اصولِ فقہ کی اہمیت

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

اﷲ ربّ العزت نے بنی آدم کو صرف اپنی عبادت وبندگی کے لئے اس دنیائے آب وگل میں بھیجا اورپھر انسانوں کی ہدایت کیلئے وقتا فوقتا انبیاء ورسل کو مبعوث فرماتا رہا جو اﷲ تعالی کے احکام بندوں تک من وعن پہنچاتے رہے اور آخر میں خاتم النبیین رحمۃللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایااور نبوت کے سلسلے کوختم فرماکر تاقیامت شریعت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کو باقی رکھا،لہذا اب رہتی دنیا تک دینِ مصطفوی ہی کے احکام پر عمل کیاجائے گاکہ اس کے علاوہ دیگر شریعتیں منسوخ ہو گئیں ان احکام کا دارو مدار چار بنیادی مآخذ قرآن ، حدیث، اجماع اور قیاس پرہے۔

واضح رہے کہ قرآن وحدیث سے استدلال واستنباطِ مسائل ہر کس وناکس کا کام نہیں کیونکہ انسان کے لکھے ہوئے کلام کوبھی سمجھنے کے لئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے، کوئی گھر بیٹھے کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن جاتا بلکہ انہیں سمجھنے کیلئے یونیورسٹیز اور کالجز قائم کئے جاتے ہیں تو پھر کلام اﷲ تو کلام اﷲ ہے اسے بغیر استاد کے کیسے سمجھا جا سکتا ہے بلکہ سمجھنا تو دور کی بات ہے بغیر استاد کے اسے درست پڑھنا بھی دشوار ہے ۔

ایسے ہی حدیث رسول صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم سے استدلال واستنباطِ احکام ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہے خاص طور پر جبکہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ لوگوں نے بہت سی باتیں گھڑ کر معاذ اﷲ سید المعصومین صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کی طرف منسوب کردی ہیں۔جنہیں محدثین کی اصطلاح میں احادیثِ موضوعہ کہاجاتا ہے، لہذا احکام ومسائل کے استخراج کے لئے حدیث کی صحت وسقم،احوال ِرواۃ ، ان کے صدق وکذب وضبطِ صدر وعدالت وملازمت تقوٰ ی وغیرھا، سن پیدائش و وفات وصدہا اوصاف نظروملاحظہ میں درکارہوتے ہیں تب کہیں جا کر اس کی صحت وسقم کی جانچ ہوتی ہے پھر اس کے بعد معنی ومرادِ حدیث کو سمجھنا ایک نیا مرحلہ ہے جس کے لئے کئی علوم وفنون میں مہارت کے ساتھ ساتھ، تقوی واخلاص ،مجاہدہ وعبادت وریاضت درکار، تب کہیں جاکر انسان اس مقام پر پہنچتاہے کہ حدیث سے استدلال کرے۔

نیزیہ بات یاد رہے کہ جس طرح قرآن وحدیث احکامِ شرع میں حجت ہیں اسی طرح اجماع وقیاس بھی احکام شرعیہ میں حجت ہیں اور ان کا حجت ہونا بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔اﷲ تعالی ارشاد فرماتاہے: ﴿کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾اس آیت کریمہ میں بحیثیت مجموعی اس امت کو بہتر امت کہا اور فرمایا کہ تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو، پس اگر یہ امت برائی پر مجتمع ہوتی تو اسے بحیثیت مجموعی نیکی کا حکم دینے والی اور برائی سے منع کرنے والی امت نہ کہا جاتا معلوم ہوا کہ یہ امت کبھی برائی پر مجتمع نہ ہوگی اور جس پر یہ مجتمع ہوگی وہ اچھائی ہی اچھائی ہوگی۔

