کروڑی مل کالج، دہلی یونیورسٹی:علم ،ادب اور ثقافت کا گہوارہ

جیسے ہی صدر جمہوریہ کی طرف سے یہ اعلان ہوا کہ تاریخی نوعیت کا باغ ’باغ مغل‘ عوام کے لیے کھول دیا گیا ہے کروڑی مل کالج کے شعبہ اردو میں بھی علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا ایک نیا باب کھل گیا۔ کروڑی مل کالج نے تو جیسے فعالیت کے باغ لگا رکھے ہیں۔ آئے دن درس و تدریس کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ثقافتی و علمی سرگرمیاں کالج میں ہوتی ہی رہتی ہیں۔اس لیے کہ دہلی یونیورسٹی میں یہ کالج علم و ہنر کا عظیم گہوارہ ہے ۔ ادھرصدر جمہوریہ ہیں جو ملک کی ترقی و بہبود میں لگی ہوئی ہیں، اورادھرکروڑی مل کالج کے سربراہان وعہدے داران ہیں جو دن رات اسی فکر اور عمل میں سرگرداں ہیں کہ کیسے کالج کی ترقی ہو، اس کے ہر گوشے ہر شعبے میں وسعت ہو۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ کروڑی مل کالج کی بجائے ملک و قوم کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں ہو تو ملک و قوم کو رہنمائی کا اعلی نمونہ دیکھنے کو ملے۔

تاریخی نوعیت کا ’باغ مغل‘ یعنی مغل گارڈن اور تاریخی اہمیت کے حامل کروڑی مل کالج میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ وہاں بھی کئی الگ الگ قسم کے پودوں کے گوشے ہیں جو اپنی نوعیت کے عالمی شہرت یافتہ ہیں کروڑی مل کالج میں بھی علم و ہنر کے کئی شعبے ہیں جو اپنے علم و ہنرمیں عالمی شہرت یافتہ ہیں۔ آج جو ذکر ہے وہ اس باغ کے یعنی کہ کالج کے ایک خاص شعبے کی گل افشانی کا ہے۔مراد شعبہ اردو سے ہے۔سبحان اﷲ! ہندوستان کی زبان اور اردو زبان! اس زبان کا ادب ،ماشا اﷲ!! تاریخی اہمیت کے حامل کروڑی مل کالج، دہلی یونیور سٹی کا شعبہ اردو آج کل بہت سارے گل بوٹے کھلانے اور ان کی آبیاری میں لگا ہوا ہے۔ہمیشہ سرسبز و شاداب رہنے والا یہ باغ اس موسم گل میں تو کچھ ایسے رنگ بکھیر رہا ہے جیسے آسمان پر فرشتوں نے ستاروں میں رنگ بھر کر کالج پر بکھیر دیے ہیں۔ گذشتہ دنوں ۹ فروری کو نئے نصاب کی تیاری کے لیے ایک عظیم الشان سیمینار اور ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا جس میں دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اہم اساتذہ اور دہلی یونیورسٹی سے ملحق تمام کالجز کے سبک دوش اور سینئر اساتذہ اور بڑی تعداد میں طلبا اور طالبات نے شرکت کی ۔ ساتھ ہی ۱۰ فروری کو ثقافتی اور ادبی پروگرام کا انعقاد ہوا جس میں انعامی مقابلے بھی شامل تھے پھر ۹؍مارچ کو ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ کے تحت بزم ادب کی جانب سے ملک کے چند اہم فنکاروں سے ملاقات اور ان کی تعظیم و تکریم کے لیے ایک اہم جلسہ منعقد کیا گیا تاکہ اپنے طلبا و طالبات میں ادب و ثقافت کا رجحان ودلچسپی پیدا ہو سکے۔ ایک کے بعد ایک ان ادبی اور ثقافتی جلسوں و سمیناروں اور دیگر ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو دیکھ کر یہ گمان گزرتا ہے کہ کروڑی مل کالج میں ادبی اور ثقافتی میلہ لگا ہوا ہے۔ اب تعلیمی سال کے اختتام پر طالب علموں کا الوداعی جلسہ۔ کہیں آنکھوں سے اشک جاری ہے کہ پرانی ملاقاتیں اب کس موڑ جائیں گی خدا جانے۔ کہیں تعلیمی اچھال کی امنگیں کلانچیں بھر رہیں۔

