رویت ِ ہلال: مسلمہ شرعی اصول اور سائنسی حقائق

وطن عزیزپاکستان میں پچھلے کئی سالوں سے رمضان المبارک اور عیدالفطر کے چاند کے حوالے سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان اور خیبر پختونخوا کی غیرسرکاری اورخودساختہ کمیٹی کے اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں اوریہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ پچھلے کئی دہائیوں سے چلاآرہاہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ رمضان المبارک اور عبدالفطر کے چاند پراختلاف کرنے والے پورا سال خاموش رہتے ہیں اور باقی مہینوں کے چاند کے اعلان پر مرکزی کمیٹی پر اعتماداور عمل کرتے ہیں جبکہ رمضان المبارک اورشوال المکرم کے چاندپراختلاف کرنا شروع کردیتے ہیں جو کہ بڑے تعجب کی بات ہے۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام
حکومت پاکستان کی قائم کردہ صوبائی اورمرکزی رویت ہلال کمیٹیوں میں ملک کے چاروں مکاتب فکر (اہلسنّت، دیوبند، اہلحدیث اور اہل تشیع) کے سرکردہ اورجید علماء کرام موجود ہیں ۔اس کے علاوہ محکمہ موسمیات،پاکستان نیوی اور سپارکوکے نمایندے بھی فنی معاونت کے لیے ہراجلاس میں موجودہوتے ہیں اور پھر سب کی متفقہ رائے کی روشنی میں اورتمام ممبران کی موجودگی میں چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان چاند کی رویت یا عدم رویت کااعلان کرتے ہیں۔رویت ہلال سے متعلق جو فیصلہ اور اعلان کیاجاتا ہے وہ تمام ممبران کے اتفاق رائے سے ہوتاہے اور اس فیصلے پر تمام ممبران کے دست خط بھی ہوتے ہیں اس کے باوجودچند مخصوص علاقوں اور افراد کی جانب سے اختلاف پیدا کیا جاتاہے جس سے پوری دنیا میں نہ صرف مسلمانوں کومذاق کا نشانہ بنایاجاتاہے بلکہ نام نہاد روشن خیال اوراسلام دشمن عناصرکوبھی اسلام پر اعتراضات کرنے کا موقع مل جاتاہے۔

قارئین کی معلومات اور ضیافت طبع کی خاطررویت ہلال سے متعلق ہم چند مسلمہ شرعی اصول اور سائنسی حقائق پیش خدمت کررہے ہیں۔

پانچ مہینو ں کے چانددیکھنا
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ پانچ مہینوں کاچانددیکھناواجب کفایہ ہے، شعبان المعظم، رمضان المبارک،شوال المکرم، ذیقعد اور ذوالحجہ…… شعبان کا چاند دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ رمضان کا چاند دیکھتے وقت اگرمطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں۔رمضان کا چاندروزے رکھنے کے لیے، شوال کاچاندروزوں کے اختتام اورعیدالفطرمنانے کے لیے،ذیقعد کا چاند ذوالحجہ کے لیے اور ذوالحجہ کا چاندحج اور قربانی کے لیے دیکھاجاتاہے۔واضح رہے کہ انتیس شعبان کا چاند نظرنہ آنے کی صورت میں تیس شعبان کویو م شک کاروزہ رکھنامکروہ ہے۔

چاند کی پیدایش اوراس کی رویت
رمضان وشوال کے چاندکیلئے رویت(انسانی آنکھ سے دیکھنا) لازمی شرط ہے۔واضح رہے کہ چاند کی پیدائش اور چاند کے نظرآنے میں زمین آسمان کا فرق ہے اوررویت ہلال کے لیے چاند کاپیداہوناکافی نہیں ہے بلکہ اس کا انسانی آنکھ سے دیکھنا شرط ہے۔