احادیث میں بھی متعدد مقامات پر اجماع کو حجت شرعی ہونے کی سند حاصل ہے۔ چنانچہ امام ترمذی حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنھما سے یوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَجْمَعُ اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ عَلٰی ضَلَالَۃٍ، وَیَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ وَمَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ)) اور انہی سے روایت کرتے ہیں:((اِ تَّبِعُوْا السَّوَادَ الْاَعْظَمَ فَاِنَّہٗ مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ)) اورحضرت ابو ذر رضی اﷲ تعالی عنہ سے یوں روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم کا فرمان ہے:((مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْراً فَقَدْ خَلَعَ رِبْقَۃَ الْاِسْلَامِ مِنْ عُنُقِہٖ))اس کے علاوہ اس بارے میں اور بہت سی احادیث موجود ہیں یہ احادیث اگرچہ آحاد ہیں لیکن ان سب کا مفہوم ومعنی مشترک ہونے کی وجہ سے یہ حدِ تواتر تک عروج کر کے متواترِ معنوی کی مسند پر جاپہنچتی ہیں اور یوں اجماع کی حجیت کا قطعیت کے ساتھ فائدہ دیتی ہیں۔ اسی طرح قیاس کی حجیت بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے،چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: ﴿فَاعْتَبِرُوْا یَا أُولِی الْأَبْصَارِ﴾اور حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالی عنہ کی معروف ومشہور حدیث میں ہے کہ جب سرکار صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو ان سے دریافت فرمایا : بِمَ تَقْضِیْ؟ یعنی تم کس چیز کے ذریعے فیصلہ کروگے۔توحضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالی عنہ نے عرض کی بِکِتَابِ اللّٰہِ یعنی کتاب اﷲ سے۔ فرمایا کہ اگر تم وہاں نہ پاؤ تو؟ عرض کی سنت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم سے، فرمایا: اگر وہاں بھی نہ پاؤ تو؟ عرض کی :اَجْتَہِدُ بِرَاْیي یعنی تو پھر میں اپنی رائے وقیاس سے کام لوں گا۔ اس پر سرکار صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِہٖ بِمَا یَرْضٰی بِہٖ رَسُوْلُہٗ یعنی تمام تعریفیں اﷲ تعالی کے لئے ہیں کہ جس نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق بخشی کہ جس سے اس کا رسول راضی ہے۔یہاں اختصار کے سبب بقیہ حدیث دربارۂ حجیت قیاس کو ترک کرتے ہیں، کتب ان احادیث سے مملو ہیں۔

واضح رہے کہ اجماع و قیاس کے لئے قرآن وسنت سے کسی دلیل کاہوناضروری ہے چنانچہ علامہ عبد الغنی النابلسی علیہ رحمۃ اﷲ القوی ’’شرح مرقاۃ الوصول ‘‘کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ ’’اجماع کے لئے کسی ایسی دلیل یا علامت کا ہونا ضروری ہے جس کی طرف اجماع منسوب ہو سکے کیونکہ بغیر کسی داعی کے سب کا کسی ایک بات پر متفق ہونا عادۃًمحال ہوتا ہے۔اوراس لئے کہ وہ حکم جس پر اجماع منعقد ہوتا ہے اگر وہ دلیل سمعی سے نہ ہو تو دلیل عقلی سے ہوگا حالانکہ یہ بات طے ہے کہ ہمارے نزدیک عقل کا کوئی حکم ثابت نہیں۔‘‘

حضرت سیِّدُناعلامہ تفتازانی قُدِّسُ سِرُّہُ النُّوْرَانِینے اپنی کتاب’’اَلتَّلْوِیْح‘‘میں فرمایا:’’ جمہور علماء کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اجماع بغیر کسی دلیل وعلامت کے جائز نہیں کیونکہ دلیل کا نہ ہونا خطا کو لازم کرتا ہے جبکہ دین میں بلا دلیل کوئی حکم دینا خطا ہے اوراُمت کا خطا پراجماع(اتفاق) ممتنع (ناممکن)ہے، اسی طرح بغیر کسی داعی کے سب کاایک بات پر متفق ہونا عادۃًمحال ہے جیسے ایک ہی کھانا کھانے پر سب کا اتفاق ناممکن ہے۔ اور اجماع کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے پائے جانے کے بعد بحث ختم ہوجاتی ہے،مخالفت ناجائزقرارپاتی اور حکم قطعی ہوجاتا ہے۔پھردلیل کے بارے میں بھی اختلاف ہے ،جمہور علماء کرام رحمہم اﷲ تعالیٰ کے نزدیک اگردلیل قیاس ہو تو یہ بھی درست ہے اور یہ واقع بھی ہے جیسے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُناابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے نمازکی امامت کروانے پرقیاس کرتے ہوئے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت پراجماع ہوا اوریہاں تک کہاگیاکہ ’’اﷲ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جن سے ہمارے دینی معاملہ میں راضی ہیں تو کیا ہم اُن سے اپنی دنیوی معاملہ میں راضی نہ ہوں ؟‘‘ نیز اجماع کے لئے خبر واحد دلیل بن سکتی ہے ،اس پرسب کا اتفاق ہے جیسا کہ عام کتابوں میں مذکورہے۔

