بہترین آسمانی تحفہ ’من و سلویٰ‘ عطا کیا گیا مگر وہ ناشُکری کی مرتکب ہوئی اور نقائص نکالنے سے باز نہ آئی یہاں تک کہ عتابِ الہیٰ کا شکار ہو گئی۔

اگرچہ تنقید، تعمیری مقاصد کے حصول کا اہم جُزو ہے، مگر بے جا و بِلا ضرورت ہر معاملہ کا منفی پہلو تلاشنا اور منفی تنقید کرنا نہ صرف معاشرتی انتشار پھیلانے کا سبب ہے بلکہ بہت سے مثبت افعال کا بھی تکمیل سے قبل ہی قلع قمع کر دیتا ہے۔پس ضرورتِ حال یہ ہے کہ سزاو جزاء کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جہاں بُرے کام پر تنقید کی جائے وہیں اچھے کام کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے، تاکہ بَد دلی اور مایوسی کی اِس تاریکی میں اُمید و حوصلہ کی کرنیں اپنا نور بکھیر سکیں۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اَنا و خودنمائی کے بَدّ تقاضوں سے بالاتر زندگی گُزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
Adeel Chaudhary
About the Author: Adeel ChaudharyCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.