چاند کی پیدایش سے مراد یہ ہے کہ چاندزمین کے گردتقریباً ساڑھے انتیس(29.5)دنوں میں ایک چکرمکمل کرتا ہے،اس چکر کے دوران جب چاند زمین اورسورج کے درمیان آجاتاہے توسائنسی اعتبارسے اس وقت کونیا چاند (Birth of Moon) کہتے ہیں۔ماہرین فلکیات کے مطابق20گھنٹے سے کم عمر کاچاندموجودہونے کے باوجودنظرنہیں آسکتا، جبکہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک چاند کی عمر 23سے30گھنٹے نہ ہوجائے، وہ نظرنہیں آتا۔اس سے معلوم ہوا کہ چاندنظرآنے کے لیے اس کی عمرکم از کم23سے 30گھنٹے ہونا لازمی ہے یعنی چاند کی پیدائش اوراس کے نظرآنے میں کم از کم ایک دن کا فرق لازمی ہے۔

رمضان المبارک اورعیدالفطرکے چاندکی رویت
رمضان المبارک اورعیدالفطرکے چاندکے حوالے سے اﷲ کے رسول ﷺکے یہ صریح ارشادات اصول اوربنیادکی حیثیت رکھتے ہیں۔
(۱)لاتصوموا حتی تروالھلال ولاتفطرواحتی تروہ فان غم علیکم فاقدروالہ۔
ترجمہ: (رمضان کا)چاند دیکھے بغیر روزہ(رمضان)شروع نہ کرو اور(شوال کا) چاند دیکھے بغیر (رمضان کا)روزہ نہ چھوڑو،اگر مطلع ابرآلودہو(اورچاند نظر نہ آئے)توتیس کا مہینا پورا کرو‘‘۔
(۲)صوموالرؤیتہ وافطروالرؤیتہ فان غم علیکم فاکملواعدۃ شعبان ثلیثین
ترجمہ: (رمضان کاچاند)دیکھ کرروزۂ(رمضان)شروع کرواور(شوال کا)چاند دیکھ کر اختتامِ رمضان کرو، اگر تم پرمطلع ابرآلود ہوجائے تو شعبان کے تیس دن پورے کرو‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح باب رؤیۃ الہلال)

یہ احادیث ِ مبارکہ رمضان المبارک اورشوال المکرم کے رویتِ ہلال کے بارے میں صریح نص اوراصول کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذاہر قمری مہینے کاآغاز ’’رویتِ ہلال‘‘پر ہی مبنی ہوگا۔محض چاند کے پیداہوجانے یاماہرینِ فلکیات کی رائے پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، تاہم’’شہادتِ رویت ‘‘کو قبول کرنے یاردّکرنے میں ماہرین فلکیات کی رائے سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔

فقہاء کرام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ اگرمطلع ابرآلودنہ ہوتو رمضان المبارک اور عیدین کے چاندکی رویت کے ثبوت کے لیے جمِّ غفیر (لوگوں کی کثیرتعداد)کا شہادت دینامعتبرہوگا۔چندافراد کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔

جم غفیر کی تعدادکے بارے میں بعض فقہاء نے کہاکہ ۵۰۰ افرادہوں، بعض کے نزدیک ۱۰۰۰ افراد ہوں جبکہ بعض کہتے ہیں کہ کم ازکم پچاس (۵۰) افرادہونے چاہییں،لیکن اگر شہادت امکانِ رویت کے مسلمہ سائنسی اصولوں کے بالکل خلاف ہوتواسے ردبھی کیا جا سکتا ہے، شہادت کا قبول کرنایاردکرنا قاضی کاشرعی اورصوابدیدی اختیار ہے اور شہادتیں پرکھنے اور جرح کرنے کے بعدشرعی فیصلہ قاضی کی صوابدیدپرہے ۔