اسی طرح قیاس کے لئے بھی کسی اصل کا ہونا ضروری ہے جو قرآن یاسنت سے ثابت ہوکیونکہ قیاس توحکم کوظاہرکرنے والاہوتاہے نہ کہ اس کوثابت کرنے والا۔چنانچہ،’’شَرْحُ مِرْقَاۃِ الْوُصُوْل‘‘ میں فرمایا:’’قیاس مُظْھِر(یعنی حکم کوظاہرکرنے والا)ہوتاہے ،مُثْبِت (یعنی حکم کوثابت کرنے والا) نہیں ہوتا۔اور ظاہر میں ’’مُثْبِت ‘‘ (قرآن وسنت سے) دلیلِ اصل ہوتی ہے اورحقیقت میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہے۔

تاریخ اسلام میں چار مجتہدین مشہور ہیں۔اﷲ کریم ان مجتہدین ِاسلا م پر رحم وکرم فرمائے کہ انہوں نے نہایت جانفشانی وعرق ریزی اور انتھک کوشش سے قرآن وحدیث سے صحیح احکامات ومسائل کا استنباط واستخراج کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل تیار فرما دیا ، اب جوشخص بھی ان میں سے کسی ایک کے طریقے پر عمل کرے گا ان شاء اﷲ عزوجل نجات پائے گا جب کہ اس کے برخلاف جو قرآن وحدیث میں اپنی ناقص عقل کو دخل دے گا ٹھوکروں پر ٹھو کریں کھائے گا( عَافَانَا اللّٰہُ مِنْہُ)۔

یہ مجتہدین کرام علم اصول فقہ میں بے پناہ مہارت وخداداد صلاحیت کی بناء پر وہ مسائل بھی حل فرمالیتے تھے جو کہ قرآن وحدیث میں صراحۃً نہیں ملتے اس طریقے سے مسائل کو حل کرنا قیاس کہلاتا ہے لیکن قیاس بھی نہ ہر شخص کے بس کاکام ہے اورنہ ہر شخص کے لیے جائز ۔

تنبیہ :
قرآن وحدیث اوردیگر علوم وفنون میں رسوخ کے سبب اِن مجتہدین میں یہ اعلی صفات موجود تھیں، لیکن آج کل جو اصولِ فقہ بصورتِ درس وتدریس پڑھائے جاتے ہیں ان سے اس قسم کے ملکہ استنباط کا پیدا ہونا ناپید ومفقود ہے چنانچہ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ جلد12صفحہ482 پر ارشاد فرماتے ہیں: ’’و مجتھد خود از صدہا سال مفقود است یعنی مستقل مجتھدتوصدیوں سے مفقود ہے۔‘‘تاہم پھر بھی اس علم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس علم کے دیگر اور بھی فوائد ہیں جنہیں’’ معارف الاحکام‘‘ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
(۱)…… مجتہد نے جن دلائل سے احکام کا استنباط کیا ہے ان سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے اور یوں غیر مجتہد کا ذہن احکام پر عمل کے لئے خوب مطمئن ہو جاتا ہے۔
(۲)……جن احکام پر امام سے دلیل منقول نہیں ہوئی اس فن کے ذریعے اس دلیل سے آگاہی ہو سکتی ہے۔
(۳)…… ان اصول سے آگاہی کی وجہ سے اپنے مذہب کا دفاع آسان ہوجاتا ہے۔
(۴)…… وہ حوادث ونئے واقعات جو امام صاحب کے دور میں پیش نہیں آئے تھے ان کا حکم ان قواعد کی روشنی میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
(۵)…… کچھ ایسے واقعات جو امام کے دور میں تھے مگر امام سے ان کے بارے میں نص یا تصریح نہ پہنچی تو ان قواعد واصول کی روشنی میں انہیں بھی حل کیا جا سکتا ہے۔

اس تمام بحث کے بعد یہ بیان کرنا بھی زیادتی ٔشوق کا باعث ہوگا کہ قرآن وحدیث سے مجتہدین کرام و فقہائے عظام کس طرح استنباط واستدلال کرتے ہیں چنانچہ اس کی چند مثالیں اختصار کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں۔

