موہنجو داڑو اور پراسرار ایسٹر جزیرے میں مماثلت

پراسرار تہذیبوں میں ایک اہم تہذیب “جزیرہ ایسٹر “ کی بھی ہے یہ جنوبی امریکہ کے مغربی سمندر میں واقع ہے چلی اور پیرو یہاں سے قرب ترین ہیں اور یہ فاصلہ بھی چار ہزار کلومیٹر بنتا ہے۔ یہ جزیرہ صرف 25 کلومیٹر لمبا ہے-

کوئی نہیں جانتا کہ یہاں کے باسی کب اور کیوں یہاں آئے انہیں سمندر میں اتنا دور آنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی پھر انہوں نے یہ جزیرہ تلاش کیسے کر لیا اور آخر اس بے آب و گیاہ اجاڑ زمین پر رہنے کا فیصلہ کیوں کیا؟
 

image


دنیا کو پہلی مرتبہ اس کے وجود کی خبر 1722 میں ہوئی وہ ایسٹر کا دن تھا جب اک ڈچ سیاح روگے وین یہاں وارد ہوا دور دور تک گھرے سمندر میں ملی جلی نسل کے لوگوں کو دیکھ کے حیران گیا یہاں اس کا استقبال گہرے سیاہ اور سفید اور سرخ بالوں والے لوگ کر رہے تھے-

یہ چھوٹا سا 25 کلو میٹر کا جزیرہ عجائب سے بھرا پڑا ہے 1920 میں ایک مصنف ایرک وان ڈینکن یہاں آیا
اور اس نے جزیرے کے بارے میں رائے دی کہ عہد قدیم میں خلا سے آنے والے لوگوں نے زمین کے باشندوں پر مہربانیاں کی اور ان کی یادگار ایسٹر آئی لینڈ کے پر اسرار مجسمے ہیں۔

مصنف نے اپنے نظریات چیریٹیس آف گاڈ میں پیش کئے جنہوں نے تہلکہ مچا دیا اور لوگوں کی توجہ اس جزیرے پہ بڑھتی ہی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس جزیرے ہی پررنگ برنگے لوگ کس طرح اکھٹے ہو گئے-
 

image


لیکن یہ اتنا بڑا اسرار نہیں اس سے بھی حیرت ناک چیز جو چونکا دینے والی ہے وہ یہ کہ جزائر ایسٹر کے وقوع سے بہت دور کرہ ارض کے عین مخالف سمت میں ایک ایسا طرز تحریر دیکھنے میں آیا جو انسانی دماغ کو ہلا دیتا۔ یہ مقام ہے پاکستان کی قدیم وادی سندھ۔۔ ساڑھے 4 ہزار سال پہلے یہاں ہڑپہ اور موہنجو داڑو کی تہذیبیں پھل پھول رہی تھیں جن کے ہاں انتہائی عمدہ منصوبہ بندی کے تحت عظیم شہر تعمیر کئے گئے تھے جہاں پانی کا بہترین سسٹم تھا-

1500 ق م میں شمال سے کوئی حملہ آور آئے اور ان کے ہرے بھرے شہروں کو مردہ بنا ڈالا یہ لوگ کتنے ترقی یافتہ تھے کہ ان کا اپنا تحریری نظام تھا ان کے ہم عصر سمیری بھی عظیم لوگ تھے اور ان کا اپنا جداگانہ انداز تحریر تھا- جسے پڑھ لیا گیا لیکن موہنجو داڑو کی رسم الخط کی گھتی آج تک نہیں کھلی-

جزیرہ ایسٹر اور موہنجو داڑو دو انتہائی ممکنہ فاصلے پر واقع ہیں کیا 5 ہزار سال پہلے ان دو مقامات کے درمیان کسی بھی تہذیبی رابطے کے بارے میں کوئی گمان کر سکتا تھا؟ لیکن اس حقیقت کی تشریح کون کرے کہ اتتنی متنوع تہذیبوں کے ہاں یعنی ایسٹر اور موہنجو داڑو کے ہاں ایک ہی رسم الخط بلا مبالغہ انیس بیس کے فرق سے موجود تھا-
 

image


جزیرہ ایسٹر کی چٹانوں اوت تختیوں کے نامعلوم رونگو رونگو رسم الخط کی ایک مسلسل عبارت اور موہنجو داڑو کے پراسرار رسم الخط کی ایک مسلسل ترتیب کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان تحرییروں میں بنیادی فرق یہی ہے کہ ایسٹر آئی لینڈ کی اشکال میں دویری لکیریں نظر آ رہی ہیں جب کہ موہنجو داڑو کی تصاویر ایک لکیر سے بنی ہیں- ان دونوں تحریروں میں اتنی نمایاں خصوصیات کیوں موجود ہیں اور دونوں جگہ ایک سی ترتیب کیا معنی رکھتی ہے؟

اب تک جتنے تصویری رسم الخط دریافت ہوچکے ہیں ان میں زیادہ تر خط ان تہذیبوں کے تھے جنہوں نے اپنے بعد کوئی ایسی تحریر یا قوم چھوڑی تھی جن سے اُن کے رسم الخط کا پتہ چل گیا، لیکن دنیا میں ایسی تہذیبیں بھی گزری ہیں جن کی تحریروں کو سمجھنا اب تک ماہرین کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔

رونگو رونگو، وادی سندھ کے رسم الخط سے ملتا جلتا ہے۔ ان تحریروں کو پڑھ کر اس نامعلوم تہذیب کے متعلق پتا لگایا جاسکتا تھا لیکن ماہرین اس تحریر کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کیونکہ ہسپانیوں کے اس جزیرہ پر حملہ کے نتیجہ میں یہاں چند افراد ہی زندہ بچ سکے اور جتنے پڑھے لکھے تھے سب مارے گئے تھے۔

YOU MAY ALSO LIKE:

A mere 28km from Larkana town is one of the most fascinating spots you could possibly visit in Pakistan: Mohenjo Daro, a significant representative of the Indus Valley Civilisation or IVC and one of the biggest cities of its time. “Writing on Easter Island, called Rongo-Rongo writing, [oh REALLY?] is also undeciphered, and is uncannily similar to the Mohenjodaro script.”