یہ احادیث ِ مبارکہ رمضان المبارک اورشوال المکرم کے رویتِ ہلال کے بارے میں صریح نص اوراصول کا درجہ رکھتی ہیں لہٰذاہر قمری مہینے کاآغاز ’’رویتِ ہلال‘‘پر ہی مبنی ہوگایعنی چاندکا انسانی آنکھ سے دیکھنا شرط ہے، چاند کا پیدا ہونا یا چاند کا مطلع پرموجود ہوناکافی نہیں ہے۔ اسی طرح محض ماہرینِ فلکیات کی رائے پر فیصلہ نہیں ہوسکتا، تاہم’’شہادتِ رویت ‘‘کو قبول کرنے یاردّکرنے میں ان کی رائے سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ چاند کی رویت (دیکھنے کی شہادت) اس وقت معتبراورقابل قبول ہوگی جب چاند کا نظرآنا ممکن ہو گا،اگرچاند کی رویت کی شہادت (گواہی) ایسے وقت میں دی جائے کہ جس وقت یاتوچاندکی پیدایش ہی نہ ہوئی ہویا پیدائش تو ہو چکی ہو لیکن چاند کی عمراتنی کم ہو کہ اس کا نظرآناممکن ہی نہ ہو تو پھر شہادت معتبر اورقابل قبول نہیں ہوگی۔

قرائن قطعیہ کے خلاف شہادتیں اورقاضی کا کردار
جب چاندکی پیدایش ہی نہ ہویا چاند کو انسانی آنکھ تو کیا سائنسی آلات سے بھی دیکھنا ممکن نہ ہووتوایسے وقت میں دی جانے والی من گھڑت شہادتیں ضرور محل نظر ہوتی ہیں اوردقتِ نظر سے انھیں پرکھنااوران پر بھرپورجرح کرناہر قاضی اور منصف کابنیادی فرض بنتاہے، اس لیے قاضی کوقرائن قطعیہ کے خلاف ’’شہادتِ کاذبہ‘‘ (جھوٹی اورمن گھڑت شہادتوں)کو شرعی اصولوں اورتقاضوں کے مطابق ردّ کر دینا چاہیے۔

زونل رویت ہلال کمیٹی سندھ کے ایک ممبرمفتی سیدصابرحسین چاند کے حوالے سے تکنیکی اورسائنسی حقائق بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’جغرافیہ اورفلکیات کے ماہرین کی رائے کے مطابق دنیا کے وہ خطے جو مغرب کی جانب واقع ہیں وہاں مشرقی علاقوں کی بہ نسبت سورج دیر سے غروب ہوتا ہے اور غروبِ شمس میں تاخیرکی وجہ سے چاند کی عمر میں اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ بھی سائنسی حقیقت ہے کہ چاند کی عمرمیں جتنا اضافہ ہوگااس کا نظرآنااتنا ہی یقینی ہو جاتا ہے، اب اگر محل وقوع کے اعتبار سے پاکستان اور سعودی عرب کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستان سعودی عرب کے مقابلے میں مشرق کی جانب واقع ہے، جس کی وجہ سے یہاں سعودیہ سے تقریباً دو گھنٹے پہلے سورج غروب ہوتاہے ،لہٰذا پاکستان کا سعودیہ کی بہ نسبت مشرقی جانب ہونے کی وجہ سے یہ توممکن ہے کہ پاکستان میں چاند نظر نہ آئے اورسعودی عرب جو کہ مغرب کی جانب ہے میں چاندنظرآجائے کیونکہ سعودی عرب میں چاند کی عمرمیں پاکستان کے مقابلے میں دو گھنٹے کا اضافہ ہوجاتاہے اور اس کانظرآناکسی حد تک ممکن ہوجاتاہے(اگر دوسری شرائط پوری ہورہی ہوں)‘‘۔

