صرف 20 نمبر کا کمال؟

کیا امتحانی پرچوں کی دوبارہ جانچ پڑتال اور نمبروں میں اضافہ کرایا جاسکتا ہے؟ یہ ناممکن سوال فرح حمید ڈوگر کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے ممکن بنا دیا ہے آپ اس معاملے کو سیاست کے ہزار رنگ دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی نوعیت کے فیصلوں کو جتنا بھی تاویلوں کا سہارا دیا جائے عوامی معاملات عوامی ہی رہتے ہیں۔ انہیں خصوصی اور استثنائی نہیں بنایا جاسکتا ۔اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ خاص نوعیت کا معاملہ تھا اور یہ فیصلہ عدالتی فیصلوں کی نظیر نہیں بن سکتا تو اس کی خصوصیات گنوانی ہونگی ایک سادہ سا سوال ہے طلبہ کی جانب سے اضافی نمبروں کے لئے عدالتوں میں زیادہ درخواستیں کیوں آنا شروع ہوئیں۔ اس میں اگر دوچار سیاسی درخواستیں ہونگی مگر ایک دو تو واقعی ایسی ہونگی جنہیں فی الواقع اضافی نمبروں کی ضرورت ہوگی ۔

ہمارے ملک میں گریجویٹ اسمبلی سے لے کر ہر پڑھے لکھے شخص کو یوں مفت میں ملنے والے اضافی نمبروں کی ضرورت ہے درخواستیں دینے والے طلبہ نے دیکھا کہ جب ایک طالبہ کو اجازت مل گئی ہے تو انہوں نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ اب اگر ان تمام درخواستوں کو اضافی نمبروں کی اجازت ملنے لگ گئی توامتحانی بورڈ اور عدالتوں میں فرق کرنا مشکل ہوگا اگر انہیں اضافی نمبر نہیں مل پاتے تو قانون کی ساری دلیلوں کے باوجود یہ سوال ہر ذہن میں اٹھتا رہے گا کہ پھر فرح حمید کے اضافی نمبر کیسے درست قرار پائے یہ وہ سارے سوالات ہیں جو عام آدمی کے ذہن میں اُٹھ رہے ہیں ہم اس کیس کے سیاسی پہلو نہیں جانتے، ہم اس فیصلے کے سیاسی فوائد نہیں مانتے ہم تو پاکستان کے تعلیمی نظام کے نقصان کو جانتے ہیں کہ اس معاملے نے پاکستان کے تعلیمی اور امتحانی نظام میں موجودہ دبی ہوئی خامیوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جس طرح اعلیٰ تعلیم پی ایچ ڈی کی بنیاد نرسری اور پہلی کلاس کی پہلی اینٹ پر استوار ہوتی ہے۔ اس طرح امتحانی نظام میں یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی ڈگری تک اعلیٰ تعلیم کی ساری عمارت میٹرک اور انٹر بورڈ کی دیوار پر کھڑی ہوتی ہے جس امتحانی نظام میں ازسرے نو جانچ پڑتال کے ذریعے اضافی نمبروں کا معاملہ عدالتوں میں پہنچ جائے اور اسے عدالت سے سند جواز مل جائے کیا اس عمل سے ملک کی اعلیٰ ڈگریوں پر سوالیہ نشان نہیں لگیں گے۔ ملک کی اعلیٰ ڈگریوں کو اس امتحانی نظام کی خامیوں کے الزامات سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے ۔

یہ ہمارے تعلیمی ادارے اور یہ ہمارا امتحانی نظام ہمارے وہ اوزار اور ہتھیار ہیں جن کو لے کر ہم دنیا کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں۔ اس وقت دنیا میں اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد 17 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان سترہ ہزار یونیورسٹیوں میں عالم اسلام کی یونیورسٹیوں کی تعداد پوری ایک ہزار سے بھی نہیں ۔ سپر طاقت امریکہ سمیت غیر مسلم ممالک اس وقت دنیا پر حکومت کر رہے ہیں ۔انکی طاقت کا سارا راز ان 16 ہزار ایک سو یونیورسٹیوں کی کارکردگی میں ڈھکا ہوا ہے ۔