تیاریاں تو کئی روز سے چل رہی تھیں لیکن ۹ فروری کی صبح کا سوروج کوہاسے کو چیرتا ہوا جیسے ہی باہر نکلاسیمینار ہال میں علم و ادب کے شمس و قمر کا ہجوم امنڈ آیا۔ آج شعبہ اردو کروڑی مل کالج میں سیمسٹر سسٹم کے پیش نظر نئے نصاب کی تشکیل کے لیے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کی صدارت کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے فرمائی۔ سیمنار کا مقصد جہاں طلباء کو بی اے آنرز اردو کے نصاب کے حوالے سے بیدار کرنا ہے وہیں نئے نظام تعلیم کے لیے نئے نصاب کی تیاری ہے یعنی کہ اب کالج و یونیورسیٹی کے گلستان پر نئی فضا، نئی آب و ہوا مسلط ہونے والی ہے تواب جو نئے پودے اور نئے پھول کھلیں گے ان کو اس نئی فضا اور نئی آب ہوا کے عین مطابق کھلنے اور خوشبوئیں بکھیرنے کے لیے تیار کیے جانے سے یہ جلسہ مختص ہے۔ اس سیمینار میں صدر شعبہ اردو دہلی یونورسیٹی پروفیسر ارتضی کریم نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی اور میزبانی کے فرائض بھی انجام دیے۔ اگر کالج کو ایک ریاست مان لیں تو یونیورسیٹی دارالحکومت ہے۔ ظاہر ہے ریاست کے بادشاہ کالج کے ناظم اعلی ہوئے اس میں مرکزیت وائس چانسلر کو حاصل ہوئی۔ لیکن اس سیمنار میں شامل کالجز کے تمام اساتذہ خود شہنشاہ لگ رہے تھے، جس میں مرکزیت حاصل تھی صدر شعبہ اردو دہلی یونیور سٹی کو۔ یعنی پروفیسر ارتضی کریم شہنشاہ اعظم ہوئے۔ اس سیمینار میں سینئر استاد ڈاکٹر عبد العزیز نے بحیثیت ماہر نصاب شرکت کی گویا کہ ڈاکٹر عبدالعزیز نئی فضا اور نئی آب وہوا کے لیے ماہر اور تجربہ کار شہنشاہ سمجھے گئے۔آج کے شہنشاہ اعظم پروفیسر ارتضی کریم نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نئی نسل کو نئے نصاب کی ضرورت ہے ، گذشتہ پچاس سالوں سے ہمارے نصاب میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے طلباء و طالبات کو عملی میدانوں میں دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔مزید کہاکہ اردو ایک نیچرل اور فطری زبان ہے، جس میں ہر جذبے اور ہر آواز کی ادائگی بآسانی ہو جاتی ہے۔ بازار کی ضرورت کے مطابق ترسیل کا حق بھی اردو نے ہمیشہ ادا کیا ہے، اردو کا مستقبل بہت تابناک ہے۔، ہمارے طالب علموں کو ذرا بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ضرورت ہے تو بس اپنے اندر مہارت پیدا کرنے کی۔ اسی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نئے نصاب کی تشکیل کا کام انجام دیں گے۔ جب شہنشاہ اعظم اپنی تقریر فرما رہے تھے تو سامعین پر ایک طرح کا سحر طاری تھا۔ کالج کے پرنسپل پروفیسر بھیم سین سنگھ نے اپنا صدارتی خطبہ پیش کر کے اس سحر میں مزید اضافہ کر دیا۔پروفیسر بھیم سین سنگھ نے اپنے صدارتی خطبے میں حاضرین و حاضرات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اردو ہندوستان اور جمہوریت کی علامت ہے ۔ ہمیں اگر اپنے ملک میں ایکتا کی رنگارنگی اور یگانگت کی کشش کو بر قرار رکھنا ہے تو اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھنا اور اپنی عملی زندگی میں اتارنا ہوگا۔ ہندوستانیوں کی اصل مادری زبان اردو ہی ہے۔ جب جب میں اردو کے علمی ادبی و ثقافتی جلسوں میں شرکت کرتا ہوں تومجھے بچپن کے حکیم چاچا یاد آتے ہیں۔ حکیم چاچا کی شفقت نے بہت کچھ سکھایا۔ اردو میں میں حکیم چاچا کی وہ شفقت دیکھتا ہوں آج کچھ کمزوریاں ضرور راہ پا گئی ہیں لیکن ان کی اصلاح ممکن ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے نوجوان نسل کے اردو کے اساتذہ و طلباان کمزوریوں اور کمیوں کو دور کر نے میں کامیاب ہوں گے اور مستقبل میں اردو کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا کریں گے ۔ مجھے طمانیت ہے کہ کروڑی مل کالج کے تاریخی اہمیت کے حامل شعبہ اردو نے نئے نصاب کی تشکیل کی بنیاد رکھنے کی پہل کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سانجھی وراثت کی امین اردو ہمارے طلباء و طالبات کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنائے گی۔ موصوف تو اردو کی فلاح و بہبودگی کے کئی مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ اردو کے حوالے سے ان کے اخلاص اور جوش و جذبے سے بھری تقریرسے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔ اس نئی فضا اور اور نئی آب و ہوا کو بھانپ کر اس کے لیے نئی پود و نئی نسل کی تیاری کا پہل کرنے والے اور اس سیمنار کا انتظام و اہتمام کرنے والے ناظم ڈاکٹر یحیٰ صبا ؔنے مہمانوں کا استقبال کیا تھااور عصری تقاضے کے تحت نئے نصاب کی ضرورت اور افادیت پر روشنی پہلے ہی ڈال چکے تھے۔ اس سمینار کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد محسن نے انجام دئے۔ اس سیمینار میں شعبہ اردو دہلی یونیور سیٹی کے علاوہ دہلی یونیورسیٹی سے ملحق کالجوں کے استاذہ کے ساتھ بڑی تعداد میں طلباء و طالبات نے شرکت کی اور پروفیسر ارتضی کریم کی نگرانی میں بی اے کا نیا نصاب تشکیل دیے جانے کے لئے بی اے پاس اور بی اے آنرس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ یہ وہ کمیٹیاں ہیں جو آنے والے کل کا اثاثہ تیار کریں گی۔ شرکاء میں خاص طور پر پروفیسر توقیر احمد خاں ،ڈاکٹر راکیش پانڈے ، پروفیسر فیروز دہلوی ڈاکٹر عبد العزیز ، ڈاکٹر قدسیہ قریشی ، ڈاکٹر طیبہ خاتون ، ڈاکٹر مشتاق قادری ، ڈاکٹر عفت زریں، ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر قمر الحسن، ڈاکٹر، مولا بخش، ڈاکٹر علاء الدین شاہ، ڈاکٹر شاہ عالم، سلیم امروہوی، ڈاکٹر شاہینہ تبسم، ڈاکٹر رئیسہ پروین ، محمد مرتضی، ڈاکٹر اصغر علی، ڈاکٹر غفران راغب، محترمہ نور النساء ، ڈاکٹر انعام الحق، وغیرہ قابل ذکر ہیں( ان سب ناموں کے ساتھ شہنشاہ آپ خود لگا لیں)۔ طلباء کا ایک جم غفیر بھی اس میں شامل ہے جن کے لیے نئی فضا سازی ہو رہی ہے۔ اس جلسے کی شان و شوکت کے چرچے بہت دور تک پھیلے، اس میں کہی گئی علمی و ادبی باتوں کی گونج تو اب تک فضا میں قائم ہے۔

اب جو ۱۰ فروری کا دن نکلا تو اسی سمینار ہال میں طلباء اور اساتذہ کا ایک بار پھر مجمع لگا۔ اس مجمع کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھاجیسے طرح طرح کے پھولوں، غنچوں اور باغبانوں کا ریلا لگا ہوا ہے۔ آج کے اس میلے میں گزشتہ کل کے شہنشاہوں میں سے کچھ اور طلبا جو مستقبل کے شہنشاہ ہوں گے حصہ لینے والے ہیں۔یہاں غزل سرائی اور بیت بازی کے مقابلے کا آغاز ہوناہے۔ آج کی تقریب کا آغاز ہوا تو جیسے بھنوروں، کلیوں ، اور باغ بانوں پر سرور طاری ہو گیا۔ مقابلوں کے افتتاحی اجلاس کی تقریر ڈاکٹر یحیی صبا نے کی۔ ڈاکٹر یحی صبا کی یہ تقریر کوئی رسمی تقریر نہیں تھی بلکہ علمی لیاقت کا ڈنکا بج رہا تھا، جس کی چوٹ پر ہر کوئی تھرک اٹھتا تھااور اس کی گونج آسمانوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ڈاکٹر یحی صبا یوں تو جواں سال ہیں لیکن ان کے تجربے اور انکی دور اندیشی ماشا اﷲ۔ان کی دانشوری و دوراندیشی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کا مرد کامل کروڑی مل کالج کے احاطے میں اتر آیا ہے۔ تقریب کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر محمد محسن نے ادا کئے ۔ڈاکٹرمحمد محسن بھی جواں سال ہیں ۔ ان کی شخصیت کا وقار بھی کم نہیں۔ ان کی زندہ دلی اور رنگین طبیعت نے پورے ماحول کو بوجھل نہیں ہونے دیا۔ اس تقریب میں ڈاکٹر فیروز احمد خان نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔جج کے فرائض شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ،کے پروفیسر توقیر احمد خان اور کروڑی مل کالج کی ڈاکٹر طیبہ خاتون نے ادا کئے۔پروگرام کی نظامت شعبہ اردو دلی یونیورسٹی،کے شہنواز ہاشمی نے کی۔ تقریب کا آغاز کروڑی مل کالج کے طالب علم عامر آفاق نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ اﷲ اﷲ!! کیا منظر تھا۔ سب لوگ ایک خوشگوار مستی و جوش میں شرابور نظر آ رہے تھے۔