پاکستان اورسعودی عرب کی جغرافیائی محل وقوع کا تقابلی جائزہ لینے کے بعدمفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’پشاور،مردان اورچارسدہ پاکستان کے وہ علاقے ہیں جہاں سے ہر سال چاند کے پہلے نظرآنے کا اعلان کردیاجاتاہے اورانہی علاقوں میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی سے بالاترالگ کمیٹی قائم کی گئی ہے، مذکورہ بالا شہر جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں انتہائی مشرق کی جانب واقع ہیں، لہٰذ ا اوپربیان کردہ مسلمہ اصول کے مطابق اگراِن علاقوں میں چاندنظر آجاتاہے تو پھر پاکستان کے وہ علاقے جومغرب کی جانب واقع ہیں اور جہاں سورج مشرقی علاقوں کی بہ نسبت دیر میں غروب ہوتاہے وہاں اگر مطلع ابرآلودنہ تو پھر یقینی طورپروہاں چاند نظر آنا چاہیے ،مگر مشاہداتی اورسابقہ ریکارڈسے یہ معلوم ہوتاہے کہ مطلع صاف ہونے کے باوجود مغربی علاقوں کے لوگ چانددیکھنے سے اکثروبیشترمحروم رہ جاتے ہیں، اس پر ہر صاحب عقل شخص سوچنے پر مجبورہے کہ یقینا دال میں کچھ کالا ہے،اس حوالے سے سندھ کے ساحلی علاقے کراچی اور بدین خاص طورپرقابل ذکرہیں کیونکہ ان علاقوں میں عام طورپرپاکستان کے مشرقی علاقے پشاور،مردان اورچارسدہ کی بہ نسبت سورج آدھا گھنٹاتاخیرسے غروب ہوتاہے جس کی وجہ سے چاند کی عمر میں آدھا گھنٹااضافہ ہو جاتاہے اورا س کے نظرآنے کا امکان بڑھ جاتاہے‘‘۔
(سعودی عرب کیساتھ رمضان وعیدین کیوں نہیں،صفحہ۱۲۔۱۵،المنیب شریعہ اکیڈمی کراچی)

منصب قضا کا احترام
مرکزی کمیٹی کے فیصلے کی حیثیت ایک ’’قضا‘‘ کی ہے جس کو پورا پاکستان مانتا اور تسلیم کرتاہے تو پھر پشاور،مردان اورچارسدہ کے چند مخصوص مولوی کیوں تسلیم نہیں کرتے جبکہ انہی کے ہم مسلک جیدعلماء مرکزی کمیٹی کے فیصلوں کو قضا کا درجہ دیتے ہوئے نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں کیونکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا پورے ملک پر اطلاق ہوتاہے،عوام کو اس کے فیصلے پرعمل کرناچاہیے۔

چاندکی رویت کے اعلان اورملک میں دوتین عیدوں کے مسئلہ پر سب سے مایوس کن کردارصوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کاہوتاہے۔پاکستان کے ایک سابق وفاقی وزیرریلوے کایہ بیان ریکارڈپر ہے ،جس میں انھوں نے کہا کہ ‘‘ ہم سرخروہوئے ہیں اورآج ہمارے صوبے میں عیدالفطرمکہ اورمدینہ کے ساتھی منائی گئی ہے کیونکہ یہ مقاماتِ مقدسہ ہمارے مذہبی مراکز ہیں اورہم ان کے ساتھ روزہ اور عید کرنا چاہتے ہیں جس سے ہرسال پیدا ہونے والاتنازع ختم ہوجائے گا‘‘۔

گویا کہ اصل مسئلہ چاند کی رویت،شہادتوں اورشرعی اصولوں کا نہیں ہے بلکہ سعودی عرب کے ساتھ عیدمناناہے،حالانکہ سعودی عرب کا رویت ہلال کانظام اور ام القریٰ کیلنڈر غیرمعتبر ثابت ہوچکا ہے جبکہ سعودی عرب اور پاکستان کے مطالع میں اور رویت ہلال کے نظام میں زمین آسمان کا فرق موجود ہے،ایسے میں ہم اپنی عبادات (روزہ، اعتکاف، شب قدر کی عبادات اور عیدالفطروغیرہ)کوکیسے داؤپرلگاسکتے ہیں۔

