تعلیم سے ہمارا رویہ

کسی بھی ملک و قوم کی اخلاقی اور معاشی ترقی کا رازتعلیم میں پنہا ہے ہم بحیثیت قوم اب تک اس راز سے نا آشنا ہیں تعلیم نہ صرف انسان کی اخلاقی ترقی کا باعث بنتی ہے بلکہ مادی ترقی کا انحصار بھی تعلیم پر ہی محیط ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ:۔

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اپنی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر

دنیا میں جتنی بھی قومیں گزری ہیں ان میں سے اچھے نام سے انہی قوموں کو یاد رکھا گیا جں کی علمی اور اخلاقی بنیادیں بہتر تھیں، بحیثیت پاکستانی قوم تعلیم کے ساتھ ہمارا رویہ درست نہیں رہا ہے وہ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی معاملہ ہو تعلیم کو ہم نے ہمیشہ آخری ترجیح پر رکھا ہے، بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی حکمرانوں کی بھی تعلیم آخری ترجیح رہی ہے، (لک بزی ڈو نتھنگ) کی مصداق تعلیم کے نام پر شور تو بہت مچایا جاتا ہے لیکن اگر پریکٹیکل دیکھیں تو ساری توجہ کہیں اور ہی نظر آتی ہے اس کی بدترین مثال ہمیں یہ ملتی ہے کہ ١٩٧٠ میں جب تمام پرائیویٹ اسکولوں کو اس عزم سے نیشنلائیز کر دیا گیا کہ تعلیم کا معیار بہتر ہوگا لیکن اسوقت کی حکومت کا یہ عزم صرف خواب ہی رہا تعلیم اور نظام تعلیم کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی اب تو صورتحال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں ہزاروں (کھوسٹ) فرضی اسکول موجود ہیں جو کہ صرف حکومتی ریکارڈ میں تو ہیں لیکن حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، اساتذہ کو ان اسکولوں کے نام سے تنخواہ تو دی جاتی ہیں لیکن نہ تو اس اسکولوں میں کی کوئی عمارت ہے نہ کوئی طالب علم ایک سروے رپورٹ کے مطابق صوبہ پنجاب میں جہاں حکومت کا نعرہ تھا کہ (پڑھا لکھا پنجاب ہمارا)، گھوسٹ اسکولوں کی تعداد ٧٠٠ اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد ١٨٠٠ بتائی جاتی ہے جبکہ صوبہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کی تعداد ٣٤٠ اور گھوسٹ اساتذہ کی تعداد ٧٠٠٠ بتائی جاتی ہے۔

جس ملک میں کرپشن کا یہ عالم ہو کہ تعلیم جیسے مقدس شعبہ بھی اس ناسور سے کی انتہا ہے ہمارے حکمراں جماعت یہ دعویٰ کرتی آئی ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی ٤٧ فیصد ہے جبکہ غیر جانبدار اداروں کی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح خواندگی ٢٠ فیصد ہے۔

سنہ ٢٠٠٢ میں حکومت نے تعلیم پر اپنے سالانہ بجٹ کا ٣ فیصد رکھا تھا جو کہ تعلیم کی بہتری کے لیے بہت کم ہے عموماً تعلیم کے ساتھ یہ ہی ہوتا آیا ہے جبکہ ( یو این ای اس سی او) کے مطابق ترقی پزیر ممالک کو تعلیم کا بجٹ کم از کم اپنے جی ڈی پی کا ٤ فیصد رکھنا چاہیے، چاڈ جیسے معاشی طور پر کمزور ملک کا تعلیمی بجٹ اپنے جی ڈی پی کا ٦ فیصد ہے، تعلیم کے ساتھ حکومتوں کا رویہ تو کچھ اس طرح رہا ہی ہے لیکن تعلیم کے ساتھ عوام کا رویہ بھی کچھ بہتر نہیں ہے۔ پاکستانی عوام اپنے کھانے پینے اور دیگر ضروریات پر زیادہ اور جبکہ تعلیم پر صرف ١ فیصد کرتی ہے۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران۔