پروفیسر توقیر احمد خان نے تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے غزل سرائی اور بیت بازی کے اصولوں کی وضاحت کی۔ یہ وضاحت ایک عالمانہ آبیاری کی طرح محفل میں موجود غنچوں، پھولوں اور باغبانوں کو سرابور کیے جا رہی تھی۔ مقابلے کا پہلا پروگرام غزل سرائی طے کیا گیا ،جس میں دلی یونیورسٹی کے مختلف کالجوں کی ٹیموں نے حصہ لیا،ان میں ذاکر حسین کالج،ماتا سندری کالج۔سینٹ اسٹیفنس کا لج،شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ،شعبہ اردو کروڑی مل کالج کے نام سر فہرست ہیں۔ یہ سب کالجز ان علمی اداروں(باغوں) میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی اامتیازی پیداوار اور خوشبوؤں کے مجموعے کے لیے مشہور ہیں۔ طلبا نے بہت ہی گرم جوشی کے ساتھ غزل سرائی کے مقابلے میں حصہ لیا اور اردو ادب کے نامور شعراء قلی قطب شاہ،میر تقی میر،سودا،فیض،مشیر جھنجھانوی،اور حفیظ جالندھری کی غزلوں سے بزم ادب کو محظوظ کیا، صاحب محظوظ کیاکیا مانو! طرح طرح کے پھول کھلائی گئے ہیں جو اپنی خوشبوئیں جھوم جھوم کے بکھیر رہے ہیں۔شعبہ اردو دلی یونیورسٹی ،کے محمد سلمان نے قلی قطب شاہ کی غزل ’’پیاباج پیالہ پیا جائے نا،پیا باج یک تل جیا جائے نا‘‘ سنا کر وہاں بیٹھے تمام سامعین کا دل جیت لیا۔اس مقابلے میں پہلا انعام ماتا سندری کالج کی مہناز بیگم نے حاصل کیا جبکہ دوسرا انعام شعبہ اردو دلی یونیورسٹی کی آسیہ بیگم،اور تیسرا انعام سینٹ اسٹیفنس کا لج،کی مہیما دیال نے حاصل کیا۔خیال رہے کہ یہ فیضؔ صدی چل رہی ہے طلبا نے اس بات کا پورا پورا خیال رکھا ۔ فیضؔ کے کلام کو پیش کرنے اور فیض ؔ کے کلام پر داد دینے دونوں میں ایک خاص قسم کا جذباتی لگاؤ دیکھنے کو مل رہا تھا۔

دوسرا مقابلہ، بیت بازی میں بھی طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔غزل سرائی کے مقابلے یہ مقابلہ زیادہ دلچسپی کا باعث رہا۔ اشعار تو طلباء کے منھ سے ایسے نکل رہے تھے جیسے برسات کی بھاری بھاری اور گاڑھی گاڑھی بوندیں اپنے ساتھ طرح طرح کے پھولوں کی پتیاں بھی برسا رہی ہوں۔ اس میں چار ٹیموں ،ذاکر حسین کالج،سینٹ اسٹیفنس کا لج،شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی ، اورشعبہ اردو کروڑی مل کالج نے شرکت کی ۔طلبا نے بیت بازی کے مقابلے میں غالبؔ ،اقبالؔ اور داغ ؔکے اشعارسے پوری محفل کو ایساسرا بور کیا کہ مانو ! یہ استاد شعراخود محفل میں حاضر ہو کر اشعار تخلیق کر کے ہوا میں اچھالے جا رہے ہیں۔ یہ تھا عالم کلام کی تازگی کا۔ اس مقابلے میں شعبہ اردو دلی یونیورسٹی کی آسیہ بیگم،عالیہ،اور ماہرہ بیگم نے اول مقام حاصل کیا،دوسرے مقام پر ذاکر حسین کالج اور تیسرے مقام پر سینٹ اسٹیفنس کا لج رہا۔

مہمان خصوصی فیروز احمد خان نے تمام شرکاء کی پیشکش پر اپنے تاثرات پیش کئے اور تمام طلباء کو اپنے مفید مشوروں سے نوازا۔انہوں نے اردو زبان کو بازارسے جوڑنے کی صلاح دی نہ کہ اسے بازارو زبان بنانے کی۔واہ! بازار کے حوالے سے اتنی باریک بات کوئی ایسا ماہر ہی کہ سکتا ہے جس کو کہ بازار کا بہت اچھا تجربہ ہو۔ اور فیروز صاحب کی تعریف یہ ہے کہ موصوف خود بڑے تاجر ہیں، گاندھی نگر جو تاجروں کا گہوارہ ہے وہاں کے چند بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ آپ خود غور کریں کہ آج جو کچھ بھی ترقی و ترویج پا ریا ہے اس کا بازار سے کتنا گہرا رشتہ ہے۔ لیکن اگر کوئی چیز بازارو ہو جاتی ہے تو اس کی وقعت پھر کچھ بھی نہیں رہ جاتی۔ یہاں ’بازارو‘ ہونے اور’ بازار سے جڑنے‘ کا امتیاز بہت باریک ہے۔ جس کو موصوف نے پوری طرح واضح کر دیا اور سامعین کو ایک اہم نکتے سے روشناس کیا۔ پھر کیا تھا؟ اتنا اہم نکتہ/ نسخہ ہاتھ لگ گیا تھا تو محفل کو اختتام تک پہنچنا ہی تھا، تاکہ سب لوگ اس نکتے/ نسخے کو عمل میں لانے کے لیے جٹ جائیں ۔ تقریب کا اختتام کرتے ہوئے صدر جلسہ نے تمام حضرات کا شکریہ اد ا کیا ۔ مہمان خصوصی فیروز احمد خان صاحب کے ساتھ دوسر ے اساتذہ نے بھی طلباء میں انعامات تقسیم کئے اور انہیں مبارکباد پیش کیا۔ یہ محفلیں ایسی با اثر اور پر مغز تھیں کہ پورا مہینہ اسی مستی سرور میں ڈوبا ہوا بیت رہا تھا۔