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کااطلاق اور نفاذپورے ملک میں ہوتاہے اوراس کو قضا کا درجہ حاصل ہے۔دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کا یہ بیان ریکارڈپر ہے کہ ’’مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا پورے ملک پر اطلاق ہوتاہے،عوام کو اس کے فیصلے پرعمل کرناچاہیے‘۔جبکہ جامعہ بنوریہ العالمیہ کے مفتی محمد نعیم نے کہاکہ خیبرپختونخواکی زونل کمیٹیوں یاغیرقانونی کمیٹی اور حکومت کی جانب سے الگ عیدمنانے کا اعلان غلط ہے‘‘۔(روزنامہ ایکسپریس کراچی،۲۰؍اگست ۲۰۱۲)

چاند دکھائی دینے کی گواہی دینے والوں کے کردار کی چھان بین کرنے کے بعد ان کی شہادت تسلیم یا رد کرنے کا حتمی اختیاراورحق مرکزی رویت ہلال کمیٹی پاکستان کوحاصل ہے۔کیا سپریم کورٹ کے کسی فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے؟ یا قرآن وحدیث کے واضح احکامات کے مقابلے میں کسی شخص کے انفرادی قول اور موقف کو ترجیح دی جا سکتی ہے؟ جب یہ نہیں ہو سکتا تو پھر مرکزی کمیٹی کے ہوتے ہوئے زونل کمیٹی کے اعلان پر اعتبارواعتماد کیونکر ہو سکتا ہے؟۔

پاکستانی میڈیاکاغیرمناسب طرزعمل
پاکستان میں پرنٹ اورالیکٹرونک میڈیا نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اورہمارے میڈیاکوہرطرح کی’’ آزادی‘‘ بھی حاصلہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیاکے طرزعمل میں بڑاتضادپایاجاتاہے اورکسی بھی اہم مسئلہ پر ہمارا میڈیا حق وانصاف کوپھیلانے کے بجائے انتشارو افتراق کے فروغ میں پیش پیش نظرآتا ہے۔ کالم نویس، اینکرپرسنز اور نیوز ایڈیٹرزاپنی رپورٹس اور تجزیاتی کالموں میں انتشار کی خبروں کو فروغ دیتے ہیں اور اختلاف و انتشاراور فساد پھیلانے والوں کی بجائے مذمت کرنے اور ان کا میڈیا بائیکاٹ کرنے کے بجائے ان کی کوریج کرتے ہیں اور انتشار پھیلانے میں دانستہ ونادانستہ اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ پاکستان وہ واحدملک ہے کہ جہاں رویت ہلال کے اہم دینی مسئلے پرمزاحیہ کارٹون بھی بنتے ہیں اورکالم بھی لکھے جاتے ہیں جوکہ ایک افسوس ناک امرہے۔

