مدارس کا نصابِ تعلیم

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد نے اس موضوع پر چند ماہ قبل ہماری صدارت میں ایک سیمینار رکھا تھا ،جس میں ہم علالت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے ، ایک مختصر اور جامع مقالہ بھی تحریر کیا تھا، جس کا لب لباب یہا ں ہم اس لئے پیش کیے دیتے ہیں کہ پچھلے کئی دنوں سے مولانا زاھد الراشدی جیسے نامور اہل قلم نے متعدد بار مختلف جرائد واخبارات میں اس مسئلے کا ذکر چھیڑدیاہے ۔

یہ طے ہے کہ نصاب تعلیم ،نظام تدریس اور مقاصد امتحانات کو جمود کا شکار ہرگز نہیں ہو ناچاہیے ،زمان ومکان کے تقاضوں ، ضروریات اور حوائج کو مد نظر رکھنے میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی ، نصاب تعلیم کی بنیادیں کیاہوں ،طرق تدریس میں نت نئے اور استفادہ کر نے والوں کے اذہان کے قریب تر کیاکیا انداز وذرائع ہوں ، امتحانات میں مطلوبہ معیار کے لیے کن کن تکنیک کو بروئے کار لایا جائے ،اس پر جدید دنیا میں مضامین ،مقالوں، کتابوں اور یو نیور سٹیز میں باقاعدہ ایجوکیشن ڈیبارٹمنٹز کا بہت بڑا اھتمام کیا گیاہے ، نیزروز افزوں اس پرمزید کام ہورہا ہے ،طرق التدریس واسالیب الامتحان ـکے حوالے سے پانچ سو صفحوں پر مشتمل عر بی میں ہم نے بھی ایک کتا ب تیار کی ہے ،وفاق المدارس میں بطور ناظم ورکن نصاب کمیٹی ایک طویل مدت (۲۳ سال ) تک خدمات بھی انجام دی ہیں ،ہمیں معلوم ہے کہ مذکورہ موضوع کی اہمیت کا انکار کبھی بھی نہیں رہا۔

دینی مدارس کے نصابِ تعلیم ،نظام تدریس اور طریقہ ہائے امتحانات میں ماشاء اﷲ بہت مفید تبدیلیاں لائی گئی ہیں ،وفاق المدارس اور اتحادِتنظیماتِ مدارس کے بزرگوں شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اﷲ خان ،مفتی احمد الرحمن مرحوم ،مفتی منیب الرحمن اور قاری محمد حنیف جالندھر ی نے بڑی حکمت ،دانشمندی اور دور اندیشی سے عصر حاضر کے تقاضوں کے ادراک کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث اور اسلامی فقہ کے اصولوں کومدنظر رکھکر ضروری حد تک عر بی وانگریزی کے فروغ کوشامل کر کے بڑے وقیع ،اساسی اور مفید ونافع ایسے تغیرات کئے ہیں کہ نصاب کا اصل حلیہ بھی بحال رہے اور جامعیت کا لبادہ اوڑھے ہوئے مقاصد بھی پورے ہوں ۔البتہ جمود سے بچنے کیلئے وقتافوقتا اس پر سیمینارز ،مذاکروں اور مجالس کا انعقاد ضروری ہے ،عر بی ،انگریزی ،بین الاقوامی تعلقات ،تاریخ ،جغرافیا،مکالمہ بین الادیان ، کمپیوٹر اور اوپن ایجوکیشن سسٹم کی طرف مزید پیش قدمی ہونی چاہیے۔

یہاں ’’ یارمن ترکی ومن ترکی نمی دانم ‘‘ والا لطیفہ بھی ہے ۔ منتظمین مدارس سے جدید علوم کو شامل کرنے کا مطالبہ ہوتاہے ، اور ادھر سے انکار دِکھتایا دکھا یا جارہاہے،۔حقیقت یہ ہے کہ نوروبشر، آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے علم غیب جاننے نہ جاننے، شہادت حسین اور فلسفۂ حسینیت میں اختلافات کی طر ح یہ ایک فرضی نزاع ہے ۔