ابھی گزشتہ محفلوں کا سرور کم بھی نہ ہوا تھا کہ ۹ مارچ کو سمینار ہال میں ’’بزم ادب ‘‘ کروڑی مل کالج کی جانب سے ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ کے عنوان سے ایک ادبی اور ثقافتی محفل کا پھر انعقاد کیا گیا۔آج کے فنکار کے طور پر جناب اظہار عثمانی کو مدعو کیا گیا ہے۔ ’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ یعنی اپنی تہذیبی و ثقافتی روایت سے رو برو ہوئیے۔ اس محفل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہر سال منائی جاتی ہے جس میں اپنے وقت کے کسی عظیم فنکار سے طلباء و طالبات اور اساتذہ کی ملاقات کرائی جاتی ہے تاکہ فن کی تدریس و تفہیم میں آسانی پیدا ہو سکے۔ عظیم فنکار میں ہم عصر شعرا، افسانہ نگار، ناول نگار، طنز و مزاح نگار، ڈرامہ نگار یا دیگر اہم ادبی شخصیات میں سے کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ اس محفل میں طلباء و طالبات کے ساتھ اساتذہ بھی اس فنکار سے ، اس کے فن سے اور اس کے فن کی ترسیل سے متعلق کھل کر گفتگو کرتے ہیں۔ آج کے مدعو فنکار جناب اظہار عثمانی کئی دہائیوں سے اردو کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کے لاتعداد افسانے، ناول ، انشائیے دنیا کے مشہور و معروف ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔جناب اظہار عثمانی کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی اہم فنکار آج کے اس جلسے کی شان ہیں۔ ایسااس لیے تاکہ فن کی وسعت کا خیال اور اس کی رنگا رنگی کی کیفیت کا احساس موجود رہے۔اس محفل کا آغاز شعبہ اردو کی روایت کے مطابق رسم گل پوشی سے کیا گیا، عالم طرب میں جھومتے ہوئے سب سے پہلے شعبے کے استاد اور ناظم جلسہ ڈاکٹر یحی صبانے مہمانوں کا خیر مقدم کیا ، اور تعارفی خطبہ پیش کیا۔ اپنے خطبے میں انہوں نے کہا کہ کروڑی مل کالج کا شعبہ اردو اردو زبان و تدریس کے ضمن میں ایک تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اس شعبے سے ڈاکٹر خلیق انجم ، ڈاکٹر کامل قریشی جیسے اکابرین وابستہ رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ علم و ادب کے علاوہ ثقافت بھی ذریعہ اظہار و تہذیب کا اہم جز ہے لہذا آج کا یہ ثقافتی پروگرام ’’اپنے فنکار سے ملیے ‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ماشا اﷲ کیا سلسلے ہیں۔ جہاں نور کی بارشیں ہو تی ہیں۔ علم کا دریا بہتا ہے ۔ درد وغم کا مداو ہوتا ہے۔ اﷲ ایسی روایتوں اور سلسلوں کو نظر بد سے بچائے۔ آمین! ثمہ آمین!!۔ اس پروگرام کا افتتاح دہلی یونیورسٹی شعبہ اردو کے صدر جناب پروفیسر ارتضی کریم نے کیا ۔ اپنے افتتاحی خطبے میں جناب پروفیسرارتضی کریم نے فن اور فنکار کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں پر زور دیتے ہوئے ہم طالب علموں سے مخاطب ہو کر اس کی تفہیم کی طرف ذہن کو رجوع کرنے کی بات کہی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ادیب کی تخلیق اور عبادت میں زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک زاہد مسلسل عبادت میں لگا رہتا ہے اسی طرح ایک ادیب اور فن کار بھی اپنے فن کی تخلیق میں خشو ع وخضو ع کے ساتھ لگا رہتا ہے۔ اپنی اس تقریر میں پروفیسر ارتضی کریم نے یہ بھی کہا کہ فنکار ہونے کے لیے گمرہی ضروری ہے۔ یہ گمرہی ہی صحیح راہ تلاش کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔اس کے بعد پروگرام کا آغاز با ضابطہ طور پر ڈاکٹر پروفیسر راکیش پانڈے کی غزل سرائی سے کیا گیا۔ پروفیسر راکیش پانڈے نے اردو کی کلاسیکی غزل کو اپنے مترنم آواز میں سنا کر سامعین کا دل جیت لیا۔ غزل پیش کرنے سے قبل انہوں نے اردو زبان کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اردو مجھے بے حد پسند ہے افسوس کہ مجھے یہ زبان نہیں آتی لیکن جو کچھ بھی اس زبان کا سنتا ہوں سیدھا دل میں اتر جاتا ہے۔ صدق دلی اسی کو کہتے ہیں۔ کتنے دو ٹوک انداز میں انہوں نے اردو کی اہمیت کا اعتراف کیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ پروفیسر راکیش پانڈے شعبہ فزکس میں بہت سینئر استاد ہیں۔ اپنے موضوع پر ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ کالج کی ا ٓن بان و شان ہیں۔ ملک و بیرون ملک میں بہت مشہور ہیں،اسی حوالے سے بیرون ملک کا کئی سفر کر چکے ہیں۔ درس و تدریس کے علاوہ آپ کی دلچسپی کلاسیکی موسیقی ،گیت اور غزل گوئی میں بھی ہے۔ ڈاکٹر راکیش پانڈے کے کئی البم منظر عام پر آچکے ہیں۔ آپ کے اپنے بلاگ اور کالم بھی انٹرنٹ پر دستیاب ہیں، جس میں سیکولر قیادت، اخوت، رواداری اور انسان دوستی پر مبنی ان کے مضامین دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ جب غزل پیش کر رہے تھے تو میں نے دیکھا کہ سامعین پر سکوت طاری ہے۔ وقت ٹھہرا ہوا ہے۔ سب کچھ بے حس و حرکت ہے ۔ اگر کچھ جاری ہے تو ڈاکٹر راکیش پانڈے کی غزل سرائی۔جب اردو کی کئی غزلیں اپنی مترنم آواز میں سنا کر ڈاکٹر راکیش پانڈے ڈائس سے ہٹے تو انجماد ٹوٹا اور سب کو ہوش آیا۔ مسحور سامعین نے خوب داد و تحسین سے نوازا۔ اس پروگرام ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ میں سب سے پہلے مہمان فنکار جناب شمس رمزی کو مدعو کیا گیا ۔ شمس رمزی نہایت سنجیدہ اور اہم شعرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جناب شمس رمزی نے عصری تقاضے کے مطابق اپنے کلام کو سنا کر سامعین میں ایک خاص سماں باندھ دیا۔ انھوں نے یکے بعد دیگر کئی اشعار اور نظمیں سنائیں جن پر سامعین نے کھل کر داد و تحسین عطا کی۔پھر نوجوان نسل کے اہم شاعر جناب راشد عزیزی ؔکو اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔ راشد عزیزی کے بعد جناب شرفؔ نانپاروی کو دعوت سخن دی گئی جنہوں نے اپنی آواز کے جادو اور اپنے کلام کی کشش سے سامعین کو مسحور کر دیا۔اب باری تھی ’’اپنے فنکار سے ملیے‘‘ کے خاص مہمان کی۔ جس کے لیے اظہار عثمانی صاحب کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے فن سے حاضرین مجلس کو محظوظ کریں۔ جناب اظہار عثمانی نے ادب اور فن پارے کی تفہیم اور اس کی ترسیل پر مختصرا گفتگو کی اس کے بعد اپنا ایک شاہکار انشائیہ’’ادبی لفافہ‘‘ پیش کیا۔ ’’ادبی لفافہ‘‘ ایک طنزیہ اور مزاحیہ تخلیق ہے، جس میں لفافے کے متعلق مزاحیہ شگوفے بکھیرتے ہوئے لفافوں کی بدلتی صورت اور اہمیت پر بہت دلچسپ انداز سے روشنی ڈالی،جس کا سلسلہ کبوتروں کے ذریعہ پیغام بھیجنے سے لے کر غالبؔ کے خطوط سے ہوتے ہوئے آج کی محفلوں میں ادیبوں و فنکاروں کو دیے جانے والے لفافے تک جڑتا ہے۔ اگر آپ اظہار عثمانی صاحب کا ’’ادبی لفافہ‘‘ کہیں دیکھیں تو اس کا کم از کم ایک بار مطالعہ کر کے خود کومحظوظ کرنے کا موقع ضرور فراہم کریں۔ ’’ادبی لفافے‘‘ کے ذریعہ اظہار عثمانی صاحب نے معاشرے میں پیدہ ایک کرائسس اور غیر معیاری چلن کی طرف طنزیہ اشارہ کیا ہے جس کی طرف لوگ بڑھتے ہوئے جھجک بھی محسوس نہیں کرتے بلکہ اسی کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔جناب اظہار عثمانی کی اس تخلیق کو سن کرسامعین بہت محظوظ ہوئے ۔ اس کے بعدپروفیسر توقیر احمد خاں نے صدارتی خطبہ پیش کیا۔ جس میں فنون لطیفہ اور اس کے فنکار کے حوالے سے پر مغز تقریر کی۔ اپنی اس تقریر میں پروفیسر توقیر احمد خاں نے مزید کہا کہ فن کار ایک جادو گر ہوتا ہے اور وہ اپنے فن میں جادو گری پیدہ کرنے کے لیے بہت جدو جہد کرتا ہے۔ فن پر مہارت حاصل کرنا اس کے تشکیلی عمل میں پیہم لگے رہنا اس کی مجبوری نہیں اس کا ذوق ہوتا ہے۔ موصوف اس وقت اردو کی نئی بستیوں میں ماہر اقبالیات کے طور پر بہت مقبول و مشہور ہیں۔ خاموش طبیعت انسان ہیں لیکن آپ نے بڑے بڑے ادبی کاربامے انجام دیے ہیں۔ ان دنوں برصغیر کی مشہور یونیورسیٹی دہلی یونیور سٹی کے شعبہ اردو کے صدر کی حیثیت سے اردو کی تعلیم و تدریس اور اردو کے عام مفاد کے لیے خدمات انجام دے رہے ہیں۔جہاں اردو کے بڑے بڑے نابغے اپنے علمی ادبی جوہرسے اردو کا گیسو سنوار ہے ہیں۔

آج کے اس ’’اپنے فن کار سے ملیے‘‘ پروگرام کی نظامت کے فرایض ڈاکٹر محمدمحسن صاحب نے انجام دیے اور اظہار تشکر کے کلمات شعبے کی سنیئر استاد ڈاکٹر طیبہ خاتون نے ادا کئے۔ اس محفل کے شرکاء میں ڈاکٹر علاالدین شاہ، ڈاکٹر عامر اختر، ڈاکٹر سرفراز عالم، شاہ نواز، محترمہ نورالنساء، داکٹر غفران راغب، ڈاکٹر مرتضی، شبّیر عالم، مظفر، آیت اﷲ،ڈاکٹر انعام الحق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں طلباء و طالبات اور دیگر سامعین موجود تھے۔ اس پروگرام کو آراستہ کرنے میں طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جن میں عامر آفاق، سلمان خان، جنید، رضا، فرح ناز وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ کروڑی مل کالج کے شعبہ اردو کی جانب سے منعقدہ ان پروگراموں میں اردو کے دانشوروں اور طلبا و طالبات کی فعال شرکت کو دیکھ کر بڑی طمانیت ہوتی ہے۔

اب دن آیا ۶ اپریل کا۔ ایسا دن ہر سال آتا ہے کہ باغ کا ایک بڑا گوشہ، کالج کا ایک اہم حصہ اپنے وجود پر فخر محسوس کرتا ہے، کہ وہ اب اور مضبوط و توانا ہو کر کہیں اور آباد ہو۔ کسی اور گلشن کی آبیاری کرے۔ یعنی یہ تکمیل کی اس حد کو پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ اب مزید اعلی اور عمدہ معیار پانے کے لیے اس باغ سے جدا ہوں۔ یہ خوشی اور غم دونوں کا باعث ہے۔ کروڑی مل کالج کے شعبہ اردو کی انجمن ’’بزم ادب‘‘ کی جانب سے کالج کے سمینار ہال میں یہ الوداعی تقریب بڑے دھوم دھام سے منائی گئی۔ یہ تقریب ہر سال سال دوم اور سال اول کے طلباء سال سوم کے طلباء کو وداع کرنے کے لیے مناتے ہیں۔ اس تقریب میں کالج کے تمام اساتذہ بھی موجود تھے ۔ جن کی نگرانی میں طالب علموں نے طرح طرح کے ثقافتی پروگرام پیش کیے اور اردو سے متعلق اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ پروگرام کی شروعات باضابطہ طور پر کلام پاک کی تلاوت سے ہوئی۔ عامر آفاق نے تلاوت کلام پاک پیش کیا، اور ساتھ ہی نظامت کے فرائض بھی انجام دیے۔ اس کے بعد مسعود جاوید(سال دوم)نے اقبال اشہر کا مشہور اردو ترانہ ترنم کے ساتھ سنا کر سامعین کوفکر میں ڈال دیا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے متعدد طالب علموں نے اردو کے کئی نغمے ، غزل اور گیت مترنم آواز میں پیش کیے، جن سے سیمنار ہال میں ایک سماں سا بندھ گیا۔ سال سوم کے طلباء اور طالبات نے اس موقع پر شعبے کے استاتذہ کے مثالی طرز تدریس پر مبنی ایک مزاحیہ ادبی ڈرامہ’’ہم ساتھ ساتھ ہیں‘‘پیش کیا۔ اس مزاحیہ ڈرامہ کے ذریعہ تمام اساتذہ کے اتحاد اور اتفاق کو قائم رکھنے کا پیغام دیا گیا۔ڈرامے کے فی البدیہ مکالمے اور پیش کش سے ناظرین بہت محظوظ ہوئے ۔اس کے بعد سال دوم اور سال اول کے طلباء کے ذریعہ سال سوم کے طلباء کو الواداعی تحفے ، مومینٹو، گلدستے وغیرہ پیش کئے گئے۔ ساتھ ساتھ سال سوم کے طلباء کو طرح طرح کے القاب سے بھی نوازا گیا۔ان القاب پر کبھی تو سامعین میں قہقہے کا پھوارہ پھوٹ پڑتا اور لوگ متحیر رہ جاتے۔

