کمیشن

موسم سرما ۱۹۷۱ کی پاک بھارت جنگ کے بعد ذوالفعقار علی بھٹو کی درخواست پر اس وقت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمودالرحمان کی سربراھی میں ایک عدالتی کمیشن قائم کیاگیا۔ جسکا مقصد مشرقی ونگ میں افواج پاکستان کی مداخلت، کمانڈر ایسٹ کمانڈ کا ہتھیار ڈالنا ، مغربی پاکستان اور بھارت کے سرحدوں پر اور جموں اینڈ کشمیر کی سرحدوں پر سیز فائر کا حکم جیسے واقعات پر ایک مفصل ، جامع تجزیاتی رپورٹ تیار کرنی تھی ۔ اس تناظر میں دسمبر ۱۹۷۱میں حمودالرحمان کمیشن قائم ھوا۔ کمیشن نے اپنی پہلی رپورٹ پیش کی جسکا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد زولفعقار علی بھٹو نے اسے منظر عام پر نہیں آنے دیا ۔ بدقسمتی سے اس رپورٹ کے حقائق آج تک عوام کے سامنے نہیں آسکے ھیں۔

اسی حوالے سے ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کے مندرجات سامنے آئے ھیں جنکی صداقت کےبارے میں چہ مگوئیاں حکومتی اور عوامی حلقوں میں جاری ھیں۔ مئی 2011ء میں ایبٹ آباد میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف خفیہ امریکی مشن کے حقائق جاننے کے لیے بنائے گئے کمیشن کی رپورٹ کے مندرجات جس میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت پر تنقید کی گئی تھی۔ موضوع تنقید بنے ھوئے ھیں ۔ ایک مضبوط عوامی اور جمہوری حکومت میں کس دیدہ دلیری سے امریکی ھیلی کاپٹرز اور انکے کمانڈوز آزادی سے کامیاب کاروائی کرکے خاموشی سے چلے جاتے ھیں جسکی دنیا بھر میں نظیر نہیں ملتی ۔ کیا ھماری زمینی حدود ، فضائی حدود اتنی غیر محفوظ ھیں کہ امریکہ خاموشی سے کاروائی کر کے چلاجاتا ھے ۔

دونوں رپورٹیں اپنے تناطر میں سیاسی اور عسکری قیادت پر تنقید کی چغلی کھارھی ھیں اور پس پشت ھاتھ وقت کی رفتار کو بڑھا کر عوام کے زھنوں سے اس کے حقائق کھرچنا چاھتے ھیں۔ پاکستان کی تاریخ میں سنگین قومی معاملات پر اب تک کتنے کمیشن اور کمیٹیاں بیٹھی ھیں اور انکی کارکردگی کیا رھی ھے قوم اچھی طرح سے واقف ھے ۔ تواتر سے قومی سانحات وقوع پزیر ھورھے ھیں بلوچستان سلگ رھا ھے قائد اعظم ریزیڈنسی جل کر خاکستر ھوجاتی ھے کے پی کے بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ھوا ھے سب سے بڑا معاشی اور سماجی مرکز ۔ کراچی بدامنی لاقانونیت اور قتل و غارتگری کا حقیقی منظر پیش کررھا ھے -

اور اگر اس حوالے سے کوئی کمیشن بیٹ؁ھتا بھی ھے تو حقائق مسخ یا چھپا دئے جاتے ھیں۔ حیرت کی انتہا ھے کہ کہیں سے کوئی عوامی رد عمل سامنے نہیں آتا ۔ یہ ھماری بےحسی ھے مجبوری ھے یا ھم ان حالات میں اپنے معاملات زندگی گزارنے کے عادی ھوچکے ھیں ۔ یا یہ خیال ھمارے زھنوں میں راسخ ھوچکا ھے کہ ھمارے ملک میں انصاف، قانون اور امن کا گلہ گھونٹھا جاچکا ھے جسکی توقع حکمرانوں سے کرنا احمقانہ بات ھے ۔ بحیثت مجموعی پاکستانی قوم آھنی زنجیروں میں جکڑی ھوئی نظر آتی ھے جسکی زبان سلب کردی گئی ھے اور زھن مفلوج کردیا گیا ھے۔ اور جس دن یہ آھنی زنجیریں شدت سے ٹوٹیں تو اس کے زرے مفلوک الزھن نگران زنداں کے چہروں کو لہولہان کردینگی اور انکی سلب کی ھوئی زبان نقارہ خدا ھوگی اور پھر سب کچھ آشکار ھوجائے گا جو اب تک قوم کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا ھے۔

میں اس پورے سیاق و سباق میں افواج پاکستان کو بری ازمہ سمجھتا ھوں کیونکہ فوج حکومت وقت کی تابع ھوتی ھے یہ سارا فساد سیاسی ھے جو اپنے مفادات کی بھٹی میں ملک، عوام اور فوج کو استعمال کرتی ھے اور جب کوئی سانحہ ھوجائے تو اپنے آپ کو صاف بچانے کی کوشیش میں مضبوط اداروں کی رسوائی کے اسباب پیدا کرتی ھے ۔ یہ ایک المیہ ھے کہ پاکستان کی تاریخ کے تلخ ترین حقائق سرد خانوں میں ھیں یا تلف کردئے گئے ھیں ۔ اور انکو منظر عام پر لانے سے ملک کے تمام معتبر ادارے تذبذب کا شکار نظر آتے ھیں۔ یہ ایک ایسی کڑوی حقیقت ھے جسکا ادراک ھر زی شعور پاکستانی رکھتا ھے اور چاھتا ھے کہ وہ عناصر بے نقاب ھوں جو پاکستان کی روسوائی اور تباھی کاسبب بنتے رھے ھیں ۔ تاکہ اس ضمن میں مزید رسوائیوں سے بچا جاسکے ۔