عالم اسلام میں اس وقت سب سے زیادہ یونیورسٹیاں انڈونیشیا میں ہیں۔ اس ملک کی آبادی 23 کروڑ ہے لہٰذا آبادی کی اس ضرورت پر اس کی یونیورسٹیاں عالم اسلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ انڈونیشیا میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ کوئی خاص ترقی کی دوڑ نہیں بلکہ آبادی کی ضرورت نے ان کی تعداد میں اضافہ کروا دیا۔ یونیورسٹی سٹی کے حوالے سے دنیا میں دو شہروں کو یہ اعزاز حاصل ہے جن میں ایک آکسفورڈ برطانیہ کا شہر ہے اور دوسرا ایران کا شہر قم ہے۔ یونیورسٹی سٹی کہلانے والے یہ دونوں عالمی شہر مذہبی لوگوں نے آباد کیے ہیں یہ بھی حیرت انگیز بات ہے عام طور پر مذہب کو سائنس سے دور سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کو علمی شہر دینے والے مذہبی افراد تھے۔ ایران دنیا میں دوسرا ملک ہے جس کے پاس ایسا شہر ہے جسے یونیورسٹی سٹی کا درجہ حاصل ہے۔ یونیورسٹی سٹی کہلانے کے باوجود عالم اسلام میں یونیورسٹیوں کی تعداد کے لحاظ ایران دوسرے نمبر پر نہیں۔ یہ اعزاز پاکستان کو حاصل ہے اس کی پرائیویٹ اور سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد ایک سو20 ہے جن میں نصف سرکاری یونیورسٹیاں ہیں ۔ایرانی یونیورسٹیوں کی کل تعداد 1 سو18 ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام میں سعودی عرب نے حرمین (مکہ مدینہ) کو یونیورسٹی سٹی کا درجہ دلانے کے لئے تعلیمی اداروں کا جال بچھانا شروع کردیا ہے۔

ہم عالم اسلام میں یونیورسٹیوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود ہم کسی شہر کو یونیورسٹی سٹی کا درجہ دلانے کی کوشش کرتے یہ خام خیالی رہی ایک طرف۔ اس کی منصوبہ بندی دور دور نظر نہیں آتی مگر ہم نے آگے بڑھنے کی بجائے اپنے امتحانی نظام کی بنیاد کھودنا شروع کر دی ہے اور اضافی نمبر دلانے کی راہیں تلاش کر لی ہیں جس سے ہماری یونیورسٹیوں کی تعداد نے اہمیت کھو دی ہے اور اب ان پر اعتماد بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے آج ہم یہ فخر بھی نہیں کرسکتے کہ دنیا کی17 ہزار یونیورسٹیوں میں ایک سو20 ہماری بھی ہیں ۔

ان ایک سو20 یونیورسٹیوں کے آگے ہمارا امتحانی نظام آگیا ہے جس میں حاصل کردہ نمبروں میں کمی یا اضافہ کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے امتحان کا وقت گزرنے پر نمبروں میں کمی یا اضافہ یہ کھلی دھوکہ دہی کے سواء کچھ نہیں۔ دکھ یہ نہیں کہ ہم 1 سو20 یونیورسٹیوں کی بنیاد پر کسی شہر کو یونیورسٹی سٹی نہیں بناسکے۔ دکھ یہ ہے کہ ہم ایک سو 20 یونیورسٹیوں کا وقار بھی نہیں بچاسکے یہ ہماری ایک سو20 یونیورسٹیاں بظاہر17 ہزار کے مقابلے میں کچھ نہیں مگر ہمارے لئے یہ ہی یونیورسٹیاں آکسفورڈ بھی ہیں اور ہارورڈ بھی ہیں۔ یہ ہمارا قومی تعلیمی سرمایہ ہیں اگر ہم آج ایٹمی قوت ہیں اور اگر ڈاکٹر عبدالقدیر ہمارے محسن ہیں تو اس اعزاز کی بنیاد ہمارے ان ہی تعلیمی اداروں نے فراہم کی ہے۔ محسن پاکستان کو تعلیمی بنیاد اور ابتدائی تعلیم ہمارے ان ہی اسکول کالجز سے میسر آئی ۔ اس امتحانی نظام نے انہیں آگے بڑھنے اور بیرون ملک جاکر اعلیٰ تعلیم تک لے جانے میں ابتدائی مدد دی ۔ ہمارے 2 لاکھ سرکاری تعلیمی ادارے ہی ہمارا کل قومی تعلیمی سرمایہ ہیں ۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ صرف 20 نمبروں نے 2 لاکھ تعلیمی اداروں اور ایک سو20 یونیورسٹیوں کے وقار کو مجروح کر دیا ہے کسی ترقی پزیر ملک کے لئے عالمی اعزاز اتنا اہم نہیں ہوتا ہے جتنا اس ملک کے اندر اس کے اداروں کا وقار اہم ہوتا ہے ہمارا تعلیمی لحاظ سے کسی ملک سے مقابلہ نہیں مگر ہمارے ملک کو جس تعلیمی قابلیت کی ضرورت ہے اس کے لئے عالمی اعزاز نہیں قومی وقار ضروری ہے ہم نے صرف 20 نمبروں کی خاطر وہ وقار وہ اعتماد وہ عزت مجروح کر دیا ہے اب ہمیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں رہی کہ ہمارے نوجوان ڈگریاں لے کر بے روزگار کیوں گھومتے ہیں؟
Zubair Ahmed Zaheer
About the Author: Zubair Ahmed Zaheer Read More Articles by Zubair Ahmed Zaheer: 7 Articles with 5590 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.