چندگزارشات اورسفارشات
٭ مرکزی رویت ہلال کمیٹی ایک آئینی اور قانونی ادارہ ہے۔اس کا وجود ایک ناگزیرملکی اورقومی ضرورت کے پیش نظرقائم کیا گیا۔تمام صوبوں کومرکزی کمیٹی کافیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ رویت ہلال کمیٹی پاکستان کو جھگڑے والاادارہ نہ بنایا جائے اور چاند کی رویت کو متنازع مسئلہ کے طور پرکھڑانہ کیاجائے بلکہ ایسا انتظام کیا جائے کہ ملک میں ایک ہی روز رمضان المبارک کاآغازہواورایک ہی د ن عیدالفطرمنائی جائے اور وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے عملی اقدامات کرے تا کہ صورت حال میں بہتری آسکے۔
٭ وفاقی حکومت کی طرف سے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کو چاند کی رویت یا عدمِ رویت کے اعلان کااختیاردیاگیا ہے تو پھر ملک بھر میں مرکزی کمیٹی کے فیصلوں پرعملدرآمد کو بھی یقینی بنایاجائے کیونکہ یہ ایک شرعی وملی تقاضا ہے۔
٭ ملک کے تمام مکاتب فکرکے سرکردہ اورقابل احترام(غیرسیاسی) علمائے کرام ،محکمہ موسمیات اورماہرین فلکیات پر مشتمل کمیٹی کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جائے اور پھر اس لائحہ عمل پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے۔
٭ چاروں صوبوں کو مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کا پابندبنانے کااہتمام کیا جائے اوراس سلسلے میں عوامی شعوراُجاگر کرنے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کی جائے۔
٭ خودساختہ پرائیویٹ رویت ہلال کمیٹیوں پر فوری طورپرپابندی عاید کی جائے اور تمام صوبائی اورزونل کمیٹیوں کو بھی ازخود فیصلہ کرنے سے سختی سے روکا جائے تا کہ مرکزی کمیٹی کے فیصلے پراتفاق رائے اور عمل ممکن ہو سکے۔
٭ وفاقی وزارت مذہبی امور کی جانب سے رمضان المبارک اورعید الفطر کے چاندکے موقع پرٹی وی اوراخبارات کے ذریعے رویت ہلال کی شرعی حیثیت اورمرکزی وزونل رویت ہلال کمیٹیوں کے طریقہ کارسے متعلق عوامی آگہی کا بندوبست کیاجائے۔
٭ آخری گزارش یہ ہے کہ رویت ہلال ایک خالص دینی مسئلہ ہے، خدارا اس کو سیاست ،لسانی تعصب پرمبنی صحافت کی نذر نہ کیا جائے اور اس پرعلم وفکراور تحقیق سے عاری کالم نویسی سے اجتناب کیاجائے اوراس کومستند ومعتبرعلماء کرام اور ماہرین فلکیات وعلم ہیئت پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کرمستقل بنیادوں پر حل کیا جائے تا کہ مسلمانان پاکستان چاند کے مسئلہ پرافتراق وانتشار کا شکار نہ ہوں بلکہ رمضان المبارک اور عیدالفطرکے مقدس اورپرمسرت موقع پراتحاد ویکجہتی اور اخوت وبھائی چارہ کا عملی مظاہرہ کرکے ایک امت واحدہ کاخوش نما اوردل آویز منظرپیش کر سکیں۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
٭٭٭٭٭
سرخیاں
٭دس ماہ تک مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر اعتمادوعمل کرنا اور رمضان المبارک اور شوال المکرم کے چاند کی رویت پراختلاف کرناتعجب خیزمعلوم ہوتاہے۔
٭مرکزی رویت ہلال کمیٹی میں ملک کے چاروں مکاتب فکر (اہلسنّت، دیوبند، اہلحدیث اور اہل تشیع) کے سرکردہ اورجید علماء کرام کیساتھ محکمہ موسمیات، پاکستان نیوی اور سپارکوکے نمایندے بھی فنی معاونت کیلئے موجود ہوتے ہیں۔
٭ماہرین فلکیات کے مطابق20گھنٹے سے کم عمر کاچاندموجودہونے کے باوجودنظرنہیں آسکتا، جبکہ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک چاند کی عمر 23سے 30گھنٹے نہ ہوجائے، وہ نظرنہیں آتا۔
٭مطلع ابرآلودنہ ہوتو رمضان المبارک اور عیدین کے چاندکی رویت کے ثبوت کے لیے جمِّ غفیر (لوگوں کی کثیرتعداد)کا شہادت دینامعتبرہوگا۔
٭جب چاندکی پیدایش ہی نہ ہویا چاند کو انسانی آنکھ تو کیا سائنسی آلات سے بھی دیکھنا ممکن نہ ہوتوایسے وقت میں دی جانے والی من گھڑت شہادتیں ضرور محل نظر ہوتی ہیں اوردقتِ نظر سے انھیں پرکھنااوران پر بھرپورجرح کرناہرقاضی اور منصف کابنیادی فرض بنتاہے۔

Moulana Nasir Khan Chishti
About the Author: Moulana Nasir Khan Chishti Read More Articles by Moulana Nasir Khan Chishti: 58 Articles with 180307 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.