پہلی مثال:
فقہ کا قاعدہ ہے کہ:’’ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ‘‘ یعنی اشیاء میں اصل ان کا جائز ہونا ہے۔اس قاعدہ کا مطلب یہ ہے کہ تمام اشیاء واعمال مباح ہیں اور جب تک کسی شے کے بارے میں حرمت و ممنوعیت کی دلیل نہ ہو اسے ممنوع وحرام نہیں کہا جاسکتا۔اب اس اصول کا استخراج علماء وفقہاء نے جن نصوص سے کیا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں:قرآن کریم میں ہے:
(1)……﴿قُل لاَّ أَجِدُ فِی مَا أُوْحِیَ إِلَیَّ مُحَرَّماً﴾[الانعام: ۱۴۵]
(2)……﴿قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ﴾[الانعام: ۱۵۱]
(3)……﴿وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانتَہُوا﴾[الحشر: ۷]

ان آیات سے معلوم ہوا کہ جس کے بارے میں حرمت کی دلیل نہ ہووہ جائز ومباح ہے نیز جس چیز سے منع کیا جائے وہی ممنوع ہے اور جس سے منع نہ کیا جائے یا جس کے بارے ممنوعیت کی دلیل نہ ملے وہ مباح وحلال ہے۔اسی طرح بہت سی احادیث سے بھی اس قاعدے کا استنباط واستخراج ہوتا ہے۔ مثلاً :
(1)……((عن سعد بن وقاص عن ابیہ ان النبی صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم قال ان اعظم المسلمین جرما من سأل عن شیء لم یحرم فحرم من أجل مسئلتہ)) (صحیح بخاری)
(2)……((اَلْحَلَالُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ وَالْحَرَامُ مَاحَرَّمَہُ اللّٰہُ فِیْ کِتَابِہٖ، وَمَاسَکَتَ عَنْہُ فَھُوَ مِمَّا عُفِیَ عَنْہُ))۔ رواہ ابن ماجہ والترمذی
(3)……((اِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَیِّعُوْھَا وَنَھٰی عَنْ اَشْیَاءَ فَلَا تَنْتَھِکُوْھَا وَحَدَّ حُدُوْداً فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَسَکَتَ عَنْ اَشْیَاءَ مِنْ غَیْرِ نِسْیَانٍ فَلَا تَبْحَثُوْا عَنْھَا))۔ رواہ الطبرانی

دوسری مثال:
’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ یعنی ضرورت کے تحت ممنوعات بھی مباح وجائز ہو جاتے ہیں۔اس اصل کا استخراج واستنباط درجِ ذیل آیات سے ہوتا ہے:
(1)……﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَکُم مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْہِ﴾ [الانعام: ۱۱۹]
(2)……﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَیْرِ اللّہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلاَ عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَیْہِ ﴾[البقرۃ: ۱۷۳]

ان آیات سے شراب وخنزیر وغیرہ کی حرمت ثابت ہوتی ہے لیکن حالتِ اضطرار میں ان اشیاء کو حلال ومباح کر دیا گیاہے، جیسے اگر بھوک یا پیاس سے کسی کی جان جارہی ہو اور اسے خنزیر کا گوشت یا شراب میسر ہوتو انہیں کھا یاپی کر جان بچائے اسی طرح اور بہت سی آیات واحادیث سے علماء وفقہاء نے اصول وقواعد اورمسائل واحکام کا استنباط کیا ہے جن کی تفصیل وتشریح سے کتب دینیہ مالا مال ہیں ان اصول وقواعد اور ان کی شرح کا مطالعہ کرنے سے عقول حیران رہ جاتی ہیں جب کہ اس زمانے میں موجودہ دور جیسی سہولیات مثلا بجلی وکمپیوٹر وجدید نظام چھپائی موجود نہ تھا پھر بھی علوم کا اتنا بڑا ذخیرہ ہمیں ان بزرگوں سے ملا ہے بلا مبالغہ جتنا کام ان عظیم حضرات میں سے ہر ہر فرد نے کیا ہے سینکڑوں لوگ بھی آج مل کر ایسا کام نہیں کرسکتے اﷲ تعالی ہمیں ان بزرگوں کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔اﷲ تعالی کی ان پررحمت ہو اوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
iftikhar
About the Author: iftikhar Read More Articles by iftikhar: 5 Articles with 24043 views Bachlor in education
Dars e Nizami from Karachi,
Alim course 7 years
.. View More