اضطراب یا انقلاب

فرانس میںجب انقلاب آیا تو وہاں حالات بالکل ہمارے جیسے ہی تھے لیکن ایک فرق تھا کہ فرانسیسی ایک قوم تھے جبکہ ہم کبھی ایک قوم نہیں رہے ہیں، ہم توپنجابی،پٹھان، مہاجر، سندھی، بلوچی اور ناجانے کونسی کونسی قوموں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ انقلاب کے لئے ہمارا پاکستانی ہونا ضروری ہے۔

دو دن پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک رہنما نے میرے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کیا۔”میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو بھی تبدیلی کی بات کرتا ہے وہ لاہور یا پنجاب میں ہی کیوں تبدیلی لانا چاہتا ہے جبکہ مختلف غیر ملکی اور اندرونی سروے کہتے ہیں کہ پنجاب میں بہت واضع تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے۔ پنجاب میں ہی تبدیلی کا نعرہ کیوں لگایا جاتا ہے جبکہ کراچی یا سندھ میں تبدیلی کی کوئی بات نہیں کرتا جہاں میڈیا یرغمال بنا ہوا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ تبدیلی کے نام پر کچھ لوگ زرداری حکومت کو پھر سے پانچ سال کے لئے مسلط کرنا چاہتے ہیں“۔

یہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک عہدیدار کے خیالات تھے جو تمام اپوزیشن پارٹیوں پر سیخ پا ہیں کہ وہ اُنکی مخالفت پر کیوں بضد ہیں حالانکہ اُنکی کارکردگی مثالی رہی ہے۔ یہ خیالات تو اُنکا جمہوری حق ہے اور مخالفین کی اُن پر تنقید بھی جمہوریت کا حسن ہے لیکن اگر میرٹ پر دیکھا جائے تو یہ بعد بڑی حد تک سچ ہے کہ پنجاب حکومت کی بالعموم اورخادم اعلیٰ شہبازشریف کی پرفارمنس بالخصوص شاندار نہیں تو قابل ذکر رہی ہے۔ خصوصاً نوجوانوں کو جسطرح اُنہوں نے متحرک کیا ہے اور اُنکو عزت کے ساتھ ایک راہ دکھا ئی ہے اُسکی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ بے شک اُنکی سیاسی مجبوری تھی لیکن ووٹ تو پیپلزپارٹی کی بھی ضرورت ہیں تو اُنہوں نے ایسا اقدام کیوں نہیں کیا؟ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومتیں بھی ووٹ کی محتاج ہونگی۔ وہاں ایسا کیوں نہیں ہوا؟

اضطراب تو ہر طرف ہے اور انقلاب کی صدائیں بھی متواتر آرہی ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بحران،مسائل اور تنازعات ہی پاکستان ہیں۔ ہرشخص غرور،تکبر، خودپسندی، اشتعال اور جذباتیت سے بات کرتا ہے جبکہ صبروتحمل،میانہ روری، عقل اور ہوشمندی کہیں نظر نہیں آتی۔ چاہے عوام ہوں یا خواص ہرایک کا مطمع نظرمفاد پرستی ہے لیکن پنجاب کی حد تک معاملات کسی حد تک قابو میں ہے جبکہ باقی صوبوں میں حالات دگرگوں کیفیت دکھا رہے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے چار سال میں صرف کراچی میں سات ہزار افراد مختلف وارداتوں میں جاں بحق ہوئے ۔بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ خود حکمرانوں کےلئے نوگو ایریا بن چکے ہیں۔

جبکہ حکمرانوں کی یہ حالت ہے کہ ایک وزیراعظم نے اپنا ساراخاندان پارلیمنٹ میں بھیج دیا اورخود توہین عدالت کی سزا سے نااہل ہوگیا اور دوسرے نے آتے ہی اپنے داماد کو ورلڈبینک میں ملازمت دلوادی کیونکہ روٹی، کپڑا اور مکان کانعرہ وہ صرف اپنے لئے لگاتے ہیں عوام کے لئے نہیں۔

نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کے بارے چیف جسٹس کے ریمارکس کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لیکن کئی لوگ خصوصاً جناب عمران خان پنجاب حکومت کو ناکام ثابت کرنے پر تُلے ہیں کیونکہ ٹارگٹ تخت لاہور کا حصول ہے۔واقفان حال کہتے ہیں کہ عمران خان ہوں یا ڈاکٹرطاہر القادری کا انقلاب ہو اُسکا مرکزی نقطہ عمومی طورپر پنجاب اور بالخصوص لاہور ہوگا کیونکہ پنجاب کے لوگوں کی بڑی تعداد نظریاتی وابستگی کو مدنظر رکھ کر ووٹ کاسٹ کرتی ہے جبکہ علاقائی اور مسلکی تعصب کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔

سچ جو بھی ہو لیکن ایک بات طے کہ ملک بھر میں اضطراب کی سی کیفیت ہے کیا یہ اضطراب انقلاب کی بنیاد بن سکتا ہے؟
Habibullah Awan
About the Author: Habibullah Awan Read More Articles by Habibullah Awan: 2 Articles with 1996 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.