تقریب میں شامل اساتذہ اور طلباء کے درمیان ایک خاص طرح کا سرور طاری تھا۔ اسی کے دوران فرداً فرداً سبھی اساتذہ کو اپنے الوداع ہوتے طالب علموں سے مخاطب ہو نے کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ڈاکٹر خالد اشرف صاحب نے اپنے خطبے میں کہا کہ تین سال میں ہم ایک فمیلی بناتے ہیں۔ جو ایک مدت کے بعد بکھر جاتی ہے۔طلبا کے ساتھ تعلیم و تربیت کے دوران ایکemotionalرشتہ بن جاتا ہے اور جب تین سال کے بعد اس فیمیلی سے جدا ہونا پڑتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر طیبہ خاتون نے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں اچھا ادبی اور تعلیمی ماحول بنائیں ساتھ ہی الوداع ہونے والے طالب علموں کواعلی مقام حاصل کرنے کی دعائیں دیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر یحی صبا نے طالب علموں سے الوداعی خطبہ پیش کیا۔ اپنے خطبے میں انھوں نے آپ ﷺ کے ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہجرت میں نصرت اور ارتقا کا عمل شامل ہے۔ عزت اسے ملی جو چمن سے نکل گیا‘ اس کے ساتھ انہوں پورے کالج کی طرف سے اور شعبہ اردو کی طرف سے سال سوم کے طلباء کو الوداع کہا اور خوش آئند مستقبل کے لیے دعائیں دیں۔ ڈاکٹر محمد محسن صاحب اس جلسے میں روح رواں کی حیثیت سے موجود رہے لیکن عین اس وقت جب بچوں کو دعائیں دے کر وداع کرنے کی گھڑی آئی کسی مصروفیت کی بنا پر انہیں کہیں جانا پڑا، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس وقت موجود ہوتے تو بچوں کو پند و نصائح کے ساتھ دعائیں دیتے اور وداع ہوتے طالب علموں کو ان کے روشن مستقبل کے لیے علمی و ادبی نسخہ کیمیا عطا کرتے۔ اس جلسے کی صدارت ویسے تو کالج کی سینئر استاد ڈاکٹر طیبہ خاتون نے کی لیکن ساتھ ہی ہمارے شعبے میں اس وقت تقریبا آٹھ اساتذہ ہیں۔ ان سب کو اعزاز دینے اور اسٹیج کی رونق بڑھانے کے لیے اسٹیج پر مدعو کیا گیا۔ جن میں ڈاکٹر خالد اشرف، ڈاکٹر یحی صبا، ڈاکٹر محمد محسن، ڈاکٹر علاؤالدین شاہ،، محترمہ نور النساء، ڈاکٹر عامر اختر، ڈاکٹر غفران راغب ، ڈاکٹر انعام الحق ہیں۔ اس کے ساتھ طالب علموں میں سال اول، سال دوم اور سال سوم کے سبھی طلباء و طالبات موجود تھیں۔ اس الوداعی تقریب کو آراستہ کرنے میں شعبہ کی انجمن ’بزم ادب‘ کے اراکین نے کلیدی رول ادا کیا جن میں عامر آفاق، راحم رفیع، سلمان خان، جنید، فرحت، مسعود جاوید، صبا، دیبا پروین وغیرہ وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ یہ تھی دہلی یونیورسٹی کے تاریخی نوعیت کے کروڑی مل کالج کی اس تعلیمی سال کی مختصر روداد، جس میں اساتذہ کی شفقتوں اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا ذکر مختصرا آیا۔ اساتذہ کی مہربانیوں اور کالج کی سرگرمیوں کی تفصیل یوں تو ایک دفتر چاہتی ہے، جو انشا اﷲ کبھی ضرو پیش کروں گا۔ ابھی تو بس اپنے رب العالمین سے اتنی دعا ہے کہ اس کالج کو اور یہاں کے شعبہ اردو کو ہمیشہ ترقی اور شادمانی سے نوازتا رہے۔ آمین!
Dr. Mohammad Yahya Saba
About the Author: Dr. Mohammad Yahya Saba Read More Articles by Dr. Mohammad Yahya Saba: 40 Articles with 121219 views I have Good academic record with a Ph.D. Degree in Urdu “Specialization A critical study of Delhi comprising of romantic verse, earned Master’s Degree.. View More