باہم مل بیٹھ کر ایک دوسرے کا مدعا جان کر جیسے یہ مسلکی اختلافات کوئی سنگ حائل نہیں ،بلکہ سب نقطہ ہائے نظر اپنے اپنے قیود کے ساتھ قابل قبول ہیں ایسا ہی نصاب کا مسئلہ بھی ہے ۔

مثلا ،اردو ، معاشرتی علوم ،شہریت ،حساب ،مطالعۂ پاکستان اور انگلش شامل کرنے والوں کا مطالبہ دورۂ حدیث یا اس کے لیے اساس دیگر اسلامی وعربی علوم کے پیریڈ میں نہیں ہے ، بلکہ طلبۂ مدارس کو مفید شہری بننے ،زمانہ سے مربوط رہنے اور قومی دھارا یا مین اسٹریم میں لانے سے متعلق ہے ،جومیٹرک تک کے جنرل نصاب سے ممکن ہے ، اس کے بعد تو ویسے بھی اسپیشلائز یشن اور مختلف علوم وفنون کے کلیات کا دور ہوتاہے، لہذا مطالبہ کرنے والے درس نظامی کا نام لیے بغیر مدارس کے نظام میں شامل مڈل تک کی تعلیم کومیٹرک تک بڑھانے کا ہو نا چاہئے ،اس صراحت کے ساتھ کہ اوپر کی تعلیم درس نظامی کو یونیورسٹی میں دیگر فیکلٹیز کی طرح ایک کلیاتی حصہ سمجھا جائے ،گویا میٹرک کے بعد جس طرح سکولوں کے بچے میڈیکل ،سائنس اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں جاتے ہیں ،مدارس والے درس نظامی کے شعبے کو اپنائے۔

مدارس والے بھی نصاب میں تبدیلی کو قرآن وحدیث ،فقہ ومبادیات کے متعلق نہ لیں ، بلکہ جیسے انہوں نے مڈل تک کی تعلیم کواجباری قرار دیا ہے، پہلے اختیاری اور مرور ِزمانہ کے ساتھ اجباری ثانوی تعلیم جسے عرف عام میں میٹرک کہاجاتاہے ،نصاب کا حصہ بنائیں ، اس کے بعد بنات کی طرح اگر چاہیں تو بنین کیلئے نصاب ِدرس نظامی چھ سال کر کے توافق وتطا بق کیلئے سولہ سالہ کردیں ، نہ کرنا چاہیں تو انہیں اس پر مجبور نہ کیا جائے ۔

تنازع اس پر ہے کہ درس نظامی میں تبدیلی کی جائے ،ادھر سے کہا جاتاہے کہ یہ مبادیات و ضروریاتِ دین میں تبدیلی کا مطالبہ ہے ،لہذا مسترد کیا جاتا ہے ،حالانکہ ایسا نہیں ہے ،درس نظامی میں تبدیلی نہیں جنرل تعلیم میں تبدیلی واضافہ کا مطالبہ ہے ، لیکن عنوان میں درس نظامی کا لفظ شامل ہوگیاہے، مدارس کی طرف سے بھی جنرل تعلیم کا انکار کب کیا گیا ہے ؟ انکار تو درس نظامی میں تبدیلی کا ہے ، میڈیکل ،انجینئرنگ اور سائنس کے نصاب میں کیا ہوناچاہئے ،یہ اس کے ماہرین جانتے ہیں ،بالکل اسی طرح یہا ں دینی علوم میں کیا ہو،کیا نہ ہو ، یہ اسکے ماہرین جانتے ہیں ، کہتے ہیں ایک روٹی پر مختلف زبانوں کے دوآمیوں میں جھگڑا ہوا ، دونوں زبانوں کے ایک شنا سانے ریفری بن کر ہر ایک کا مد عاسنا، روٹی آدھی آدھی کر کے دیدی ، مسئلہ رفع دفع ہوگیا ، کیونکہ دونوں آدھی روٹی کا دعوی کر رہے تھے، مگر زبان ناشناسی کی وجہ سے خامخواہ کیلئے بات گریبانوں تک پہنچی، یہاں بھی شاید بایک دیگر سمجھنے کا مسئلہ ہے ۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 815524 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More